چند دن پہلے چھٹی جماعت میں پڑ ھنے والی میری بھتیجی نے بتایا کہ ہماری ٹیچر نے ہمارے ہاؤس کو پراجیکٹ دیاتھا جس میں سقوط ڈھاکہ بھی شامل تھا۔ بچوں کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں تھیں اس لئے سب نے منع کر دیا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آ واز میں شر مندگی تھی۔
یہ اس نے اس وقت کہا جب میں اس دن کے بارے میں فیس بک کے لئے پوسٹ لکھ رہی تھی۔ اور مزیدندامت کی بات کہ ٹیچرز بھی کچھ معلومات دینے سے قاصر تھیں! آہ! ہم اپنے ٹوٹنے والے بر تنوں کے ڈیزائن اور قیمتیں تویاد رکھتے ہیں! کب اور کہاں سے خریدا تھا کبھی،نہیں بھولتے!لٹنے والے پرس اور موبائیل کا ڈیزائن سے لے کر قیمت اور مالیت کو از بر رکھتے ہیں مگر اپنے ملک کا ٹو ٹابازویادنہیں ہمیں۔۔۔ وہ کتنا قیمتی تھا،ہم تجزیہ بھی نہیں کر تے! حادثہ سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر!!میں ایک دفعہ پھر سوز میں ڈوب گئی۔
پہلی دفعہ اس کرب کا احساس یونیورسٹی کی طالبہ کی حیثیت سے ہوا جب اپنی ایک جونئیر فیلو سے اس واقعے کا ذکر کیا اس امید کے ساتھ کے اس کامطالعہ اور شعور قابل رشک تھا مگر اس نے لا پر واہی سے کہا کہ میں تواس وقت دو سال کی تھی مجھے نہیں علم اورمیرا منہ کھلا رہ گیا اور مجھے اپنی ساتویں جماعت یاد آ گئی جب مغلیہ سلطنت کے بارے میں ٹیچر کے سوال پر ایک چلبلے سے لڑ کے نے کہا تھا ’’ مس ہم اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔۔۔‘‘ اور پوری کلاس میں مس کے ممکنہ غصے کا سوچ کرسنا ٹا سا چھا گیامگر حیرت انگیز طورپر خلاف عادت ہلکی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھیلنے لگی تھی۔۔۔لیکن میں مسکرا نہ سکی اپنے اسکول کی یادپر!مجھے محسوس ہوا کہ ہماری تاریخ نہیں لکھی جارہی ( یقیناً یہ میری لاعلمی تھی، کہ کرنے والے تو اپنا کام کر ہی رہے تھے)۔ تو بس میں نے ان حالات کے پس منظر میں ایک بچگانہ سا علامتی افسانہ لکھا جو شائع ہوا اور پسند بھی کیا گیا( افسوس کہ میں وہ میگزین محفوظ نہ رکھ سکی )۔مجھے یقین ہے کہ اگر میں اپنی اس ابتدائی تحریر کا ریکارڈ رکھتی تو آج بھی وہ valid ہوتا!پھر دوسری دفعہ یہ احسا س مجھے اس وقت ہوا جب میں ایک پرا ئیوٹ اسکول میں پڑ ھا رہی تھی۔ بچے تو خیر کیا جانیں اس دن کی اہمیت، جب والدین اور اساتذہ بھی اپنی تاریخ کے اس اہم حادثے سے نا بلد ہیں! بچے راشد منہاس کے بارے میں بڑے اشتیاق سے پڑھتےہیں مگر اس سے ملحقہ تفصیلات نہیں جانتے۔میں نے اپنے حصے کا کام کر نے کا سوچا۔ اس ایونٹ کو سافٹ بورڈ سے لے کر اسمبلی تک نمایاں کیا۔ بچوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ چھوٹے چھوٹے کارڈ زبنا کراسٹاف میں تقسیم کیے جن پر بنگلہ دیش ( مشرقی پاکستان)کا نقشہ فوٹو کاپی کر کے چپکایا اور ان کے نیچے ریمارکس کے ذریعے اس حا دثے کی تفصیلات کے ذریعے جذبات کو مہمیز کر نے کی کوشش کی۔ الحمدللہ
