خالق و فرمارواں کائنات ایک ہی ہےاس نے انسانی ہدایت ورہنمائی کے لئےپیغمبروں کو مبعوث کیا اس سچائی و حقیقت کو پالینا گویادُنیا کی سب سے بڑی سچائی کو پا لینا ہےانسان مخلوق ہونے کے ناطے اس کے ہاں مسئول ہے یہ حقیقت ان تمام گھتیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہےجو انسانی زہن میں اس سچائی سے منہ موڑ کر الجھنیں پیدا کر رہی ہے اور انسان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔‘‘ کم و پیش یہ خیالات ان تمام نو مسلم سسٹرز کے رہے ہیں جن سے اب تک میری ملاقات رہی ہے۔ نو مسلم خواتین کے قبول اسلام کے بعد تسلیم و رضا کے عین وہ ایمان افروز لمحات، جب انسان پہلی بار اپنی پیشانی زمین پرٹکاتا ہے ان کا مشاہدہ کرنے کا مجھے بارہا موقع ملا ہے۔
کچھ عرصہ قبل مجھے ایک خاتون کو قبول اسلام کے بعد نماز اور وضو سکھانے کی ذمہ داری سونپی گیئ۔ مسجد میں ہماری ملاقات ہونا طےپائی۔جب ہم مسجد پہنچے تو نمازعصر کا وقت ہو چکا ۔میں نے انہیں وضو سیکھایا اور کہا کہ آپ یہاں ایک طرف بیٹھ جائیں۔ میں با جماعت نماز پڑھ لوں پھر آپ کو نماز سکھاؤں گی۔کہنے لگی مجھے اگرچہ نماز کے الفاظ نہیں آتےلیکن کیا میں جماعت میں شامل ہو سکتی ہوں۔میں نے کہا کیوں نہیں یقینا اپ شامل ہو سکتی ہیں۔امام کیساتھ تکبیر کہہ کر ہم نے ہاتھ بلند کئے تو اس نے بھی ہماری تقلید میں تکبیر کہی اور سینے پر ہاتھ باندھ لئے۔ پہلی رکعت کے پہلے سجدے سے ہم آٹھے تو وہ سسٹر سجدے سے نہ آٹھی ہم نے نماز مکمل کر لی مگر وہ بدستور حالت سجدہ میں تھیں۔ نماز کےبعدبھی میں کافی دیر منتظر رہی بالآخر اس نےسجدے سے سر آٹھایا تو انکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں نے تنہا چھوڑنا مناسب سمجھااور ایک طرف جا بیٹھی۔ کافی دیر بعد وہ خود اٹھ کر آئیں اورمیرے سامنے بیٹھ گئی،خود ہی گویا ہوئیں۔کہ دراصل یہ میری زندگی کا پہلا سجدہ تھا۔ کہنے لگی جونہی کہ میری پیشانی زمین پر لگی۔ میری زبان سے بے اختیارنکلا۔’’میں تیری بندی ہوں۔تیرے پاس آئی ہوں، مجھے معاف کر دےکہ میں اب تک تجھے بھولی رہی‘‘۔۔۔ کہنے لگیں یکدم مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا پورا وجود آغوشِ رحمت کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔دل میں ایک مٹھاس اور ایساسکون میرے رگ و پے میں اترنے لگاجو نا قابل بیان ہے۔ مجھے محسوس ہونے لگااگویا میں بہت ہلکی پھلکی ہو رہی ہوں اور میرے تمام ذہنی تفکرات کو دھویا جا رہا ہے بوجھل دل ہلکا ہو رہا تھا۔ مجھےایسی اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا ۔ جیسے کوئی انتہائی محبت کیساتھ میرےطرف متوجہ ہے اور بن کہے مجھے سنے جا رہا ہے۔کہنے لگی میری زبان سے بس یہی نکل سکا” اے الله میری مدد فرما مجھےنہ چھوڑنا۔میری رہنمائی فرما‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل زندگی میں بے شمار مواقع پر عبادت کی ہے چرچ میں جا کر دُعایئں مانگی ہے۔