من حیث القوم جیسا وقت اس وقت ہم پر آن پڑا ہے ایسا اس سے پہلے تو نہ تھا، خودکش حملہ آور، مسلسل دہشتگردی، لگتا ہے ملک اسلحہ اور بارود کا ڈپو بن چکا ہے۔ پوری قوم کی نظریں مذاکرات پر لگی ہیں۔ اور ماقبل مذاکرات سبوتاز کرنے کی سازشیں بھی منظرعام پر آچکی ہیں۔ بندگلی میں کھڑی قوم، الجھی ہوئی ڈور کا کوئی سرا ھاتھ نہیں آتا۔گھنٹوں اہل سیاست ودانش ٹاک شوز کررہے ہیں۔پیش گوئیاں ہورہی ہیں۔قلم کاروں کی سیاہی مختلف آپشنز پر لکھتے لکھتے خشک ہورہی ہے۔ایسے میں اہل علم وہنر کیا دور کی کوڑیاں لارہے ہیں ملاحظہ ہو۔13فروری کو روزنامہ جنگ میں معروف اینکر پرسن وکالم نگار حامد میر رقم طراز ہیں کہ’’میں سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان میں کوئی میری ریڈ میگوائر موجود ہے جو پاکستان کی عورتوں کو امن کے نام پر اکٹھا کرسکے؟ جو صرف بم دھماکوں میں مرنے والی عورتوں اور بچوں کے قتل کی مذمت نہ کرے، جو صرف پولیو ورکرز پر حملوں کو وحشی پن قرار نہ دے۔۔۔ آج پاکستان کو کسی مائی ریڈمیگوائر کی ضرورت ہے جو صرف کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات کی مذمت نہ کرے بلکہ شمالی وزیرستان میں بے گناہ عورتوں اور بچوں کی اموات کے ذمہ داروں سے بھی سوال پوچھے‘‘ اب یہ وقت آگیا کہ ملک کے اہل دانش وبنیش کسی نجات دہندہ کے انتظار میں بے کل ہیں۔اور وہ نجات دہندہ شاید ایک عورت کے روپ میں سامنے آئے گی۔ بالکل ایسے جیسے کوئی بچہ کسی کھلونے کی ضد کرتے کرتے روتے ہوئے سو جائے اور خوابوں میں کوئی اڑن کھٹولا آجائے اور بچہ شہزادے کی روپ میں اڑن کھٹولے پر سوار بادلوں کو چھوتے ہوئے سوچے کہ میری گرفت میں تو بادل ہیں، بجلیاں ہیں، بس ابھی آسمان تک پہچوں گا اور تاروں سے آنکھ مچولی کھیلوں گا۔ اب قوم کے انوکھے لاڈلے کھیلن کو چاند مانگ رہے ہیں جو انہیں ’’ریڈ میگوائر‘‘کی صورت میں نظرآرہا ہے۔ خواہش تو درست ہے جب ریاست کی تمام فورسز ناکام ہوجائیں، عدلیہ کی حیثیت ٹک ٹک دم ،دم نہ کشیدم ہوجائے ۔ حکمران حکمرانی کے نشے میں چور ہوں، سڑکوں پر ہر آن تازہ لہو بہ رہا ہو، میڈیا کا گلاچیختے چیختے بیٹھ چکا ہوں، جہاں غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے مزید قرض لینا پڑرہے ہوں، مہنگائی کا عفریت غریبوں کو ایسے ہی نگل رہا ہو جسیے ٹارگٹ کلنگ بے گناہوں کو۔ ظلمت شب میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے تو جگنو کا انتظار ہی کرتا ہے ڈوبتا ہوا دل۔ وہ جگنو اب میری ریڈمیگوائر کی تصوراتی شکل میں ہی سہی دل ودماغ کو ضوفشانی کیلئے کچھ تو درکار ہے کہ
وہ حَبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔
