’’اگر ہمارے سر پر اتنا بڑا جہاں آباد ہے تو کبھی ان میں سے کوئی نیچے کیوں نہیں آتا؟‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے تقریباََ چار سال پہلے ایک امریکی نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا۔ اس وقت تو میں نے اسے جو جواب دیا سودیا۔ مگر زندگی میں کئی بار ایسے ہی سوالات میرے ذہن میںبھی اٹھے۔ اور مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی شخص جو سوچتا ہے… چیزوں پر تفکر کرتا ہے اس کا ذہن بھی کبھی نا کبھی ان سوالات میں الجھ جاتا ہو گا۔ مثلاََ ’’میں جس اللہ کی اتنی عبادت کر رہا ہوں…وہ کبھی میرے پاس کیوں نہیں آتا؟؟؟
’’میں جس اللہ سے دعائیں مانگ رہا ہوں … اس کے سامنے اتنا رو رہا ہوں…اتنی دیر سے بیٹھا اس سے باتیں کر رہا ہوں … وہ ہے کہ کبھی مجھے جواب نہیں دیتا!!!‘‘ ’’مجھے کبھی اس کی آواز کیوں نہیں آئی؟؟؟‘‘
’’ اس نے کبھی مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟؟؟‘‘
اچھی طرح سمجھ لیں کہ لوگوں کو اللہ نے جواب دیا۔
ان سے کلام بھی کیا۔
انہیں اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بھی عطا کیااور
لوگوں نے اللہ کو دیکھا بھی۔۔۔
اور یہ بھی سچ ہے کہ اللہ ہر کسی کو جب بندہ چاہے نظر نہیں آتا اور نہ ہی ان سے باتیں کرتا ہے۔
۱۔ جس نے بھی اللہ تعالی کا جلال دیکھا، پھر اس کے لئے کوئی رعایت نہیں ۔
۲۔ جس نے کوئی واضع نشانی یا معجزہ دیکھا اس پر بھی حجت تمام ہو گئی۔ پھربھی اگر ہڈ دھرمی ہو تو خطاؤں سے درگزر مشکل ہے۔
۳۔ جسے خود اللہ کی طرف سے کوئی کرامت یا معارفت حاصل ہو جائے، پھر اس کا معاملہ عام لوگوں کا سا نہیں رہتا۔پھر اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنے چائیے۔
۴۔ اور جسے اوپر درج کی گئی کوئی حالت میسر نہیں …تو اس کا معاملہ آسان ہے۔ اس کے ساتھ درگزر سے بھی پیش آیا جائے گا۔ اس کے سا تھ رعایت بھی ہو گی۔ وہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو توبہ بھی قابلِ قبول ہو گی۔
جب اللہ تعالی نے آدم ؑ کو اس دنیا میں بھیجا تو انسان اس دور میں اللہ سے بہت قریب تھا۔ مختلف مواقع پراللہ ان کی رہنمائی کرتا اور ان کے دل کو تسلی بخشتا۔مثلاََجب آدم ؑ کے بیٹوں (ہابیل اور قابیل) نے اللہ کے لئے نذر مانی تو آسمان سے ایک آگ آئی اور ہابیل کی نذر کو بھسم کر گئی۔ جب کہ قابیل کی نذرجوں کی توں رہی۔ یہ اللہ پاک کی طرف سے کھلی نشانی تھی کہ اس نے ہابیل کی نیکی قبول کی۔ جب کہ اب اگر کوئی اللہ کے لئے صدقہ کرتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا۔
اسی طرح آدم ؑ کے بیٹے قابیل کو اللہ نے ایک کوّے کے ذریعے یہ بتایا کہ اپنے مارے ہوئے بھائی کو کیسے دفنانا ہے۔اور اسی کوّے کے ذریعے سے اسے اس کے کئے پر بھی نادم کیا کہ وہ تو ایک کوّے سے بھی گیا گزرا ہے۔
اللہ تعالی کی اس طرح کی قربت پرانے زمانوں میں میسر تھی۔ لوگوں کی ہدایت کے لئے نبیوں اور رسولوں کو بھیجنا، ان کی قربانی کو آسمان سے آگ بھیج کر قبول کرنا،روشن نشانیاں اور معجزیوں کا ظہور وغیرہ ہو جایا کرتا تھا ۔کہتے ہیں بنی اسرائیل میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب ان کے بیچ کوئی نہ کوئی نبی موجود نہ ہو۔ مگر اب نہ تو کوئی رسول موجود ہے نہ نبی ، نہ کوئی معجزہ نظر آ تا ہے اور نہ اللہ کا جلال۔۔۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اپنے پرودگار کو دیکھنے کے بعد وہ لازماََ مکمل فرمانبردارہو جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ حضرت آدم ؑ سے جو بھول چوک ہوئی وہ اللہ کی قربت میں رہتے ہوئے ہی ہوئی۔ابلیس ملعون کے لئے بھی اللہ تعالی غائب نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو سب کچھ دیکھ آیا ہے ، اللہ تعالی سے کلام تک کر آیا ہے۔مگر پھر بھی نافرمان ہو گیااور لعنت کا مستحق ٹھہرا۔اسی طرح بنی اسرائیل نے خدا تعالی کا جلال کئی بار دیکھا اور معجزے تو اتنے دیکھے کہ شاید ہی کسی قوم کے لئے اللہ تعالی نے اتنی کھلی نشانیاں بھیجیں ہوں۔مگر بنی اسرائیل کی سر کشی ضرب المثل ہے۔