اس سے قبل بھی اکثر وبیشتر خدا سے مخاطب رہی ہوں مگر تب تصورِ خدامجسم انسانی تھا۔لیکن آج ہرشبیہ سے پاک ذہن کیساتھ میں اپنے ربّ سے مخاطب ہوئی ہوں ۔ کہنے لگی اس سے قبل میں نے خدا کوعقلی و نظری طور پر تسلیم کیا تھا مگر آج میں نے اسے اپنے اندر احساس کی سطح پر پالیا ہے۔ جس نے میرے ایمان و یقین کو کئی درجہ بڑھا دیا ہےاور اب میرے لئےایک خالق ناقابل انکار حقیقت ہے‘‘۔
اسی طرح ایک دوسری نارویجن بہن کا واقعہ ہے مجھے کسی نے فون کیا کہ ایک نارویجن خاتون مسلمان ہو نا چاہتیں ہیں ۔ان کو رہنمائی چاہیے۔ میں نے مسجد جانے کا مشورہ دیا۔ واپس پیغام ملا کہ وہ ذاتی طور پرکسی مسلمان کو نہیں جانتی ۔اور کبھی مسجد بھی نہیں گئی لہذا اگر ممکن ہو تو میں ان کی مدد کر دوں۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتی لہذا جتنی جلدی ممکن ہو میں انھیں اپنے ساتھ مسجد لے جاؤں۔مسجد رابطہ کرکے امام صاحب سے بعد از نماز جمعہ کا وقت لیا۔ میں مسجد میں منتظر بیٹھی تھی کہ طے شدہ وقت پر مجھے ایس ایم ایس موصول ہواکہ سسٹر کی طبیت خراب ہوگئی ہے انھیں تھوڑی دیر ہو جائےگی۔ آدھ گھنٹے بعد دوبارہ میسج آیا کہ وہ ٹیکسی پکڑ کرآرہی ہیں۔ چونکہ میری بھی اس سسٹر سے پہلی ملاقات تھی لہذا مجھے تجسس تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ایک دوسری خاتون کا سہارا لئے ہوئے ٹیکسی سے اتری تو ان کے جسم پر کپکی طاری تھی غالبا وہ پچاس سال کے لگ بھگ تھیں معلوم ہوا کہ انھیں عین گھر سے نکلتے ہوئےاپلیپسی کا اٹیک ہواہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کااصرار تھا کہ وہ انھیں ہسپتال ہی لے کر جائے گا۔مگر ہوش آنے کے بعد انہوں نے ٹیکسی ڈرایور کو مجبور کیا کہ وہ گاڑی کو واپس مسجد کی جانب موڑ دے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ہسپتال جا نا چاہیےتھا مجھے اندازہ ہے کہ آپ ایک تکلیف دہ کیفیت سے گذر رہی ہیں۔ سہارا دے کر ہم نے انہیں میٹینگ روم میں بیٹھایا۔ کہنے لگی ’’یہ بارہ سال کا سفر ہے جسے میں نے آج ہر حال میں طے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہےآج کسی چیز کو رکاوٹ بننے نہیں دینا چاہتی،‘‘۔ بیمار ی کے سبب بات کرنے میں انھیں دقت پیش آرہی تھی۔اور میں انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ مگر وہ بولی کہ’’ وہ بارہ سال قبل اسلام کی حقانیت کو جان چکی تھیں۔مگر انھوں نے قومی تفاخراور اہل خانہ و عزیز اقارب کی مخالفت کے خوف سے اپنے اندر اس سچائی کو دبائے رکھا ہے۔ لیکن اب ان کے پاس وقت کم ہے اور اب کسی خوف کو خاطر میں نہیں لانا چاہتیں‘‘۔ کلمہ شہادت کی ادائیگی کے وقت انکی کیفیت بہت عجیب ہوئی ۔اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے روتی رہیں۔ پھر بولی میرے خدا مجھے معاف فرمانا۔