محرم کی دس تاریخ اور ہجری سن 61 ( 680 سن عیسوی)کو سیدنا حسین ا بن علی ؓ نے اپنی جان کی اور اپنے خاندان کی بچوں سمیت جو قربانی دی، وہ تاریخ اسلام میں ایک عظیم قربانی قرار پائی۔ امام حسین ؓ جس مقصدِ عظیم کی خاطر گھر سے نکلے تھے وہ یہ تھا کہ اسلامی ریاست کے دستور میں کی گئی تحریف کی اصلاح کر دی جائے۔ اصل میں یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس کے تھوڑے عرصہ میں ہی مسلم معاشرے میں وہ خرابیاں اور برائیاں رواج پائیں جن کی وجہ سے خلافت راشدہ جیسے مثالی اور عالی شان ادارے سے مسلمان محروم ہو گئے۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی جس کو ٹھیک کرنے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں پرورش پانے والے اور اپنی جوانی اور بڑھاپا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بہترین سوسائٹی میں گزارنے والے حضرت امام حسینؓ کیوں اس نقطہ انحراف کے آگے کھڑے ہو گئے تھے۔ اس کوشش کا جو بھی انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر امام نے اس خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کر کے جو چیز ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جن کی حفاظت کے لئے ایک مومن اپنا سر بھی کٹوا دے اور اپنے بال بچوں کی قربانی بھی دے دے تو اس مقصد کی خاطر یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت حریت راز ہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوہ خیر الاممﷺ چوں سحاب قبلہ باراں درقدم
بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت[2]
چودہ سو سال سے امام عالی مقام کی شہادت ایک مینارہ نور کی مانند مسلمانوں کی انتہائی پستی اور زوال کے عالم میں بھی اپنے سے بعد میں آنے والوں کو سچ کے رستے میں جان کی بازی لٹا دینے کا درس دیتی آ رہی ہے۔ ہر زمانے کے حق پرستوں کو امام نے اپنے عمل سے جو مہمیز دی، وہ ہمیشہ انہیں خدا سے باغی طاقتوروں کے سامنے خد اکی کبریا ئی کا اعلان کرنے پر آمادہ کرتی رہی ہے۔ اسلامی تاریخ کی آبرو انہی جوان مردوں سے قائم ہے، جنہوں نے غلط اقتدار اور مادی ترغیبات کے سامنے سپر نہیں ڈالی، اور صحیح مقصد کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ٹھیک 100 سال بعد امام احمد بن حنبلؒ 780ء میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔ امام شافعی ؒ ان کے بڑے معترف اور قدردان تھے، بغداد سے جاتے ہوئے انھوں نے فرمایا” میں بغداد چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس حالت میں کہ وہاں احمد بن حنبل سے بڑھ کر نہ کوئی متقی ہے نہ کوئی فقہیہ”۔ ساری زندگی رسول اللہ کی سنت کی پیروی اور حفاظت کرتے گزار دی۔ ان کے زمانے میں فتنہ خلق قرآن کا مسئلہ پوری شد و مد سے سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھ رہا تھا۔ تمام علما کرام کے لئے خلیفہ کی طرف سے لازم کر دیا گیا تھا کہ وہ خلق قرآن کے عقیدہ کو تسلیم کریں ورنہ اختلاف کی صورت میں سخت سے سخت سزاؤں کے لئے تیار رہیں۔ امامِ سنت کو اس حکم عدولی پر جب دارالخلافہ لایا گیا تو ان کے پاؤں میں چار بیڑیاں پڑی تھیں، تین دن تک ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ کیا گیا، لیکن وہ اپنے عقیدہ سے نہیں ہٹے۔ چوتھے دن والئ بغداد کو لایا گیا، اس نے کہا کہ احمد! تم کو اپنی زندگی ایسی دوبھر ہےٗ خلیفہ تم کو اپنی تلوار سے قتل نہیں کرے گا لیکن اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم نے اس کی بات قبول نہ کی تو مار پر مار پڑے گی اور تم کو ایسی جگہ ڈال دیا جائے گا جہاں کبھی سورج نہیں آئے گا۔ اس کے بعد امام کو خلیفہ معتصم کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کو اس انکار پر 28 کوڑے لگائے گئے۔ اور کیفیت یہ تھی کہ ایک تازہ جلّاد صرف دو کوڑے لگاتا تھا، پھر دوسرا جلاد بلایا جاتا تھا، امام احمد ہر کوڑے پر فرماتے تھے:” میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کوما ن لوں۔” امامِ وقت کو روزے کی حالت میں جو کوڑے لگائے گئے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو چیخ مار کر بھاگ جاتا۔ آپ کا انتقال 855ء میں ہوا۔