یہاں قرآن مجید اور توراۃ مقدس دونوں آسمانی کتابوں میں سے آیات درج کی جا رہی ہیں۔
’’اور خداوند نے موسی ؑ سے کہا کہ میں گھنے بادل میں تیرے پاس آؤ گا تا کہ یہ لوگ مجھے تیرے ساتھ کلام کرتے سنیں اور سدا تیرا یقین کریں‘‘۔ (خروج ۔ ۱۹/۹)’’اور تیسرے دن کی صبح کو بادل گرجنے لگااور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ کے اوپر گھنا بادل چھا گیااور بگل بہت زور سے بجا اور خیموں میں لوگوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔تب موسی ؑ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا تاکہ انہیں خدا سے ملوائے ( یعنی وہ اس کا جلال دیکھیں)۔ سب لوگ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو گئے اور کوہ ِ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے چھپ گیا۔کیونکہ خدا وند شعلے میں(جلوہ فرما ہو کر ) اس پر اُترا تھااور دھواں تنور کے دھویں کی مانند اوپر اٹھ رہا تھااور وہ سارا پہاڑ زور زور سے لرز رہا تھا۔ اور جب بگل کی آواز اور بھی زیادہ بلند ہونے لگی تو موسی ؑ نے بولنا شروع کیا۔ اور خداوند نے گرج دار آواز سے اسے جواب دیا‘‘۔ (خروج۔ ۱۹/۱۶تا ۱۹)
قرآن مجید میں ہے کہ’’پھر جب موسی ؑ آگ کے پاس آئے تو انہیں آواز آئی کہ مبارک ہے وہ (ذات) جو( اس نورانی) آگ میں (جلوہ فرما) ہے اور( مبارک ہیں )وہ جو اس(آگ) کے ارد گرد ہیں ‘‘۔ (سورۃ النمل ۔ آیت ۸)
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرماتا ہے ۔’’اب کیا یہ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالی بادلوں کے سائے میں فرشتوں کے پرَے لئے ان کے سامنے آ (نازل) ہو اور قصہ ہی پاک کر دے؟؟؟‘‘(آیت ۲۱۰)
ہاں اگر کوئی اللہ کی محبت میں اس کے دیدار کا خواہشمندہے جیسے کوئی بھی اپنے محبوب کے دیدار کا ہوتا ہے، تو وہ الگ بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جوکوئی بھی محض مسلمان سے بڑھ کر ایمان کے درجے پر فائض ہو اس کے دل میں دیدارِ الہی کی تمنا ضرور ہوتی ہے۔بس تھوڑا سا انتظار ہے… پھر تو دیدار الہی اللہ کے فرمانبردار وں کو نصیب ہونا ہی ہے۔مگر اپنے اعمال پر نظر کیجیے ۔ کیا ہم اللہ کو منہ دکھانے کے لائق ہیںبھی!!! یا محض کٹ حجتی کے لیے سوال اٹھائے جارہے ہیں؟
’’تو جس کو اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو تو چائیے کہ نیک عمل کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ کرے‘‘۔ سورۃ الکہف۔ آیت ۱۱۰
اس دنیا میں کوئی بھی انسان اللہ کو دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔وہ ایسی تجلیات ہیںکہ موسی غش کھا کر گر پڑے تھے۔تو عام انسانوں کی کیا حیثیت ہے۔قیامت کے دن اللہ لوگوں کی سماعت اور بصارت میں تبدیلیاں کر دے گا اور انسان وہ کچھ دیکھ سکے گا جو ابھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہے مثلا َفرشتے ابھی بھی ہمارے ساتھ ہیں لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے اور قیامت کے دن دیکھیں گے۔
’’اور کسی انسان کی یہ تاب نہیں کے خدا اس سے (دو بدو ہو کر) کلام کرے، مگر الہام کے ذریعے سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا کسی فرشتے کو اس کے پاس بھیج دیتا ہے اور وہ خدا کے حکم سے جو اسے منظور ہوتا ہے (پیغامِ خدا) پہنچا دیتا ہے۔بے شک خدا عالی شان اور حکمت والا ہے‘‘۔ سورۃ الشوری۔ آیت ۵۱
