جمعہ27دسمبر کے روزنامہ جنگ میں الطاف حسن قریشی صاحب اپنے کالم میں خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ جناب سراج الحق کے ساتھ ایک چونکادینی والی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’برطانیہ میں جناب سراج الحق کی ملاقات پروفیسر ٹونی بوزون سے ہوئی انہوں نے ان سے پوچھا کیا دہشتگردی پر قابو پانا ممکن ہے؟ پروفیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’انگلستان میں سنگین جرائم پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں مگر میڈیا انہیں گلیمرائز نہیں کرتا اور ان پر پردے ڈالے رکھتا ہے جب کسی دہشتگرد کے کارنامے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں تو دوسروں کے اندر شہرت پانے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات دکھانا بند کردیئے جائیں اور ان کے تذکروں پر داخلی پابندی عائد کردی جائے تو چند مہینوں میں دہشتگردی آدھی رہ جائے گی‘‘۔
کتنے سمجھ دار ہیں پروفیسر ٹونی بوزون کہ وہ بات سمجھ گئے جو ہم 17کروڑ پاکستانی نہیں سمجھ پائے۔ ہم میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہتے ہوئے اس کے سحر میں ایسے گرفتار ہیں کہ سیلابی ریلے کے بے جان تنکوں کی طرح بلا سمت متعین کیئے ہم نے اپنی باگیں میڈیا کے حوالے کردیں۔ ہم میڈیا کے گھوڑے پر سوار شہسوار ہیں جسکو اپنی منزل کا علم نہیں۔ جانے کن کن وادیوں کی ہم سیر کرتے ہیں اور ایک ضرب ہمیں کبھی کبھی اس وقت لگ جاتی ہے جب اس گھوڑے کے پائوں کسی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ میڈیا کا یہ بے قابو جن اب اقتدار کا اصل مبنع بنتا جارہا ہے ۔ اسکے اینکر پرسن لاکھوں روپے میں فروخت ہوتے ہیں یہ جن ایجنڈوں پر کام کررہے ہیں وہ طویل المعیاد ایجنڈے ہیں جنکی سزا ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گی۔یہ درست ہے کہ میڈیا نے قوم کو شعور وآگہی دینے کی خدمت سرانجام دی ہے لیکن اس شعور وآگہی کی بڑی قیمت بھی وصول کی ہے۔۔۔
اسوقت الیکٹرانک میڈیا کے چینلز’’ریٹنگ‘‘کی اندھی دوڑ میں وہ سب کچھ کررہے ہیں جن پر آج سے دس سال بعد وہ غور کریں گے تو ’’اپنے بچپن کا دور‘‘ کہ کر ان سب نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے جس کیلئے آج انہوں نے قوم کو ’’تجربہ گاہ‘‘ بنایا ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تجربات سے ہی سیکھا جاتا ہے ۔لیکن کتنا وقت متعین ہوتا ہے ان تجربات کیلئے؟؟اور ان تجربات کی قیمت پوری قوم سے کیوں وصول کی جائے۔؟؟جرائم دنیا کے کس معاشرے میں نہیں ہوتے لیکن جرائم کی یوں تشہیر کرنا کہ مجرمانہ ذہنیت کو غذا مہیا ہوتی رہے؟ کوئی تجزیہ اس کا ہونا چاہئے کہ ہر ٹی وی چینل جرائم کو جس طرح پیش کررہا ہے ۔ بلکہ جرم کے طریقے بھی سکھا رہا ہے کیا اس اقدام سے معاشرے میں جرائم کی شرح ایک فیصد بھی کم ہوئی؟؟ اور جرم کی یہ داستانیں معصوم اور ناپختہ ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کررہی ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔
ایک پانچ سالہ بچی کے واقعہ کو جو لاہور میں پیش آیا سارے میڈیا نے یوں پیش کیا جیسے یہ پاکستان میں پیش آنے والا پہلا واقعہ ہے۔ ٹھیک ہے کہ انڈیا میں بھی کچھ ہی عرصہ بیشتر ایسے ہی بے حرمتی کے واقعہ پر جمسمیں طالبہ کی جان چلی گئی تھی اسی پیمانے پر تشہیر کی گئی لیکن وہاں فوری سماعت کی عدالت لگی اور ملزمان کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ہمارے ہاں جرم کو جتنا بھی برہنہ کرکے پیش کیا جائے کسی مجرم کو کبھی سزا نہیں ملی۔مجرم پکڑ بھی لیئے جاتے ہیں تو پے رول پر رہا ہوجاتے ہیں۔