1263ء میں شمالی عراق کے ایک تاریخی شہر حرّان میں تقی الد ین احمد ابن تیمیہ کی ولادت ہوئی ۔ اس زمانہ میں تا تاریوں کی ہیبت اور خوف کی وجہ سے پورا عالم اسلام لرزہ بر اندام تھا۔ ابن تیمیہ ابھی سات برس کے تھے کہ ان کا آبائی وطن حرّان تا تاری حملہ کی زد میں آگیا۔ مجبور ہو کر ان کا خاندان ہجرت کر کے شام کے شہر دمشق منتقل ہو گیا۔ ابن تیمیہ نے اپنے زمانہ کے تمام مروجہ علوم کی تحصیل کی۔ ا ن کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا زندگی کا مطالعہ وسیع اور عمیق تھا۔ انھوں نے عوام سے الگ تھلگ کسی علمی گوشہ میں زندگی نہیں گزاری تھی۔22 سال کی عمر میں شیخ الاسلام نے اپنے والد کی وفات پر انہی کی مسند درس کو زینت دی۔
1299ء میں تا تاریوں نے شام کی طرف قصد کیا۔ اپنی پہلی جنگ میں ہی تا تاریوں نے مصر اور شام کی افواج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ دمشق کے باہر تا تاریوں کا پڑاؤ تھا۔ شہر کے لوگوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ امام ابن تیمیہ تا تاری فرمانروا قاز ان سے ملاقات کریں گے۔ شیخ نے قاز ان کو بہت نصیت کی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے پر ملامت کی۔ ان کے ساتھی ان کی جرأت پر ڈرے جا رہے تھے کہ تا تار بادشاہ کا غضب ان پر ابھی ٹوٹا کہ اب۔ لیکن قاز ان شیخ سے بہت مرعوب ہوا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ شیخ نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرائی: خدایا اگر آپ کے نزدیک قاز ان کا اس جنگ سے مقصد تیرے کلمہ کی بلندی اور جہاد فی سبیل اللہ ہے تو اس کی مدد فرما اور اگر سلطنت دنیا اور حرص و ہوس ہے تو اس سے تو سمجھ لے۔
تین سال بعد کچھ حالات اس قسم کے پیش آگئے کہ شیخ کو مصر طلب کر لیا گیا اور وہاں ابن تیمیہ کے عقائد پر اعتراضات کیے گئے۔ اور ان پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے شیخ الاسلام کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ایک سال کے بعد یعنی 1307ء میں ان کے رہائی کے بدلے ان کو کہا گیا وہ اپنے عقائد سے رجوع کر لیں۔ جب اس کی اطلاع کی گئی تو ابن تیمیہ نے صاف انکار کر دیا۔ چھ مرتبہ ان کو دعوت دی گئی مگر انھوں نے منظور نہیں کیا۔
ایک سال سے زائد عرصہ تک شیخ قید میں رہے۔ لیکن یہ ان کی پہلی اور آخری اسیری نہ تھی۔ ابھی ان کی رہائی کو چند ماہ ہی گذرے تھے کہ دوبارہ ان کی نظر بندی کے احکامات آگئے ۔1309 ء میں مصر کے نئے بادشاہ نے انہیں شہر بدر کردیا۔1318ء میں ان کے ایک فتویٰ کی بنیاد پر سلطان کی طرف سے فرمان جاری کیا گیا اور انہیں وہ مخصوص فتویٰ دینے سے روک دیا گیا۔ مگر شیخ کو یہ گوارا نہ تھا کہ حکومت کے جبر کی وجہ سے جس چیز کو وہ حق پر سمجھتے ہیں، اس سے رک جائیں۔ چنانچہ 1320ء میں انہیں قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا۔
