جرم بہت سنگین تھا ان کا اس لیے سزا بھی بہت سخت اور اپنے تئیں عبرت ناک دی گئی ہے۔ایک پینسٹھ سالہ بزرگ پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے جو ظلم کیا اس پر تو کوئی حیرت نہیں ہے کیوں کہ وہ تو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہے، مجیب الرحمن عوامی لیگ کا لیڈر تھا، بنگلہ دیش کا بانی تھا جب کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ عوامی لیگ کے پاکستان توڑنے کے عمل کے مخالف تھے اور نہ صرف مخالف تھے بلکہ عملی طور پر پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر وطن کا دفاع کیا، اس لیے حسینہ واجد نے جو کیا اس پر حیرت نہیں ہے۔
سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں جب بھارتی مداخلت اور ایما پر علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت اس سیلِ بلا کو روکنے والا کوئی نہ تھا، اس ہنگامہ خیز اور خوفناک صورتحال میں جماعت اسلامی نے عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا، مملکتِ خداد کی حفاظت کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور پاکستانی فوج کے ساتھ ملک کر مادرِ وطن کا دفاع کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، گردنیں کٹوائیں لیکن جب 16دسمبر کو فوج نے ہتھیار ڈالے تو ان محب وطن مجاہدین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش کے مخالفین اور اردو بولنے والوں(بہاریوں) کا قتل عام کیا گیا، البدر و الشمس کے رضاکارجنہوں نے اس کڑے وقت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا وہ اردو بولنے والے نہ تھے بلکہ محب وطن بنگالی تھے، ان کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا، ان کو چن چن کر قتل کیا گیا، حتیٰ کہ جو لوگ قیدی بنا کر جیلوں میں ڈال دیئے گئے تھے مکتی باہنی کے غنڈوں نے انہیں جیلوں سے نکال نکال کر بھرے مجمع میں اذیتیں دے دے کر شہید کردیا۔ان سب کے باجود کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان مخالف ہے (پاکستان سے فرار ہوکر لندن میں بیٹھنے والا دہشت گرد جو کہ جناح پور کی سازش پکڑے جانے کے بعد یہاں سے بھاگا تھا وہ کہتا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان توڑنے کی سازش کررہی ہے۔ اب اس کی باتوں کی غصہ نہیں آتا بلکہ ہنسی آتی ہے کیوں کہ خود اس کے نام نہاد چاہنے والے بھی اس کی باتوں پر ہنستے ہیں )۔
بنگلہ دیش بن گیا، پاکستان نے اس کو تسلیم بھی کرلیا، شیخ مجیب الرحمن نے 1973میں تمام لوگوں کو عام معافی بھی دیدی لیکن جماعت اسلامی کی پاکستان سے محبت سیکولر اور لادین طبقے کو ہضم نہیں ہوئی اس لیے سازشیں چلتی رہیں بالخصوص جب جب حسینہ واجد کو اقتدار ملا جماعت اسلامی پر کڑا وقت آیا ۔ حسینہ واجد کی موجودہ حکومت اپنی بھارت نواز پالیسیوں کے باعث عوامی حمایت کھوچکی ہے۔اپنی جماعت کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کے لیے حسینہ واجد نے ایک گھناؤنا کھیل شروع کیا اور بیالس سال پرانے مقدمات کو از سرِنو شروع کیاگیا اور اپنے اقتدار کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لیے جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا گیا، مولانا غلام اعظم، مولانا مطیع الرحمان نظامی، عبد القادر ملا اور دیگر کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور ان پر بنگلہ دیش کی مخالفت کے الزام لگا کر انہیں سزائیں سنائی گئیں، کنگرو کورٹس کے ذریعے اسّی اسّی اور ستّر ستّر سالہ بزرگوں کو نوّے سال کی سزائیں سنائیں گئیں۔ مولانا عبد القادر شہید کو ٹربیونل نے عمر قید کی سزا سنائی ، اس کے خلاف جب اپیل دائر کی گئی تو عدلیہ کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہوا کہ کسی عدالت نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف یا اس کی سزا کو برقرار رکھنے کے بجائے اس کو بڑھا دیاگیا اور عبد القادر شہید کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کردیا گیا۔
جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں پر جب یہ مقدمات دوبارہ قائم کیے گئے تو انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حسینہ واجد انہیں قتل کرنا چاہتی ہے ، معافی نہیں مانگی بلکہ عدالتوں میں یہی موقف اپنایا کہ ہم نے جو کیا وہ درست تھا، جب البدر و الشمس بنائی گئیں، جب جماعت اسلامی نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اس وقت بنگلہ دیش قائم نہیں ہوا تھا اور یہ سارا خطہ حکومت پاکستان کے ماتحت اور پاکستانی ریاست کا حصہ تھا ، اس لیے جماعتِ اسلامی نے اس وقت دراصل بنگلہ دیش کے خلاف نہیں بلکہ اپنے وطن کے حق میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔پاکستان سے ان کی محبت کا یہ جرم ناقابل معافی ٹھہرا اور ان رہنماؤں کو سزائیں سنائی گئیں۔ عبدالقادر ملا تو شہید ہوکر اپنے رب سے جاملے اور یقیناً وہ اس وقت جنت میں دیگر شہداء کے ساتھ ہونگے، لیکن یہ پاکستانی حکومت کو کیا ہوا؟
