’لڑکیوں کو آخرتعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے،روٹیاں ہی تو پکانی ہیں۔‘
’بھئی ہماری بیٹی بہت ذہین ہے،پڑھائی میں ہی مصروف رہتی ہے،گھر کے کام نہیں آتے اسے‘۔
’اتنا پڑھ لکھ کر بھی ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے،تو محنت کا فائدہ ہی کیا ہے‘۔
یہ جملے ہمارے کانوں سے اجنبی نہیں ہیں، کم و بیش ہر ایک نے کہے یا سنے ہیں۔ ان سب میں ایک بات موافق ہے کہ من حیث القوم یہ ہماری سطحی نظر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد ہماری غلام ذہنیت کے لیے صرف اور صرف نوکری حاصل کرنااور اس کے ذریعے معاشی حالات بہتر کرنا ہے۔ کیا گھر کا انتظام چلانا اتنا ہی برا کام ہے؟ کیا اپنے بچوں کی تربیت میں وقت صرف کرنا سعی ِلاحاصل ہے؟
مغربی تہذیب کی یلغار نے خودغرضی اور مادہ پرستی کوعام شعار بنا دیا ہے،ہر ایک کا فرض صرف اپنی فکر کرنا رگیا ہے،اس خودغرضی نے بچوں کی پرورش اور گھر کے کام کرنا فرض سے بدل کر بوجھ بنا دیا ہے۔ تعلیم کا آخر مقصد کیا ہے؟؟ َعورت کو قدرت نے مشینیں بنانے کے لیئے بنایا ہے یا کارخانہِ دنیا چلانے والے انسانوں کی تعمیر کی ذمہ داری اسے د ی ہے۔ہر دو میں سے بہتر مقصد اور ذمہ داری کونسی ہے؟
کیا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ماں نے اپنی زندگی ضائع کردی تھی؟
تعلیم کا اصل مقصد دراصل انسان کو میدانِ کارزار کے لئیے تیار کرنا ہے، اسے شعور دینا اور خدا تعالٰی کی پہچان کروانا ہے، بیٹی کے والدین بنا کراللہ نے آپ کے ہاتھ میں کی آنے والی نسلوں کی جنت کی کنجی پکڑا دی ہے۔اس کی درست تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو اس کے مقصد حیات کا ادراک ہونا ضروری ہے۔آپ جانتے ہیں کے آپ کی بیٹی جذبات و احساسات ،صلاحیتوں اور قابلیتوں کے اعتبار سے آپ کے بیٹے سے مختلف ہے۔بڑے ہو کر اسے معاشرے میں اپنے بھائی سے مختلف ذمہ داری نبہانی ہو گی،اس کا دائرہ کار بالکل مختلف ہوگا،یہ دونوں الگ میدانوں کے سپاہی ہیں تو انہیں ایک جیسی تیاری کروانا انصاف ہوا یا ناانصافی؟؟؟اآئن سٹائن نے کہا تھا کہ ذہانت کا معیار صلاحیت کے اعتبار سے ہو نا چاہیے،اگر آپ مچھلی سے درخت پر چڑھنے کا امتحان لیں گے تو وہ باقی تمام زندگی اپنے آپ کو بیوقوف سمجھتی رہے گی۔ اپنی بیٹیوں سے محبت کا تقاضہ ہے کہ انہیں عورت رہنے دیجیے ان پر وہ بوجھ نا ڈالیے جو مغرب نے آزادی کا ڈھونگ رچا کر اس کے سر ڈال دیے ہیں۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب ِنظر موت
وہ بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہِ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
کیکر کا بیج بوکرآم کی امید کرنا بیوقوفی ہے، مغربی اور لڑکیوں کی فطرت سے متصادم تعلیم دے کر جہاں اسے سکھایا جاتا ہے کہ اسکی زندگی کا مقصد career woman بننا ہے،خودمختار آزاد یِ نسواں کی علم بردار عورت کو اسکا آئیڈیل بنا کر،اسکی گھر میں رہنے والی ماںیا دیگر رشتہ دار خواتین کی تحقیر کر کے، اس کی ذہن سازی بالکل الٹ سمت میں کرنے کے بعد امید لگانا کہ وہ امام غزالی اور ڈاکٹر اسرار
پیدا کرے گی، بھی احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔
نئی نسل کے بگاڑ اور تیزی سے بڑھتے ٹوٹتے خاندانوں کے رجحان کا رونا رونے سے بہتر ہے کہ مسئلے کی جڑ کا سد باب کرنے پرزور دیا جائے۔ مسلہ صرف یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کو انکی فطرت سے متصادم تعلیم دینا آئیندہ نسلوں کی ناقص تربیت کی وجہ بنے گی اور اس لیئے انہیں اپنے شوق اور ترقی کی راہیں مسدود کرنی ضروری ہیں، ذاتی طور پر میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں جنہوں نے اچھے نمبرز کے ساتھ پروفیشنل تعلیم حاصل کی ،نوکریاں بھی کیں، لیکن چند ہی سالوں میں ان کا دل اوبھ گیا اور کسی گائوں کی مٹیار کی طرح گھر بسانے کے خواب دیکھنے لگیں۔انکی تعلیم انکے لیئے وبال بن گئی،انکی اچھی نوکریوں نے انکا اسٹیٹس بڑھا دیا ،انہی کہ جتنے تعلیم یافتہ مردوں سے بھی کہ مرد پر تو اوروں کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ عورت کا کمانا وقت گزاری کے لیئے ہوتا ہے، اس سے لڑکیوں کی پسند کا معیار بڑھ گیا جس کا نقصان عورت کو ہی ہوا، اپنے اسٹینڈرڈ کے رشتہ کے انتظار میں بال سفید ہونے لگے، جنہوں نے معیار سے کمتر ساتھی قبول کرلیا وہ نباہ نہ کر سکیں اور جو گھر بنا پائیں وہ بھی اس دکھ کے بوجھ تلے کہ زندگی ضائع ہو رہی ہے۔ اس آزادی کے نعرے نے عورت کو ڈپریشن اور غیر فطری زندگی کا تحفہ دیا ہے۔