جس سماج میں ان واقعات کو اتنا اچھالا جارہا ہو اس سماج کی نفسیاتی کیفیت کا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں۔ صحت مند معاشروں کے کب یہ چال چلن ہوتے ہیں؟؟ انگلینڈ کا ایک پروفیسر ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے کہ ہمارا میڈیا جرائم کو گلیمرائز کرکے پیش کررہا ہے۔ اسی میڈیا نے پاکستانی معاشرے کی وہ تصویر بنادی ہے کہ ساری دنیا میں پاکستان ایسے ملک کے طور پر معروف ہے جہاںہر وقت ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، بم دھماکے ہوتے ہیں، اسٹریٹ کرائمز ہوتے ہیں۔ جن کے عزیز واقارب بیرون ملک مقیم ہیں وہ اپنے عزیزوں کو پاکستان میں بازاروں میں جانے اور رش کی جگہوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ کہیں کوئی بم بلاسٹ نہ ہوجائے۔ اکثر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے عزیز وطن واپسی پر آمادہ نہیں کہ انکے خیال میں پاکستان میں ایسا الاؤ ہے کہ ائرپورٹ پر ہی وہ آگ انہیں بھسم کردے گی شاید۔خود پاکستان ہی میں آکر آپ کا کراچی سے باہر جانے کا اتفاق ہو تو لوگ کراچی کے حالات یوں معلوم کرتے ہیں جیسے icuمیں داخل کسی مریض کے۔۔مانا کہ کچھ حقائق بھی ہیں اور کچھ میڈیا کی کارستانیاں بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تمام چینلز پر خبر گردش کررہی تھی گھنٹہ بھر تک کہ کراچی میں نیپا چورنگی کے قریب زوردار دہماکہ۔ایک گنجان آباد علاقہ،رات کا وقت۔چاروں جانب شادی ہال۔کتنے ہزاروں لوگ اس خبر سے متاثر ہوئے۔ معلوم یہ ہوا کہ کوئی سلینڈر میں دھماکہ تھا۔ اسی طرح ایک دورافتادہ مقام پر ایک گڑھے میں معمولی نوعیت کا دھماکہ ہوا تھا جسکو بار بار دکھایا جاتا رہا۔ تیزاب پھیکنے، قتل وغارت، اسکول میں بچوں کے ساتھ ٹیچر ز کے نامناسب رویوں کے واقعات یوں’’خبرناموں‘‘ کا حصہ بنائے جاتے ہیں جیسے میڈیا عبادت سمجھ کر ’’اصلاح معاشرہ‘کی مہم چلا رہا ہو۔ کیا ان واقعات کی میڈیا پر آنے سے واقعی اصلاح کی صورت نکلتی ہے یا ساری دنیا میں پاکستان بدنام ہوتا ہے؟؟ایک ایسا ملک جہاں کی 70% آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ،جہاں تعلیم دینے اور آگہی دینے والے اداروں کا تناسب بہت کم ہے۔ وہاں اخلاقی بے راہ روی بھی ظاہر ہے کہ عام ہے۔اب لڑکی لڑکوں کے عدالتوں میں نکاح پھر ان کے والدین غصے میں آکر زدوکوب کریں تو ان واقعات کو گلیمرائزکرکے میڈیا اپنی ریٹنگ کی دھن میں مگن معاشرے پر انکے اثرات کا جائزہ لینے پر آمادہ ہی نہیں۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ میڈیا کی اپنی ترجیحات کا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے ایک عام آدمی کی جب اسی سال 14 اگست کو برادر اسلامی ملک مصر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اہلیان پاکستان کو اسکا علم ہی نہ ہوسکا جبکہ مغربی میڈیا اور سوشل میڈیا اس بربریت پر نوحہ کناں تھا مگر پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا چینل سارا دن اپنی سالگرہ مناتا رہا۔مُلا عبدالقادر کی شہادت پر (یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مُلا عبدالقادر محض بنگلہ دیش کی مذہبی جماعت کے رہنماء تھے؟؟؟)کل جتنے وقت کی نشریات آئیں اس سے کئی گنا زیادہ وینا ملک کے نکاح اور اسکی پریس کانفرنس کو دیا گیا۔نکاح ایک مذہبی فریضہ ہے اسکو اس حد تک رہنے دیا جاتا تو خیر تھی۔اسکی آڑ میں اسکی انڈین فلموں کے عریاں ترین حصے سارادن دکھائے جاتے ہیں۔ اطلاعات ونشریات کی وزارتیں ہوں یا پیمرا کے قوانین۔ سب گونگے بہرے ہیں یا اندھے ہیں۔ اور تو اور جس روزچیف جسٹس چوہدری افتخار رخصت ہوئے وہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انکی کارکردگی، عدلیہ کا کردار،آنے والے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں ۔عوام کی عدلیہ سے وابستہ توقعات۔عدلیہ کے فیصلے اور حکومتی رویہ وغیرہ زیربحث آتے لیکن وہ تمام وقت تمام چینلز اس بحث میں لگے رہے کہ فلاں چینل کو سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ون میں داخلے کی اجازت کیوں ملی۔؟ یا فلاں رپورٹرز نے وہ کلپس کیسے حاصل کرلیں؟وہ غیر قانونی تھیں؟تمام چینلز پر میڈیا کے ذمہ داران اور دانشورانِ قوم اس بحث میں لگے رہے کہ متعلقہ صحافی کا یہ طرزعمل صحافیانہ تھا یا غیر ذمہ دارانہ۔؟ اور ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالتے وہ دن گذرگیا۔اگلے دن اس پر کالم لکھے گئے اور ٹاک شوز بھی اسی موضوع پر منعقد ہوئے۔