آخری مرتبہ ان کے محبوس کئے جانے کا فرمان 1326ء میں جاری ہوا۔ اس قید میں ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے وفات پائی۔ قلعہ میں ان کے ساتھ ان کے بھائی اور مایہ ناز شاگرد ابن قیم بھی رہے۔ دو سال تک شیخ نے قید خانہ میں اپنی تصنیفات پر کام جاری رکھا۔ لیکن ان کے مخالفین کے دباؤ پر ان سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی۔ بعد میں وہ کوئلے سے تحریر کرتے رہے۔ ان کو اس حالت میں بھی اپنے مسلک کی صحت اور بے گنا ہی کا یقین تھا، وہ اپنا جرم اتنا ہی سمجھتے تھے کہ انہوں نے ایک مسئلہ شرعی میں حاکم وقت کی بات نہیں مانی اور جس کو وہ حق سمجھتے تھے اس پر اڑے رہے، لیکن وہ اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ایمان و یقین کا مقتضا سمجھتے تھے: ” ان کا بڑے سے بڑا الزام یہ ہے کہ ایک انسان کی (جو دوسرے انسانوں کی طرح خدا کا ایک بندہ ہے) حکم عدولی کی ۔ مخلوق خواہ حاکم وقت ہو یا سلطانِ دوراں جب اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کرے گا تو اس کی بات کبھی نہیں مانی جائے گی، بلکہ باتفاق مسلمین اللہ اور رسول کی مخالفت کی حالت میں اس کی اطاعت جائز ہی نہیں۔”
1903ء کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہونے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بطور صحافی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ابھی 24 برس کے تھے تو ایک دن دلی کی جامع مسجد میں مولانا محمد علی جوہر کی ہندو مسلم فسادات پر ایک تقریر سنی ۔اس سے متاثر ہو کر اپنی پہلی کتاب “الجہاد فی الاسلام” لکھی ۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ علامہ اقبال ہی کی دعوت پر دکن کو خیرباد کہہ کر پنجاب میں سکونت اختیار کی اور اپنے علمی اور تحقیقی کام سے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو نظریاتی اساس فراہم کی۔
11 مئی 1953ء کو لاہور کی فوجی عدالت نے سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو سزائے موت سنا دی۔ جرم اتنا تھا کہ سید مودودی نے “قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک تحریر لکھی تھی جس کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس کے علاوہ ان پر حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کی فرد جرم بھی عائد کی گئی۔ مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں سے ایک ہفتہ تک لاہور کے قلعہ میں تفتیش کی گئی اور بالآخر مولانا کو سزائے موت اور دوسرے ساتھیوں کو قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے جیل کے ساتھی کہتے ہیں کہ جب مولانا کو سزا کا علم ہوا تو ان پر کوئی خو ف و ہراس طاری نہ ہوا۔ اور جب انہیں عام لباس کی بجائے سزائے موت کے قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا تو وہ اسی لباس میں بڑے اطمینان سے گہری نیند سوگئے۔ جیل کے حکام حیران ہو رہے تھے کہ وہ خوفزدہ اور پریشان ہونے کی بجائے اتنے مطمئن اور سکون میں کیسے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس سزا کے خلاف کمانڈر انچیف سے رحم کی درخواست کر نا چاہتے ہیں تو آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اگر خدا نے میری موت کا فیصلہ کر دیا ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور اگر خدا نے فیصلہ نہیں کیا تو یہ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