’’نظر یں اسے پا نہیں سکتیں مگر وہ نظروں کو پا لیتا ہے اور وہ بڑا با ریک بیں اور با خبر ہے‘‘۔سورہ انعام۔آیت۱۰۳
اس دنیا میں اللہ تعالی نے ہمیں یوں تخلیق کیا ہے کہ ہمارے اندر اسے دیکھنے کی تاب نہیں ۔جیسے ہم بہت سی اور چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے مثلاََ ہم میں سورج کو دیکھنے کی تاب نہیں۔ امام جعفر صادق ؒ کے بارے میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ تمہارے خدا کو کیوں نہیں دیکھا جا سکتا ، تو انہوں نے جواب میں سورج کی طرف اشارہ فرما دیا کہ اسے دیکھو۔ سورج کی چمک اپنے عروج پر تھی لہذاسوالی کی آنکھیں چندھنیا گئی۔اس پر امام جعفر صادق ؒبول پڑے کہ جب تم اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کو نہیں دیکھ سکتے تو اسے کیا دیکھو گے!!!
کوہِ طور سے جب جضرت مو سی ؑ توراۃ کے مشہور دس احکامات لے کر لوٹے تو بنی اسرائیل نے اعتراض کر دیا کہ انہیں اس بات پر شک ہے کہ اللہ ہی نے انہیں یہ احکامات دئیے ہیں۔ اور فرمائش کر دی کہ وہ تب تک نہ مانیں گے جب تک اللہ تعالی کو اپنے سامنے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتے ۔ پرَ وہ اس کے دیدار کے متحمل نہ ہو سکے۔
’’اور جب تم نے موسی ؑ سے کہاکہ ’’ہم تو جب تک اللہ تعالی کو رو برو نہ دیکھ لیں ایمان لانے والے نہیں!!! ‘‘ پھر تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے تمہیں ایک زوردار بجلی کے جھٹکے نے آلیا۔‘‘ سورۃ البقرہ آیت ۵۵
اسی طرح دوسرا واقعہ اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسی ؑ کا ہے ۔
’’اور جب موسی اپنے مقررہ وقت اور جگہ پر آ گئے اور اس سے اس کے رب نے کلام کیاتو موسی نے عرض کیا ’’میرے رب مجھے دکھلا کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں؟‘‘ اللہ نے فرمایا ’’ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا،ہاں البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تب تو توُ بھی مجھے دیکھ سکے گا‘‘۔پھر جب اس کے رب کا پہاڑ پر جلوہ ہوا تو وہ(جلالِ الہی سے )گھُٹ کررہ گیا اور موسی غش کھا کر گر پڑے‘‘۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے ’’تیری ذات پاک ہے۔ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں‘‘۔‘‘ سورۃ الا عراف ۔ آیت ۱۴۳
اس پربھی کوئی دل نہ ہارے ،کہ جستجو کرنے والے کو اللہ مراقبے یا خواب کی حالت میں اپنا دیدار کرا دیتاہے۔اور نبیوں اور پیغمبروں کو کسی پردے کے پیچھے سے اپنی قربت کا شرف بخشتاہے۔
نگاہ پیدا کر اے غافل !تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا (اقبال)
حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ’’ وہ تب تک دوسرا سجدہ نہیں کرتے جب تک پہلے سجدے میں دیدار ِالہی سے مشرف نہ ہو جائیں‘‘۔
جب اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑ کو نبوت سے سرفراز کیا تو موسی ؑ کو ایک سفر کے دوران ایک آگ سی نظر آئی ’’پھر جب موسی ؑ آگ کے پاس آئے تو انہیں آواز آئی کہ مبارک ہے وہ (ذات) جو( اس نورانی) آگ میں (جلوہ فرما) ہے اور( مبارک ہیں )وہ جو اس کے ارد گرد ہیں ۔ سبحان اللہ رب العالمین ۔ موسی ؑ ! یہ تو ہم ہیں ذبردست اور حکمت والے ۔‘‘ (سورۃ النمل ۔آیت ۸،۹)اس طرح اللہ تعالی نے موسی ؑ سے کلام کیا ’’جیسے(عام طور پر) کلام کیا جاتا ہے‘‘۔(القرآن)’’خداوند موسی ؑ سے …(ایسے ہی )باتیں کرتا تھاجیسے کوئی اپنے دوست سے باتیں کرتا ہے‘‘۔(توراۃ۔خروج ۔باب ۳۳/۱۱)