نوبل انعام دنیا کے کئی ملکوں کے لوگوں کو انکی غیر معمولی کارکردگی پر ملتے ہیں وہ بلاشبہ ہیروز ہوتے ہیں انکی قدردانی ہونی چاہئے اور کرتی ہیں وہ قومیں۔لیکن پاکستان میں ملالہ کی اس ایوارڈ کیلئے نامزدگی اتنا بڑایشو تھی کہ لگتا تھا کہ پاکستان کے 17کروڑ لوگوں کی نظریں اسکرین پر جمی ہوئی ،سانسیں تھمی ہوئی، اور نبضیں ڈوب رہی ہیں کہ ملالہ کو نوبل انعام نہ ملا تو کیا ہوگا۔۔؟میڈیا کی ان کارستانیوں میں شاید ہم خود بھی بھول گئے کہ ہمارے اصل مسئلے کیا تھے۔؟؟اور اسلام آباد کے مخبوط الحواس سکندر کا تو یوں شکریہ ہمیں ادا کرنا چاہئے کہ خود میڈیا پر اسکا خبط الحواس ہونا کھل گیا۔۔اور کئی دن اس موضوع پر ٹاک شوز ہوتے رہے کہ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔۔۔اب ہمارے قومی تہوار ہوں یا مذہبی تہوار لگتا یوں ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ’’سنسنی خیز‘‘ خبروں کی تلاش میں نکل جاتا ہے کہ معمولی سا ناخوشگوار واقعہ ہو تو سب سے پہلے پیش کرکے اپنی ’’ریٹنگ‘‘بڑھائی جائے۔لگتا ہے ملک میںادبی سرگرمیاں،تعلیمی سرگرمیاں، تحقیقی ادارے کوئی کام ہی نہیں کررہے بس سڑکوں پر مجرم دندناتے پھررہے ہیں جنکو الیکٹرانک میڈیا خوردبین لگاکر تلاش کرتا پھرتا ہے کہ کہیں سے کوئی ’’نیوزبریک‘‘مل جائے۔
سبزیوں کو گندے پانی سے پیدا کیا جارہا ہے۔
مذبح خانوں میں گدھے ذبح ہورہے ہیں۔
لہسن ادرک کو تیزاب میں ڈال کر وزن بڑھایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اکاِ دکِا واقعات تیسری دنیا کے ملکوں میں ہوتے ہیں ہونگے لیکن ہمارا میڈیا معاشرے کی جو تیزاب زدہ تصویر پیش کررہا ہے وہ معاشرے کی حقیقی تصویر نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو میڈیا کے دکھانے سے مجرموں کی کہیں بھی سرکوبی نہیں ہورہی۔بلکہ ایک عام آدمی کا اعتماد خود پر سے متزلزل ہورہا ہے کہ وہ کس معاشرے کا فردہ ہے؟ تصویر کا صحت مند رخ دکھانے کی بھی ضرورت ہے اس معاشرے میں بہت کچھ خیر ہے اسکو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔۔۔TONY Buzonآپ کا شکریہ۔۔۔
یہ سب فری میسنری دجالی ایجنڈا ہے۔۔۔۔ جنہوں نے بھی صیہونی داناؤں کی خفیہ دستاویز پڑھی ہوئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے قوم کو اعصابی تشنج میں کیسے مبتلا کیا جاتا ہے اور کس طرح اس کے فوائد سمیٹے جاتے ہیں۔
ہم تو آج بھی اِسی مخمصے کا شکار ہیں کہ میڈیا پہ کام کرنا یا میڈیا سٹڈیز کرنا باعثِ شرم ہے یا نہیں- پہلی غلطی جو ہوئی کہ میڈیا کی طاقت کا اندازہ ہی نہ کرسکے- اور بڑے بوڑھے بچوں کو اپنی عزت کا واسطہ دے دے کر ٹی وی پہ کام کرنے سے روکتے رہے، جس کی وجہ سے میڈیا پہ اُن لوگوں کی اجارہ داری ہوگئی جو مقصد لے کر نہیں آتے-
چنانچہ یہ سب تو ہونا ہی تھا- دوسری غلطی یہ ہوئی کہ قومی نفسیات کا کبھی کوئی تصور ہمارے ذہنوں میں نہ آیا- سامراجیت کے خاتمے کے بعد اپنے اندر سے غُلامی کے جراثیم مارنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا ، لہذٰا آج ہم ذہنی اعتبار سے، اجتماعی نفسیات کے اعتبار سے خُود مختار سوچ نہیں رکھتے- ہمیں جو کچھ میڈیا کھلاتا پلاتا ہے، ہم اُص کو اپنے اندر اُنڈیلتے جارہے ہیں-
khoobsurat tehrir lekin kash koi aaisa blog bhi likha jaye jis main Jamaat ki moujuda syasat aur Ameer k bayanaat pr nazr dali jaye, Kaisy aur kyn jamaat moududi sahab k nazriyat sy hat;ti ja rhi hai aur ye Taliban sy aaisi muhabbat ?