تمام اساتذہ نے اس کاوش کو پسند کیا خصوصاً نوجوان اساتذہ نے بہت دل خوش کیا یہ کہہ کر کہ ہمیں اپنی تاریخ کے ہر واقعے سے واقف رہنا چاہئے۔ ہاں افسوس تو سینئر اساتذہ کی طرف سے دیکھنے کو ملا ’’اوہو یہ تو پرا نی بات ہو گئی! آج کی بات کریں۔۔۔‘‘ اف کیا سوچ ہے؟حالانکہ ماضی تو وہ آ ئینہ ہے جس سے مستقبل کے خد وخال سنوارے جاتے ہیں!اپنی تاریخ کے سرد و گرم کو اگلی نسل کو منتقل کر نا فر ض عین ہے۔ہر فرد ایک پل ) (bridgeکی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کو پرانی نسل سے جوڑنے کا! گویا یہ فرض تو میری نسل کاہے جو اس وقت بچپن کی حدود میں تھی۔آہ کیا دریچہ کھل گیا!!کیا کیا منظر آ نکھوں میں گھوم گیا!
وہ خندق جو جنگ کے آغاز پر لان میں کھودی گئی تھی جس کی طرف ہم سب خطرے کا سائرن ہوتے ہی دوڑتے،بلکہ بچوں کا دن کابیشتر حصہ وہیں گز رتا۔ اسی میں بیٹھ کر گڑ یا کی شادی رچائی جاتی اور نہ جانے کیا کیا سر گر میاں ہوتیں! صرف کھیل کود نہیں ہو تا تھا بلکہ گھر گھر بپا ہونے والی دعائیہ تقریب میں بچوں کی مختلف عمر کے لحاظ سے کام ہوتے۔کچھ بڑے سورہ یٰسن ؍الفتح کی تلاوت کر تے اور ننھوں کو تسبیح یا دانے پکڑادیے جاتے کلمہ یا کوئی اور تسبیح کا ورد ہوتا۔ طارق ، خالد، منصور ، رانی بنو ، شاکرہ ،شانو،مانو۔۔۔یہ تو چند نام ہیں ورنہ بیس گھروں پر مشتمل ایک بلاک کے درجنوں بچے ہوتے جو یک جان و دو قالب بنے ہوئے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک نو مولود شاذیہ کا اضافہ ہوا تھا جس نے اپنی زندگی کی پہلی ہی رات خندق میں گزاری تھی۔ ان گھروں کی قطار میں ایک خالی گھر ایسا بھی تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں جن رہتے ہیں لیکن شاید جن بھی محاذ جنگ پر چلے گئے تھے کہ ان دنوں ہم بچے بلا خوف خطر نیچی سی دیوار کود کر لان میں کھیلا کر تے تھے۔ واحدی صاحب کے گھر میں رہنے والی ایک بوڑھی خاتون جو ہم بچوں سے سخت نالاں رہتی تھیں ان دنوں کافی مہر بان ہو گئی تھیں۔ ہر روز بچوں کو بلاتیں اور دعا وغیرہ کے بعد ہماری تواضع چنوں اور میٹھی گو لیوں سے کر تیں جو ہم سب کے لئے بڑا اعزاز تھا اور ہم ان کی پھولوں سے لدی کیاریوں اورپھلوں سے لدے در ختوں کو بڑا خوش ہو ہو کر دیکھا کر تے۔ جنگی ترانوں اور ملی نغموں پر ٹیبلوز ہوتے( یہ زیادہ ترجنگ کے اختتام پر ہواتھا)۔