اب رات کے پچھلے پہر ایک میری ریڈ میگوائر افق کے اس پار آسمانوں سے اترے گی اسکے ہاتھوں میں سفید کبوتر ہونگے وہ دونوں بازوپھیلاکر کبوتر فضا میں اڑائے گی اور امن کی فاختائیں چہچہاتی ہوئی دور آسمانوں سے قطاریں بنائے نازل ہونگی اور ان کی چونچوں میں امن کے سندیسے ہونگے۔ گھر گھرامن کے سندیسے طلوع صبح سے قبل وہ پھینک جائیگی اور پاکستان بھر میں امن کی صبح طلوع ہوجائیگی! سچ مچ میری ریڈمیگوائر آئے گی تو آپ کہیں گے’’تم کون ہو؟‘‘ چلئے اس کے آنے سے قبل اس کا تعارف حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل ایک ٹی وی پروگرام میں بھی اس عورت کا ذکر سنایا گیا تھا کہ دردِدل کو دوا درکار ہے اور قوم کو مسیحا !1976 کی نوبل امن انعام یافتہ یہ خاتون جو شمالی آئرلینڈ کے شہربلفاسٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ وقت جب شمالی آئرلینڈ میں آئرش ری پبلک آرمی اوربرطانوی فوج میں برسہا برس لڑائی جاری تھی اور اس لڑائی میں میری ریڈمیگوائر کے تین معصوم بھانجی بھانجہ لقمہ اجل بن گئے تھے تب اس نے عورتوں کی تنظیم ’’ویمن فارپیس‘‘ بنائی۔ امن کے متلاشی لوگ امن کی اس دیوی کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑے اور اس نے بڑے بڑے مظاہرے کرکے آئرش ری پبلکن آرمی کو برطانوی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرلیا جس کے نتیجے میں 1998ء میں امن معاہدہ ہوگیا اور لہو کی لالی کی جگہ سرخ گلابوں نے لے لی۔
اب اگر قدامت پسند دینی حلقے میری ریڈمیگوائر کی نجات دہندہ کے طور پر قبول نہ کریں اور شرعی جوازپیش کریں تو ہماری تاریخ تو ملکہ سبا بلقیس، حضرت عائشہ صدیقہ، رضیہ سلطانہ، چاندبی بی، بیگم بھوپال اورمحترمہ فاطمہ جناح کی روشن مثالیں پیش کرتی ہے۔ حقیقت توحقیقت ہے اس کوکوئی پسند کرے یا نہ کرے، ویسے بھی اس وقت ہم حالت اضطرار میں ہیں اور اس حالت میں تو بہت کچھ ناجائز بھی جائز ہوجاتا ہے اور گوارا کیا جاسکتاہے!
پھر دنیا بھر میں عام قوانین کے علاوہ ہنگامی قوانین بھی بہرحال ہوتے ہیں اورپاکستان تو 9/11 کے بعد سے ہنگامی حالات ہیں ہی۔ عورتوں کی صلاحیتوں سے انکار کوئی مردِ ناداں کرسکتاہے بھلا؟ اسرائیل کی گولڈامیئر، سری لنکا کی بندرانائکے، پڑوس میں بھارت کی اندراگاندھی، برطانیہ کی مسزمارگریٹ تھیچر،فلپائن کی مسزکوری اکینو،ارجنٹائن کی مسزازابیلا، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد، خالدہ ضیاء خود پاکستان میں بینظیربھٹو نے روشن خیالی کے ساتھ عورتوں ہی نہیں مردوں کے حقوق کیلئے بھی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں! ویسے بھی روشن خیال علماء دین کہتے ہیں کہ اسلام نے قائدانہ کردار کیلئے عورت اور مرد کی تحصیص نہیں کی صرف صفات کا ذکرکیا ہے۔ سورہ بقرہ میں کہ’’اللہ نے اغیار کے مقابلے میں اسکو(حضرت طالوت)کو منتخب کیا اوراسکو دماغی وجسمانی دونوں قسم کی اہلیت فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں‘‘(سورہ بقرہ 247)گویا صلاحیتوں کوشرعی حجت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔کہ اب باصلاحیت عورتیں قوم کی کشتی کو پارلگاسکتی ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے
