پچھلے ہفتے کی بات ہے نارتھ کراچی بذریعہ بس جانے کا قصد کیا۔دو آپشن تھے یا تو محسود کوچ یا پھر نیپا سے W-18 کے ذریعے جا یا جائے ۔کافی دیر نیپا اسٹاپ پر کھڑے رہنے کے بعد یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ جوہرموڑ سے آنے والی زیادہ تر بسیں اوور ہیڈ برج پر سے بالا با لا ہی گزر رہی ہیں ۔ شایداسی لئے کوئی بھی معقول شخص بس کا انتظار کر تا نظر نہ آ یا !اب پھر دو آ پشن تھے۔ سیدھی طرح رکشہ کر لیا جائے یا پھر w-18 کو کسی طرح جا کر پکڑا جائے؟
جو افراد راشد منہاس روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے سنگم پر واقع پل سے واقف ہیں انہیںاچھی طرح معلوم ہے کہ اس پر سند باد کی طرف سے آنے والی سڑک موڑ پر کتنی تنگ ہے اور یہاں ٹریفک اورلوگوں کا کتنا دبائوہے۔ اور اوپر سے وہاں مسافروں کے انتظار میں کھڑے رکشے اور چن جیز! وہاں کھڑے ہو کر بس کا انتظار کر نا ہم جیسے بے وقوفوں کا ہی کام تھا۔ عقلمند افراد تو دھڑا دھڑ چنجیز سے اتر اور چڑھ رہے تھے۔ ہمارے علاوہ صرف ایک لڑ کا اور ایک خاتون کھڑے تھے لیکن وہ پرائیوٹ گاڑیوں کے منتظر تھے اور جب وہ بھی روانہ ہوئے تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔
اب ہونا تو یہ چاہئیے تھاکہ سیدھی طرح رکشہ پکڑ لیتے مگر ہم کو بھی ضد چڑ ھ گئی کہ آ ج عوامی سواری سے سفر کر نا ہے۔آپ اسے ہر گز ہماری معاشی مجبوری نہ سمجھیں ! ایک ہزار کا نوٹ ہمارے پرس کی اندرونی جیب میں تھاجبکہ سو پچاس ،دس بیس کے کئی نوٹ بیرونی جیب میں کرائے کی مد میں موجود تھے۔ ہم ذرا سفر کو مشاہداتی بنانے پر تل گئے اور اللہ کا نام لے کر ناگن کی آ واز لگاتے ایک سی این جی رکشہ کم چن جی میں بیٹھ گئے۔ سوچا کہ ناگن سے کوئی اور سواری پکڑ لیں گے مگر اسی لمحے یہ خیال بھی دامن گیر ہوا کہ جس جگہ سے ساری زندگی گزرتے رہے وہاں کے روٹ کی اپ ڈیٹ تو معلوم نہیں اور اس نئی سی جگہ پر من پسند سواری کاکتنا امکان ہے؟ مگر فوراً ہی یہ فکر اطمینان میں بدل گئی جب پتہ چلا کہ یہ تو ٹھیک اسی جگہ جارہی ہے جہاں ہمیں جاناہے!
ٹھہریں ہمیں اپنے الفاظ واپس لینے دیں، اس بے ہنگم سواری میں اطمینان ،چیل کے گھونسلے میں ماس کے مترادف ہے۔معذرت! اس کی تذلیل کا ہر گز ارادہ نہیں مگر اس کی حر کات تو دیکھیں ! ہر جنبش پر ہم پہلو بدلنا چاہتے مگر ممکن نہ تھادو خواتین کے در میان سنڈوچ بنے بیٹھے تھے۔ خیر ان میں سے ایک تو ہماری اس سواری سے عدم واقفیت جان کر مستقل ہمیں کچھ نہ کچھ بریفنگ دے کرہمارے حوصلے بڑ ھا رہی تھیںمگر دوسری خاتون کی پر اسرارخاموشی ڈرا بھی رہی تھی۔۔ پورے سفرکے دوران موٹر سائیکل سوار کر تب دکھاتے جب قریب پہنچتے تو ہماری گھگھی بندھ جاتی اور ہم پشت کی طرف مزید سمٹ جاتے ۔ اس چکر میں گر دن میں چک سی آ گئی۔
ایک تو اس میں اترنے اور چڑھنے کا کا کیا معاملہ ہے جہاں کوئی کھڑا نظر آ یا روک لی۔ کارواں بنتے اور مٹتے رہے۔ ایک شاندار قسم کی ذہنی ہم آ ہنگی تمام مسافروں میں نظر آ رہی تھی۔ ایک معذور شخص کو جس محبت اور اہتمام سے چڑھوایا اور اتروایا گیا اور تمام مسافروں نے جس دلسوزی کا مظاہرہ کیا ہم بہت متاثر ہوئے اور دل چاہا کہ کاش اس منظر کی ریکارڈنگ کر کے میڈیا کو دکھائی جائے کہ یہ کراچی ہی ہے جہاں کی نفرتوں کے احوال دکھا دکھا کر ہلکان ہوئے جا رہے ہو!