دفتر خارجہ پاکستان نے عبدالقادر ملا کی شہادت کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیدیا۔یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے جس کے مستقل میں بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔پاکستانی سیاسی جماعتوں نے عبدالقادر ملا کی سزائے موت سے لاتعلقی اختیار کرکے اور دفتر خارجہ نے یہ بیان جاری کرکے دراصل تمام محب وطن قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وطن سے محبت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ورنہ تمہارا انجام بھی یہی ہوگا او ر کسی بھی مشکل صوررتحال میں ہم تم سے بھی لاتعلقی اختیار کرکے کہہ دیں گے کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے۔
غو ر کیجئے اور ذرا اس بیان کی روشنی میں مستقبل کی ایک جھلک ہماری نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ بلوچستان میں عرصہ سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، نہ صرف بلوچستان میں بلکہ اب اس کے اثرات کراچی میں بھی بلوچ آبادیوں پر دیکھے جارہے ہیں اور یومِ آزادی کے موقع پر کراچی کی کئی دیواروں پر بھی BLA اور BSO کی جانب سے 14 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منائے جانے کی اپیل کے نعرے درج ہوتے ہیں۔سندھ کے قوم پرستوں کے خیالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، جب کہ کراچی میں ماضی میں جناح پور کی سازش پکڑی جاچکی ہے اور اس سازش کے بانی کی جانب سے وقتاً فوقتاً دھمکی کے طور پر اس بات کو دہرایا جاتا ہے، فاٹا اور قبائلی علاقوں کی صورتحال بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔کسی بھی ملک کی فوج ایسی صورتحال کو عوامی حمایت اور عوام کی مدد کے بغیر کنٹرول نہیں کرسکتی ۔ لیکن فوج اور حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کے معاملہ پر بے رخی بلکہ بے حسی کے مظاہرے سے تمام محب وطن قوتوں کو یہی پیغام جائے گا کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کے بجائے wait an watch دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرو۔خیبر پختونخواہ میں فوج کی مدد کے لیے قائم بنائے گئے امن لشکر، سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتیں بھی اس معاملہ سے متاثر ہوسکتی ہیں۔
جماعت اسلامی تو ہر دور میں سیکولر اور لادین طبقے کی تنقید کا نشانہ رہی ہے اور لیکن خدارا اس معاملہ کو جماعت اسلامی کا معاملہ سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ۔ عبدالقادر ملا شہید، مولانا مطیع الرحمن نظامی اور دیگر افراد پر ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں ، ان کو پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کی پاداش میں سزائیں سنائی گئیں ہیں۔اس لیے کچھ دیر کے لیے ہی دنیا کو دکھانے کے لیے ہی سہی اس عمل کی مذمت کریں اور احتجاج کریں۔ کم از کم وہ طبقہ تو اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے جو منور حسن صاحب کے منہ میں اپنی بات ڈال کر اخبارات اور سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کی حمایت کا ڈھول پیٹتا رہا ہے، وہ یہ تو سوچیں کہ جس فوج کی حمایت میں چند دن پہلے تک آپ لوگ رطب اللسان تھے اسی فوج کا ساتھ دینے پر ملا عبدالقادر کو شہید کیا گیا ہے،جس ملک پاکستان کی مخالفت کا جھوٹا الزام ستر سال سے آپ جماعت اسلامی پر لگاتے آئے ہیں ، اسی ملک کے دفاع کے لیے جماعت اسلامی کے سابق جنرل سیکرٹری کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ جس وطن کی محبت کا آ پ سوشل میڈیا اوراخبارات میں زبانی اظہار کرتے ہیں ، اس وطن کی محبت میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے 20ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی پیش کی تھی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ محبت کے دعوے کرنا بہت آسان ہے لیکن محبت نبھانا بہت مشکل کام ہے۔ بقول شاعر
تختۂ دار محبت کی سزا کی ٹھہری ہے۔۔۔ جان لینا میرے قاتل کی ادا ٹھہری ہے
بہت خُوب
تختۂ دار محبت کی سزا کی ٹھہری ہے جان لینا میرے قاتل کی ادا ٹھہری ہے