اس وقت میں احاطہ عدالت میں موجود تھی،ایک مقامی این جی اونے باروم میں لیکچر دینے کیلئے مجھے مدعو کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’اسلام کا نظامِ عدل‘‘۔ کورٹ کے باہر کا مخصوص ہلچل زدہ ماحول، ٹریفک کارش اور عدالت کے اندر کا ماحول جو پہلی بار وہاں جائے وہ تو خاصی دیر اس ماحول میں خود کو اجنبی ہی محسوس کرتا ہے۔ ابھی کورٹ کے اندر ماحول کی ہلچل اور دہکم پیل کے درمیان میں راستہ بنانے کی کوشش میں مصروف تھی کی اچانک میری نظر دائیں جانب پڑی ایک ادھیڑ عمر شخص ہتھکڑی لگا ہوا جسکو دو سپاہیوں نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا وہ اسے تیز چلنے کو کہہ رہے تھے جبکہ اس کو دیکھ کے گمان ہوتا تھا کہ اس کے قدم من من بھر کے ہوگئے ہوں۔ پھر سامنے سے ایک اور آدمی ہتھکڑی میں انتہائی ملگجے سے لباس میں ایک سپاہی کے سا تھ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک کمرے میں داخل ہوگیا۔ ہتھکڑی لفظ ہی کتنا دہشت ناک ہے۔ پھرآپ قریب سے کسی کو ہتھکڑی میں دیکھیں تو دل ودماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں انکو بیان کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔
کسی مجرم کو دیکھ کر جو سب سے پہلی بات یا خیال دل میں آتا ہے وہ تویہی کہ کاش اس نے جرم نہ کیا ہوتا۔ پھر ایک ہمدردی فطری طور پر پیدا ہوتی ہے کہ کیامعلوم کیا حالات ہوں جن میں اس نے اقدام جرم کیاہو؟ اس کا جرم کیاہوسکتا ہے؟؟ میراذہن مسلسل اس داڑھی والے ملگجے لباس میں ملبوس آدمی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شاید وہ قاتل ہو یا اس نے اغوا کی واردات کی ہو۔ بہت ممکن ہے ریپ کا کیس ہو۔ کیا پتہ بے چارے کو کسی بااثر آدمی نے سازش میں پھنسادیا ہو؟ آگے کیا ہوگا۔ کیا سزائیں ہونگی انکو۔ کیامعلوم موت کی کال کوٹھڑی انکی منتظر ہو۔ ان کے اہل خانہ کتنا دکھی ہونگے۔ ہتھکڑی لگے آدمی سے کوئی آزادی کی قدر سیکھے۔ انسانی اقدار کی پامالی انسان کو حیوانیت کے قریب لے جاتی ہے۔ کیا سزائیں معاشرے کیلئے واقعی اصلاح کا کام کرتی ہیں؟ پھر جیلوں میں رہنے والے عادی مجرم بن کرکیوں نکلتے ہیں؟ حالانکہ جیلوں کو تو اصلاح خانے ہونا چاہئے۔ وہاں تذکیر کا اہتمام ہو۔ سچی توبہ کروائی جائے، انکو معاشرے کا مفید شہری بننے میں ان کی مدد کی جائے۔ وہ کون سے سماجی رویے ہوتے ہیں جو کسی آدمی کو جرم تک لے جاتے ہیں، ارتکاب جرم کے بعد مجرم کے ساتھ سماج کا کیسا رویہ ہونا چاہئے؟ لیکچر سے فارغ ہوکر میں وہاں موجود خواتین وکلاء سے اس حوالے سے تبادلہ خیالات کرنے لگی۔
روزمحشر کو یاد کرنا ہو تو یہ عدالت بڑی اچھی جگہ ہے، اس یاددھانی کیلئے ایک ہلکی سی جھلک۔ اس دن کی جب حقیقی عدالت بپا ہوگی۔ یہاں آکر احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ مجرم کتنا نادم ہوتا ہے ارتکاب جرم کے بعد۔ وہ چاہتا ہے کہ اسکی معافی قبول کرلی جائے۔ ہر ہتھکڑی لگا شخص یہی چاہتا ہوگا کہ بہت کچھ دیکر اس ذلت سے نجات پاجائے۔ اسکے پیارے اسے اس ذلت سے نکال لیں۔ وہ بہت کچھ دیکر بھی چھوٹ سکتا ہے تو سب کچھ قربان کرکے ایک بار آزادی حاصل کرلے!