منزل کے قریب پہنچ کر ہم تھوڑا ہوشیار ہوکر بیٹھے اور گھروں کی قطار میں موجود ایک میدان کو ڈھونڈنے لگے جہاں ہمیں اترنا تھا مگر کافی آ گے آ کرجب بہت سی نئی نئی جگہیں نظر آ نے لگیں تو معلوم ہوا کہ ہم اپنے اسٹاپ سے کافی آ گے آگئے ہیں ۔ کرایہ کی مد میں اس نے پچیس روپے طلب کیے جبکہ پینتیس روپے کاٹ کر بقایا ہمارے ہاتھوں پر رکھ آ گے رواں دواں ہوگیا۔ اس سفر میں اپنی جان کا صدقہ ہم نے دس روپے ہی فقیر کو دینے کا سوچا تھا مگر جب بد عنوانی کے ذریعے ہم سے اینٹھ لئے گئے تو افسوس کے مارے برا حال تھا! خوامخواہ اپنے بے وقوف بننے کا احساس ہوتا ہے۔اس خیال کو دور کرنے کے لئے ہم نے اس کو نادانستہ غلطی کی خوش گمانی دے کر اپنے بے وقوف بننے کا ٹا ئٹل از خود واپس کر دیا۔
پیدل منزل کی طرف روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ میدان میں عمارت کھڑی کر دی گئی نہ جانے قانونی تھی یا غیر قانونی( لینڈ ما فیا کا کمال )۔ خیر اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہاں بے چینی سے ہمارا انتظار ہورہا تھا۔ موبائیل دیکھا تو کئی مس کالڈ تھیں۔ اب بھلا اس سفرمیں کہاں گنجائش تھی کہ فون اٹینڈ کرتے؟مگر یہ شاید ہماری سہل پسندی تھی ورنہ ہم نے ڈرائیور سمیت تقریباٍ ہرایک کو وقت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے پایا۔
معزز قارئین!
اس سفر نامے میں کوئی خاص بات نہیں ہے کیونکہ کراچی کے لاکھوں شہری اسی طرح سے اپنی اپنی منزلوں تک پہنچتے اور پھر واپس ہوتے ہیں!ہونا تو یہ چا ہئیے کہ قارئین خود با ت کی تہہ تک پہنچ جاتے کہ اصل ایشو کیا ہے مگر کیا کریں کہ اسکول ؍کالج میں اردو ؍ انگلش دونوں زبانوں میں پیرا گراف دے کر سیاق و سباق کے ذریعے سوالات اٹھائے جاتے ہیں مگر ہمارا تعلیمی نظام ؟ جو کچھ سیکھتے ہیں بقول ہمارے ایک ٹیچر تعلیمی اداروں میں ہی پٹخ کر آ تے ہیں۔ چنانچہ معصوم معصوم قارئین کے لئے ہمیں خود ہی سوالات اٹھانے ہوں گے اپنے متعلقہ ایشوز کی طرف متوجہ کر نے کے لئے!ورنہ کچھ لوگ( آپ کے علاوہ) اپنے کمنٹس میں اس قسم کے بلاگ لکھنے پر ہماری ذہنی حالت پر تشویش کا اظہار کر سکتے ہیں لہذا کچھ معروضات ہیں جو ہم اپنے قارئین کی سوچ بچار کے لئے سامنے رکھ رہے ہیں ۔
پندرہ ملین کی آبادی رکھنے والے کراچی کے باشندے کیوں قصبے اور دیہات کی سواری پر سفر کرنے پر مجبور ہیں (ہمارا ارادہ ہر گز بے چارے غریب مسافروں اور طالب علموں کو سستی سواری سے محروم کر نا نہیں ہے، بلکہ ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ کراچی کے شہریوں نے منوں مٹی پھانکی ہے ان برجوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے ، صرف اس امید پر کہ بلٹ ٹرین نہ سہی بڑی بڑی بسیں چلیں گی اور سفر کی مشکلات آسان ہوں گی۔خود ہم نے بے شمار شاندار آفرز محض صرف اس وجہ سے قبول نہ کی تھیں کہ درمیان میں موجودٹیلے اور پہاڑ سر کرنے کی ہمت نہ تھی)۔
جہاں تک رکشہ اور چنگ چیز کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے تو عرض یہ ہے کہ کمپیوٹر کی ایجاد پر بھی انسان کے بیکار ہونے کاخوف اسی طرح ہوا تھا مگر سب نے دیکھا کہ کمپیوٹر آ پریٹر اور اس کے بعد مزید کس طرح مواقع بڑھتے چلے گئے۔ چھوٹی سواریاں کم فاصلوں اور گلیوں کے اندر جانے کے لئے جہاں بسیں نہیں پہنچ سکتیں بہت آ ئیڈیل ہیں ۔
اب اپنے مطالبے پر واپس آ ئیں!