گویا جنگ کو بھی بھر پور طریقے سے منا یا جا رہا تھااور اس کا بھی ایک روٹین سا بن گیا تھا۔۔۔لیکن ایک دن!!! ایسا کیا ہوا کہ سارے بڑے پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے! امی خندق سے سامان گھرمیں واپس رکھ رہی تھیں اور سسکیاں لیتی جاتی تھیں! ایسا کیا ہوا ہے! چند ماہ پہلے دادی جان کا انتقال موت کا پہلاتجربہ تھا۔ اور اس سے ذرا پہلے ہی پڑوس میں رہنے والی سہیلی الماس اپنی امی اور ڈرائیور کے ساتھ ٹریفک حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ مگر یہ تو لگتا تھا اس سے بھی بڑا کوئی واقعہ ہوا ہے! اور ساری فضا سوگوار تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنی اور بنوّ کی گفتگو ’’تھوڑے دن ہم اور خندق میں رہ لیتے فتح تو ملتی نا۔۔۔‘‘ فتح اور شکست کے الفاظ سے پہلی دفعہ آ شنا ہوئے تھے۔ امی جان کو حد درجہ آ زردہ دیکھ کر ہم بچوں نے امی ’کو مشورہ‘ دیا کہ اباّ جان کو واپس بلوالیں ( وہ ان دنوں مغربی جر منی میں تھے) وہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے!ایک بچگانہ ذہن اپنے باپ کو آئیڈیل سمجھتاہے کہ وہ سارے مسائل حل کر دے گا مگر آہ اس غم کا مداوا تو کسی کے پاس نہ تھا!
عزیز قارئین! اس المناک واقعے کی بہت سی یادیں ہیں ( کچھ مجھے یاد ہیں جبکہ زیادہ ترامی جان کی زبان سے سن کر یاد داشت کی اسکرین پر تازہ رہے ) جن کو ضبط قلم کر نا میرے لئے دشوار ہورہا ہے بوجہ وقت کی کمی اور جذبا ت کی شدت!بس اس کے بعد کے واقعات بدلی ہوئی فضاکے ہیں۔ ہماری لائن میں انکل شہید اللہ رہا کر تے تھے جو کلینک میں ٹیکنیشین تھے۔ ان کی بیٹی عالیہ ہمارے ساتھ کھیلاکرتی تھی اپنے کسی بھائی کو کندھے پر لادے ہوئے۔۔۔ امی دوا لینے کلینک گئیں تو ان کا جملہ گونج رہا تھافتح مندی کے نشے سے چور ’’ہمیں تو ہزار سال بعد آ زادی ملی ہے۔۔۔‘‘ ذرا اس جملے میں چھپی نفرت اور تعصب کو دیکھیں!ہمارے برابر کے برابر میں ایک بنگالی خاندان رہتا تھا ان کے چار بیٹے تھے جن میں عبد الحنان سب سے بڑا تھا۔وہ نہ جانے کہاں گم ہوگئے!!! شاید بنگلہ دیش ہی چلے گئے تھے۔ ان کے گھر میں انکل رضوان آ گئے۔ان کے بھائی کی پوری فیملی مشرقی پاکستان میں لاپتہ ہوگئی ( ایک بچی بہت سالوں بعد ملی جو عالمی رضا کاروں کو جنگل میں نیم مردہ حالت میں ملی تھی)۔خود ہمارے خاندان کے کافی لوگ وہاں سے ہجرت کر کے یہاں آ کر کیمپوں میں رکے جنہیں امی اپنے گھر لے آ ئیں اور وہ کچھ مہینے ہمارے ساتھ ہی ٹھہرے۔۔۔
ان سارے واقعات نے ہر فرد کے احساسات کو یکسر تبدیل کر دیاتھا جس کے اثرات یقیناً ہم بچوں کے ذہن میں بھی پڑ رہے تھے۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جواس وقت چند ماہ کا تھااس نے جب بولنا شروع کیا تو اس کے الفاظ کیا تھے ؟ اگرکوئی اس کو مارتا یا ڈانٹتا تو وہ بہت معصو میت سے کہتا ’’مجھے کوں ( کیوں) مارتے ہیں؟ کیا میں بنڈالی ( بنگالی ) ہوں ؟‘‘ یہ جملہ نہیں ایک رویہ ہے جو رد عمل کے نتیجے میں سا منے آ رہا تھا!! اس کے پیچھے پوری داستان ہے۔ کیا ہم نے اس کے اسباب اور تفصیلات جاننے کی کو شش کی ہے؟ نہیں!!ایک مجرمانہ غفلت ہے جس کا شکار پوری قوم ہے!