اس بات کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی جائے اور انہیں گھروں میں قید کردیا جائے، جیسے کہ کچھ انتہا پسند وں کا نظریہ ہے کہ جودرحقیقت تعلیم اور مغربیت کوایک ہی چیز سمجھتے ہیں،اسلام تعلیم کے خلاف نہیں ہے قرآن تو خود تدبر اور سوچ و فکر کی دعوت دیتا ہے، بار بار انسان کو اس کی پیدائش ، دنیا کی تخلیق ، دن اور رات کے آنے جانے پر، پہاڑوں اورآسمانوں پر نگاہ کرنے اور ان کی تخلیق پر غور کرنے پر ابھارتا ہے ۔ کسی ایک جگہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مرد غور کریں اور عورتیں نہ کریں۔لیکن ایسی تعلیم جو انسان کو اس کی بنیاد سے دور کردے، اسے زہر سمجھتا ہے۔
یوںقتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نا سوجھی
رسول اللہ ؐ نے اپنی ازواج کی تعلیم کا انتظام کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے تو صحابہ مسائل پوچھا کرتے تھے۔ ابن ِ عسکری کے مطابق بارہویں صدی عیسوی میں مسلمان عورت کو یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم کی سہولت حاصل تھی، اسپتالوں میں پریکٹس کرنے والی پہلی ڈاکٹرزبھی مسلمان عورتیں تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان اعلی تعلیم یافتہ عورتوں نے جو معا شی طور پر بھی مستحکم تھیں، حقوقِ نسواں کی کوئی تحریک چلائی نا ہی ان کے کام اور دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی اہم اکائی گھر متاثر ہوا۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ مسلمان عورت جو دین کا مکمل فہم رکھتی ہو، جانتی ہے کہ اسے معاشرے میں اپناآپ منوانے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اللہ نے اسکے لیے بہترین آزادی ِنسواں بل چودہ سو سال پہلے منظور کر دیا تھا۔برخلاف مغربی عورت کے جسے چرچ نے برائیوں کی جڑ قرار دیاتھا،مسلسل معاشرتی استحصال نے وہاں فیمنسٹ تحاریک کو جنم دیا ۔مسلمان عورت کو ایسا کوئی مسلہ کبھی درپیش ہی نہیں تھا وہ ہمیشہ سے صرف اللہ کی غلام ہے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مغربی تعلیم ،سیکولرنظامِ تعلیم ہے جس کی بنیاد صرف اور صرف انسان کے انٹلیکٹ پر ہے، چرچ کے سائنس سے اختلاف نے عیسائیت کوگرجاوئں تک محدود کردیا ۔ مذہب سے دوری نے انسان کو مادیت کی طر ف مائل کردیا ۔اس کلچر سے جنم لینے والا علم، تعلیم و ترقی غرض ہر چیزکی بنیاد مادیت پر ہے، مادیت خودغرض بنا دیتی ہے۔جس کا نتیجہ ہم ساری دنیا میں خاندانی سسٹم کی تباہی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔اسی لیئے اکبرالہ بادی نے اسے بچون کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تربیت میں دین کو اولین ترجیح دی جائے، دین کے قائم کردہ معیارات اور حدود کو تعلیم سے مضبو ط کیا جائے۔ اپنے بچے کو قرآن سکھا دیجیے ،قرآن اسے سب کچھ سکھا دے گا۔ اسکے علاوہ دنیاوی تعلیم میں لڑکیوں کیلیئے انکے دائرہ کار اور مزاج کے مطابق مضامین چننے چاہیے، جیسے میڈیکل،نرسنگ ،تعلیم،litreture ،ہوم اکنومکس اورفنونِ لطیفہ وغیرہ ۔جو انکی زندگی میں انکے بھی کام آئیںاور انہیں معاشرے میں مفید بنائی۔
اگرآپ اپنی اولاد کو دینی بنانا چاہتے ہے توآپ کوخود اپنی زندگیاں دین کے مطابق کرنی ہوں گی کہ آ ٓپ ہی اپنی اولاد کے سب سے پہلے استاد ہیں،اور آپ انہیں جو چاہیں بتائیں وہ آپ کے عمل کو اپنائیں گے۔ آپ سے آپ کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔
hhmmm, hain to kafi sari baat samajhne ki, lekin koai samajhne ko tayyar nahi hai, tabdili kehne se nahi aati, tabdili lane keliye khud hum ko tabdil hona hoga, kehte hain na, Kuch Paney ke liye kuch Khuna bhi parta hai,
تعلیم اور مغربیت ایک چیز نہیں۔ مگر آکسفورڈ کے نصاب کیساتھ مغربی تہذیب کو بھی امپورٹ کیا گیا ہے۔ مدرسوں کی تعلیم میں دنیوی تعلیم نہیں اور اسلامی تہذیب کو بھی انتہائی بوسیدہ انداز میں پیش کیا جا تا ہے ۔۔۔ اچھی تحریر ہے۔