جرم کی تاریخ بھی تو انسانیت کی تاریخ جتنی ہی پرانی ہے اور اسلام نے تو جرائم کی سزائیں تجویز کی ہیں۔ عدل کا نظام قائم کیا ہے۔ انسانیت یکدم تاریکی سے نکل کر روشنی میں آگئی تھی جب رحمت العالمین ﷺ نے فرمایا کہ ـخدا کی قسم محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اسکا بھی ہاتھ کا ٹ دیا جاتا۔ اور تم سے پیلے کی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں ہیں کہ کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو چھوڑ دیا اور کمزور کو سزا دی جاتی ۔ (مفہوم حدیث)۔ جب عدل کا نظام قائم ہوگیا تو دور جاہلیت اپنی موت آپ مر گیا۔
ہتھکڑی لگے وہ دونوں آدمی جن کو میں نے چند قدم کے فاصلے سے دیکھا پر میرے تصور میں آگئے ہیں کہ کیا جرم ہوگا انکا۔ کوئی ایک آدمی مارا گیا ہوگا؟ ایک دو کو ہی اغوا کیا ہوگا؟ کسی ایک خاندان کی بیٹی کی عزت داؤ پر لگی ہوگی انکی وجہ سے، ایک محلہ کوئی چھوٹا سا گاؤں متاثر ہوگیا ہوگا۔ ہاں انکو ہتھکڑی لگنی چاہئے اس لئے کہ اسلام میں ایک فرد پوری کائنات ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ جس نے کسی ایک جان کو ناحق ہلاک کیا اس نے پوری انسانیت کو ہلاکت سے دوچار کیا۔ اور کسی نے ایک جان کو بچایا اس نے گویا کہ پوری انسانیت کو بچا لیا۔ اور انسانی جان کو رب کعبہ کی قسم کعبہ سے بھی محترم قرار پائی ہے یونہی منہ کالا ہونا چاہئے۔ جگ ہنسائی ہونی چاہئے کوڑے لگیں یا موت کی سزا ہو مگر معاشرہ تو جرائم سے پاک ہو۔ مجرم سے ہمدردی گویا جرم سے ہمدردی ہے۔ اسلئے کتنی سزاؤں کو سر عام دینے کا حکم ہے کہ لوگ جرم سے نفرت کرنے لگیں! یہ کسی گاؤں کا پٹواری ہوگا، کوئی مزدور، کہیں کا چپڑاسی، کوئی ریڑھی لگانے والا اس لئے تو کتنا آسان تھا اس کو ہتھکڑی لگانا۔ اور یقینا سزا بھی ہو جائے گی اسکو جرم ثابت ہونے پر اسلئے کہ مہنگے وکیل کرنا کہ اب بیچارے کے بس کی بات ہوگی۔ عدالت میں پیشی کے لئے آنے والے افراد چاہے جتنے بھی بڑے مجرم ہوں لیکن ان میں سے کسی نے بھی
- پاکستان کے آئین کو دوبار نہیں توڑا۔
- بلوچستان کو آگ میں جھوکنے اور بگٹی کے قتل میں ملوث نہیں ہوگا۔
- قوم کی عزت مآب بیٹی عافیہ کو فروخت نہ کیا ہوگا نہ اپنی کتاب میں خزینہ ذکر نہ کیا ہوگا کہ وہ قوم کی ماؤں، بہنوں کو کتنی قیمت ڈالروں میں وصول کرتا رہا ہے۔
- ان میں سے کسی کا یہ جرم تھا کہ اس نے فوج اور عوام میں وہ خلیج پیدا کردی ہوکہ جسکا پاٹنا مشکل ہو اور فوج کو ملک کے عوام سے لڑوادیا ہے۔
- ان میں سے کوئی بھی لال مسجد کو مسمارکرنے اورجامعہ حفصہ کی معصوم طالبات کا قاتل نہیں ہے۔
- ان میں سے کسی نے بھی قوم کو ایٹمی طاقت بنانے والے ہیرو کو مجرم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔
- ان میں سے کوئی بھی 17 کروڑلوگوں کو وار آن ٹیئر کی جنگ میں جھوکنے کا مجرم نہیں۔
- ان میں سے کوئی مجرم ایسا نہیں ہوگا کہ ہر جرم کے بعد اسکی رعونت بڑھتی گئی ہو اور عدالت کے بار بار بلانے پر بھی وہ پیشی پر نہ جائے۔ اور کالے کوٹوں کے خوف سے سفید کوٹوں کے پیچھے پناہ لے لے۔
- ان میں سے کتنے مجرم ہیں کہ جنکی بیماری کو اتنی اہمیت دی جائے کہ انہیں بیرون ملک علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
یقینا ہم تباہی کے کنارے اس لئے پہنچے ہیں کہ ہم اس دور جاہلیت میں واپس چلے گئے ہیں جہاں با اثر کیلئے قانون اور تھا اور با اثر کی لئے اور مشرف کا فیصلہ 17 کروڑ لوگوں کو ایک سمت متعین کرنے کے لئے کہ ہمیں دور جاہلیت میں زندہ رہنا ہے یا جہالت سے نکلنے کے لئے ایک منظم تحریک برپا کرناہے۔۔۔
یقینا ہم تباہی کے کنارے اس لئے پہنچے ہیں کہ ہم اس دور جاہلیت میں واپس چلے گئے ہیں
موجودہ حالات پر خوبصورتی سے تطبیق کی ہے۔ کاش حاکم وقت استثنیٰ مانگنے کی بجائے خودعدالت میں پیش ہوجایا کریں ۔حکم ماننا نہیں تو کم از کم عدالت کی اتنی توقیر تو کر لیں۔۔۔
Bilkul theek farmaya aap nay