بعد کے واقعات کچھ یوں ہے کہ اسلامی سر براہی کانفرنس کے موقع پر بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیااور مجیب الرحمان اس کے سر براہ کی حیثیت
سے یہاں شریک ہوا۔ مجھے یاد ہے اس دن اسکول اسمبلی میں میں نے اخبار کی سرخی پڑ ھ کر سنائی تھی اور باخبر رہنے پر پر نسپل سے شاباش پائی تھی۔پھر۔۔۔ وہ دن بھی یاد ہے جب مجیب الرحمان کا تختہ الٹ کر پورے خاندان کو قتل کر دیاگیا صرف حسینہ واجد زندہ بچی تھی!! جی ہاں! وہی خون آشام بلا بنی ہوئی ہے! نہ جانے کتنے چراغ گل کر ے گی؟؟؟ ہم شاید ماضی کو بھول جاتے مگر شہداء کی قر بانی رائیگاں نہیں ہوتی اور منظر کچھ تبدیلی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے! پھر آگ اور وہی نمرود ہے!!! اے اللہ! ہم اس فر عون سے نجات مانگتے ہیں!!کاش ہمارے قلم کی روشنائی وہ جذبہ پیدا کرے کہ نفرتوں کی بھڑکتی آگ ختم ہو!!
میں اپنے بلاگ کا اختتام اس واقعے سے کر تی ہوں جو میرے مکمل شعور کا ہے۔یہ 1992 ء کی بات ہے۔میں اپنی یونیورسٹی کی لیب میں تھی جب میرے سپر وائزر کی بیگم ( وہ خود بھی پروفیسرہیں) تمتائے ہوئے چہرے کے ساتھ یہ خبر لے کر آئیں کہ دیوار بر لن گر گئی ہے مغربی اور مشرقی جر منی مل گئے ہیں۔۔۔اور کتنا اچھا ہو کہ ہم بھی مل جائیں ( وہ وہاں رہ چکی ہیں )۔۔۔‘‘ آ مین!خواہش نیک سہی مگرمنظر نامہ یہ ہے کہ اجنبیت کی دیواریں اتنی بلند ہو چکی ہیں کہ بیان سے باہر ہے ؟ کیا یہ درست ہے؟جی نہیں!!
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ عوام جو مذہب سے جڑے ہیں ان کے درمیان رشتے اتنے ہی توانا ہیں ، فاصلے جغرافیائی ہیں مگر ذہنی نہیں! اور وہ عوام کا وہ حصہ جو اس تعلق کونسل در نسل منتقل کر رہا ہے آج بھی مضبوط ہے! وہ نظر یہ جو ان کو جوڑتا ہے وہ صرف ایک ہے!!!امت تقسیم سہی مگر ایک جسد واحد ہے!!!
کہتے ہوئے ندامت ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی کچرا گھر بن چکا ہے جہاں نظریہ پاکستان کسی پرانے ردی کاغذ کی طرح کسی کونے میں دفن ہے۔
سچ کہتی ہیں کہ “ماضی تو وہ آ ئینہ ہے جس سے مستقبل کے خد وخال سنوارے جاتے ہیں” لیکن سمجھ نہیں آتی کہ کیا اِس نسل پہ ابھی بھی غلامی مسلط ہے اور ہم آج بھی اپنی سوچ استومال کرنے سے قاصر ہیں- تعلیمی اداروں میں مشینی دماغ تیار ہورہے ہیں جو ہر جذبے اور احساس سے عاری ہیں- ایک لاین پڑھی تھی جو کچھ ایسے تھی:
Those who do not learn lesson from history, have to repeat that history again.
Very true and well said…