معراجِ رسول کریم ﷺ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالی سے ملاقات کا شرف حاصل کیااور اپنے پروردگار سے کلام کیا جب کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بیچ میں نور حائل تھا۔
مسند احمد میں ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج رات میرا رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رسول ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالی کو دیکھا‘‘۔شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے بھی اپنی کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ اسی طرح جسے اللہ چاہے خواب میں اپنا دیدار نصیب کراتا ہے۔
ایک شخص جسے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں نے خواب میں دیکھا، ’’ہر طرف اندھیرا ہے بس آگے ایک بہت ساری روشنی یا نور کا منبہ ہے۔ پھروہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ یہ اللہ ہے‘‘۔یہاں اس شخص نے اللہ تعالی کو نور کے پردوں میں چھپا دیکھا۔
جہاں تک رہی ہمکلامی کی بات تو چھوٹے موٹے الہام تو اللہ ہر دم ہر ایک کے دل میں ڈالتا ہی رہتا ہے ۔ مثلاََ اگر کوئی قرض دار دعا کرے کے اسے اس کے قرض سے نجات مل جائے تو شاید اللہ تعالی قرض دینے والے کے دل میں رحم ڈال دے اور وہ اس کا قرض معاف کر دے۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو دنیا کا کاروبار ایسے ہی چل رہا ہے۔
’’… کوئی پتہ تک زمین پر گرنے نہیں پاتا ، مگر اسے خبر ہوتی ہے…‘‘ سورۃ الانعام ۔آیت ۵۹
اور یہ کہ ’ ’وہ(اللہ) ہر وقت کام میں ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنے ایک بندے کا حال بیا ن فرماتاہے جسے اس نے اپنی خاص کرامات سے نوازا تھا ۔مگر وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ۔پھر اس کے لئے کوئی عذر نہ بچا اور اسے اللہ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ۔
’’آپ انہیں اس شخص کا حال سنائیے جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں تھیں۔لیکن وہ ان (کی پابندی)سے نکل بھاگا۔ پھر شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا لہذا وہ گمراہ ہو گیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس کے درجات بلندکر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیا…‘‘ سورۃ الاعراف ۔آیت ۱۷۵۔۱۷۶
بَس اگر اللہ کو دیکھنے کے بعد بھی نافرمانی کی گئی تو پھر کسی قسم کی معافی کی گنجائش نہیں ۔یہ جو ہم روز خطائیں کرنے کے باوجود اللہ کی نعمتوں میں گھرے رہتے ہیں …یہ چھوٹ اسی لیئے ہے کیونکہ ہمارا ایمان ایمان بالغیب ہے ، لہٰذا اللہ پاک ہمارے ساتھ رعایت کرتا ہے اور درگزر سے کام لیتا ہے کہ اِنہوں نے مجھے دیکھا نہیں ،ان بیچاروں کو واضح معجزے نہیں دکھائے گئے، نہ ہی ان کے بیچ کوئی نبی موجود ہے ۔
آج کے گناہگار زمانے میںاللہ کا غائب ہونا ہمارے لئے باعثِ رحمت ہے کہ اسی لئے ہمارے لئے بہت سی رعایت اور بات بات پر چھْوٹ ہے۔ کیونکہ خدا تعالی غیور ہے اور واضع نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی سر کشی پروردگار کی غیرت کو للکارنا ہے(معاذ اللہ)۔ اس لئے ایمان بالغیب ہی میں عافیت ہے۔
آخر میں یہ آیت لکھنا ضروری ہے کہ’’(اے نبی ﷺ)! جب ہمارے بندے تم سے ہمارے بارے میں دریافت کریں تو (انکو بتا دو)کہ ہم (ان کے) پاس ہیں۔ جب کبھی کوئی تم میں سے دعا کرے تو ہم دعا کرنے والے کی دعا کو سنتے اور( مناسب ہوتا ہے تو) قبول (بھی )کر لیتے ہیں۔ تو ان کو چائیے کہ ہمارا حکم (بھی) مانیں اور ہم پر ایمان لائیں تا کہ وہ سیدھے رستے لگ جائیں‘‘۔ سورۃ البقرہ ۔آیت نمبر ۱۸۶
جزاک اللہ خیر…اللہ ہماری بخشش فرمائے…اٰمین!