- منصب خلافت کیلئے ایک مرد حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا۔
- علم حضرت آدم ؑ کو مر حمت فرمایا یعنی اشیاء کے نام سکھائے۔
- فرشتوں سے کسی کوسجدہ کرایاتو وہ حضرت آدمؑ تھے نہ کہ حضرت حوا۔
- نہ خداوند تعالیٰ نے کسی عورت کونبوت کے منصب پر فائز کیا نہ اس پرکتابیں اتاریں۔
- عورت بغیرمحرم کے حج وعمرہ تک ادا نہیں کرسکتی ۔عورت کو مرد کی اطاعت کاحکم ہے جبکہ مردکوعورت سے حسن سلوک کا۔
- سورہ نساء میں مردوں کو عورتوں پرقوام کہا گیاہے۔
- اللہ کے نبیؐ نے تو کسی عورت کو کبھی فوج کی کمانڈ دی اور نہ امیر حج مقررکیا۔نہ والی بنایانہ گورنر۔
قوانین فطرت سے بغاوت کرنے والے حضرت لوطؑ کے زمانے سے لیکرآج تک موجود ہیں۔ جواہل فارس کی طرح کسریٰ کی بیٹی کے سرپر تاج رکھنے کو بے چین ہیں۔ ترمذی میں مذکورہے کہ ’’جب تمہارے امورمملکت عورتوں کے سپرد ہوجائیں تو تمہارے لئے زمین کا پیٹ اسکی پیٹھ سے بہترہے‘‘(جلد۲صفحہ ۵۱)حقیقت تویہ ہے کہ جب قوم کی کشتی بھنور میں ہو اور اس کے مرد اپنے بازؤں کی قوت چپؤں میں منتقل کرنے سے معذور ہوجائیں، جب مُردوں کے ٹیلوں (موئن جوڈارو) کو قوم کے نوجوان مقام عبرت بنانے کے بجائے رقص وسرور کاٹیلہ بنادیں۔ جب قوم کے جوان تیروتلوار کے بجائے طائوس ورباب میں گم ہوجائیں اوراسی کو ثقافت قراردینے کی ضد کریں۔ جب ’’جہاد‘‘سے روگردانی کی جائے تواسی طرح ’’وہن‘‘ لاحق ہوگا۔ آپ ؐ سے پوچھا گیا کہ وہن کیا ہے؟ فرمایاگیا ’’حُب الدنیا وکراہیتہ الموت‘‘ یہ موت سے کراہت کی انتہا ہے کہ اپنی قوم کی زندگی بچانے کی خاطر قوم کے جواں شمشیراٹھانے کے بجائے نجات دہندہ کے طورپر کسی عورت کا انتظارکریں۔ کیونکہ کسی محمدبن قاسم کا انتظار کرنے کا تو اب قوم میں حوصلہ نہیں۔ کیونکہ محمد بن قاسموں کی حمیت توقصرسفید کی کنیزثابت ہوئی۔ نہ ڈرون گراسکے نہ وارآن ٹیرر کا قلاوہ گردن سے اتارسکے۔ ہم نے تو اچھی سمجھ بوجھ والے لوگوں کو بھی ’’مہدی موعود‘‘ کاانتظار کرتے دیکھا تھا۔ چلیں اب میری ریڈمیگوائر کا انتظارکرلیتے ہیں جوسپیدہ صبح کے ساتھ ہی فاختاؤں کے لشکرلیکر اترے گی۔۔۔ لیکن اگرغضب خداوندی کوجوش آگیا اورفاختائوں کے بجائے ابابیلیں آسمان پرنمودارہوگئیں تو۔۔۔
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند ویونان ہیں حلقہ بگوش جس کے
کیا یہی ہے معاشرت کاکمال
مردِ بے کار،زنَ تہی آغوش
فیس بک تبصرے