٭ شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم بنا یا جائے۔ یہ شہریوں کا حق ہے
٭ غیر قانونی تعمیرات کا نوٹس لیا جا ئے۔
٭ شہر کے پارکوں اور میدانوں کو قبضہ گروپوں سے نجات دلائی جا ئے۔
٭ شہر کی صفائی ستھرائی کی جائے۔
٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
مطالبات تو اور بہت سے ہو سکتے ہیں مگر بحیثیت ایک شہری ہم شہری حکومت کے دائرہ اقتدار کی بات کر رہے ہیں ۔ مگر وہ ہے کہاں ؟
کون سی شہری حکومت ؟ اس کا ناک نقشہ کیسا ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا مطلب شہر کو موہن جوداڑو بنانے کے ارادے سے جڑی ہے۔ اور جب تک دودھ کی نگرانی بلے ّ کے پاس ۔۔۔گورنر ہائو س کی طرف نہ دیکھیں برائے مہر بانی! یہ وہ مقام ہے جہاں پر جلنے کا خطرہ ہے ۔۔۔کچھ اور مقامات بھی ہیں اس شہر میں جن کا تقدس ؟
پھر کیا کریں ؟؟؟ فیصلے کا اختیار آپ کے پاس ہے ! بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں!
کیا آپ نعمت اللہ جیسا ناظم شہر چاہتے ہیں جو اس عمر میں بھی با حوصلہ اور پر امید ہے یا مصطفٰی کمال جیسا دو نمبر ناظم جو اس جوانی میں بھی ناامیدی اور بے چینی کا شکارہے؟ شہر کو کھنڈر بنانے پر اس کی باز پرس ہمارا حق ہے۔
ضرورت ہے ایک ذمہ دار اور امانت دار ناظم کی جو شہریوں کو ایک باعزت شہری مقام دے سکے ؟
اس بلاگ کو مکمل کر نے سے پہلے ہمیں ڈینٹسٹ کے پاس جا نا پڑا ۔واپسی میں G -25 کے انتظار میں بہت دیر کھڑا رہ کر ( سردی کی وجہ سے دھوپ میں معمول سے زیادہ انتظاربھی کر لیا) انکشاف ہوا کہ وہ بھی شاید بند ہوچکی ہے لہذا گھر پہنچنے کے لئے رکشے کے سوا کوئی چارہ نہیں ! اب تو ہم بہت ہی اصرار کریں گے کہ شہر کو شیر شاہ سوری کی ضرورت ہے!
ضرورت ایک نجات دہندہ کی ہے جواگر کراچی کو کسی اور مافیا سے نہیں تو کم از کم ٹرانسپورٹ مافیا سے نجات دلادے ۔ جس نے عوام الناس کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔
میں آپ کے اس بلاگ کو نقار خانے میں طوطی کی آواز نہیں کہتا۔ کوئی تو ہے جو اس بے ہنگم بھاگ دوڑ میں سب کی سوچ رہا ہے۔ فصیلوں میں بند ارباب اختیار تک شاید آپ کی آواز پہنچ جائے اور عوام الناس کو بھلا ہو
کراچی میں جو ٹرانسپورٹ کی صورتحال ہے، اُس پر آپ کا بلاگ حسبِ حال ہے۔ آج ہی دو دنوں کی بندش کے بعد جب سی این جی کھلی ہے تو قریباً دو گھنٹوں کے سفر و انتظار کے بعد منزل پر پہنچے ہیں۔
سُتنے ہیں کہ سرکلر ریلوے کا آغاز ہونے والا ہے۔ میٹرو بسیں بھی چلنی ہیں لیکن کب؟ اس کا کچھ پتہ نہیں۔
خدا اہلیان کراچی کے حال پر رحم کرے اور اہلیانِ کراچی کو بھی اپنے حال پر رحم کھانے کی توفیق دے۔ آمین!
کراچی جیسے شہر کے لیے سفری سہولیات میں بہتری انتہائی ناگزیر ہے۔
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اور کون سی کل سیدھی ہے کہ اس پر توجہ دلانے کے لیے بات کی جائے۔
ہر دوسرا زخم پہلے سے زیادہ گہرا لگتا ہے۔
کراچی جیسے گنجان آباد علاقے کے مسائل کا حل کرنے کے لیے تو بڑی منصوبہ بندی اور بڑی سرمایہ کاری چاہییے۔ چھوٹے چھوٹے شہر جہاں صرف 2 بسیں چلا کر بھی نظام میں قابل ذکر تبدیلی لائی جا سکتی ہے اس پر توجہ دینا تک ارباب اختیار کی ترجیحات میں شامل نہیں۔