انہوں نے بتایا کہ کلمہ شہادت کی ادائگی کے وقت انہیں ایسا محسوس ہواہے جیسےکسی نےانکواندرسے دھو ڈالا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور انتہائی پرسکون محسوس کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سرگرم سوشل ورکر رہی ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے غیر ملکیوں کو معاشرے میں ضم کرنے کے بہت سے پراجیکٹ پر کام کیا ہےہمارے سامنے انہوں نے عہد کیا کہ’’ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اور صلاحیتیں اسلام کی راہ میں وقف کریں گی‘‘۔
مادیت پرست مغربی انسان اپنے اندر روحانی خلا کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور محسوس کرتا ہےمگ چند خوش قسمت ہی اس دلی پکار پر لبیک کہتے ہیں سچائی کی تلاش و جستجو میں بالآخر اسلام ہی کو عقلی و منطقی دین سمجھتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔ ایک وقت تھاکہ جب کبھی اکا دکا نارویجن اسلام قبول کرتا تو اسلامی حلقوں میں انتہائی پذیرائی ملتی اور اپنائیت سے استقبال ہوتا۔ اب جبکہ اس تعداد میں اضافہ ہورہاہےاسلامی حلقوں میں ان سے تعلق داری میں انتہائی سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بعض اوقات نو مسلم خواتین اسلامی مراکز کےکونوں میں الگ تھلگ بیٹھی یا دین سیکھنے کی درخواست کرتی نظر آتیں ہیں۔ مسلمانوں کی اس عدم دلچسپی و بے اعتنائی کا گلہ ایک نشست میں بہت سی نو مسلم بہنوں نے کیا۔اسلامک کلچرل سنٹر نظمِ طالبات نے اس صورتِ حال کے پیش نظر ان کے لئےالگ شعبہ قائم کیا ہے جہاں نومسلم کی رجسٹریشن کے بعد انہیں مسلمان طالبات کی زیر سرپرستی بنیادی دینی تعلیم اور دوستی کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ یہ مسلمان طالبات مسلسل رابطہ کے ذریعے انہیں اس راستے میں پیش آمدہ مشکلات میں دل جوئی اور عملی ضروریات میں مدد بھی کرتیں ہیں یہ طریقہ کار مسلمان خاندانوں کیساتھ نومسلم کے روابط کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔اگرچہ یہ ایک ایسی افرادی قوت ہے جسے مناسب دینی تعلیم و تربیت کے ذریعے مقامی معاشرے میں دعوت دین کے لئے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا کوئی باقاعدہ نظام نہ ہونے کے سبب یہ خواتین صوفی ازم کی طرف متوجہ ہو جاتیں ہیں۔ اورکچھ روایتی اسلامی خاندانوں کا حصہ بن کر زندگی گذار رہیں ہیں۔اسلامک کلچرل سنٹر طالبات کے طریقہ کار میں مزید بہتری کے ذریعے امید کی جا سکتی ہے۔ کہ انہیں باقاعدہ اجتماعیت کا حص(ہ بنا کر کام کیا جائے گا۔در حقیقت یہی لوگ مقامی معاشرے میں اسلام کی صحیح و بے باک ترجمانی کر سکتے ہیے۔سنٹر کی یہ طالبات چونکہ مقامی زبان پر عبور رکھتیں ہیں اسی لئے انہیں سنٹر کی طرف یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ نو مسلم کی تعلیم و تربیت کے لئے اقدامات کریں۔الله سبحان و تعالی سے دُعا ہے تین سال قبل اس شعبہ کو قائم کرنےاور سرپرستی کرنے والوں کو بہترین اجر عظیم سے نوازے۔
آمین۔۔۔
فیس بک تبصرے