سید قطب 1906ء میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ یونی ور سٹی اور امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مصری معاشرے میں ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے شہرت پائی۔1954ء میں مصر کی حکومت نے ایک اخبار “اخوان المسلمون” کو اس لئے بند کر دیا کہ اس نے حکومت کے انگریزوں سے ایک معاہدے کی مخالفت کی تھی۔ متعدد افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں جب کہ جریدے کے ایڈیٹر سید قطب کو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل میں سید قطب پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انہیں آگ سے داغا گیا، پولیس کے کتوں نے انہیں گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انہیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا، دل آزار الفاظ اور اشاروں سے ان کی توہین کی گئی۔ عدالت کی طرف سے انہیں 15 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ حکومت کا ایک نمائندہ انہیں جیل میں ملنے گیا اور انہیں پیشکش کی کہ اگر آپ چند سطریں معافی نامہ کی لکھ دیں تو آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس کے جواب میں سید قطب نے فرمایا” مجھے ان لوگو ں پر تعجب آتا ہے کہ جو مظلوم کو کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگ لے۔ خدا کی قسم! اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے بھی نجات دے سکتے ہوں تو میں تب بھی کہنے کے لئے تیار نہ ہوں گا۔ اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں پیش ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش ہو۔”
سید قطب کی آخری تصنیف “معالم فی الطریق” (Milestones) ہے۔ اس میں انہوں نے اسلامی نظریہ اور اسلامی تنظیم کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے صدر اول میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرہ کی صورت میں ترقی و نمو کے فطری مراحل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا اسی طرح آج بھی ویسا صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو ارد گرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہو گا۔ اس کتاب کے مندر جات کو بنیاد بنا کر عدالت میں یہ الزام لگایا گیا کہ سید قطب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ اسی اظہار رائے کے جرم میں 25 اگست 1966 ء کو سید قطب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
عبدالقادر مولا 14 اگست 1948ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی زمانہ طالبعلمی میں ہی تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے۔ 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دولخت ہونے سے بچانے کی کوشش کی لیکن جب ملک ٹوٹ گیا تو انہوں نے اپنی سرزمین کو ہی اپنا لیا کہ یہاں حق کا پرچم سربلند کیا جائے۔غلبہ اسلامی کی جدوجہد ہی دار و رسن کا پروانہ ٹھری۔ اعلائے کلمۃ اللہ کی پاداش میں ہی ظلم و جبر کی تمام منازل سے گذرے ۔ عدالت عظمیٰ سے پھانسی کے احکامات کے باوجود معافی اور رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا اور بلاآخر 12 دسمبر 2013ء کو اسی جُرم میں تختہ دار پر جھول گئے۔
یہ ہے وہ سیدھا اور سچا راستہ جو کبھی قید و بند کی صعوبتیں جھیلتا ہےٗ کبھی تشدد اور ہجرت کا سامنا کرتا ہے اور کبھی پھانسی کے پھندوں پہ جھول جاتا ہے لیکن سچ کی راہوں پہ چلنے والے صورت خورشید ہر نئی صبح کو پوری آب و تاب اور چمک دمک کے ساتھ گزشتہ شب کے اندھیروں کو مٹانے کے لئے پھر سے آ موجود ہوتے ہیں۔ ایک اللہ سے ڈرنے والے بھلا کب کسی طاقتور کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ وہ تو زمانے کی ہر غلط ریت پر سوال کرتے ہیں۔ ظلم کے رواج کو بدلنے کے لئے آوازہ بلند کرتے ہیں۔ جہالت کے خلاف صداقت کا عَلم اٹھاتے ہیں۔ جب سبھی سو رہے ہوں تو اذان دینے کا کام کسی کو تو کرنا ہی ہوتا۔ یقیناً دنیا کے کسی کونے میں آج بھی حسین کے نام لیوا یزیدِ وقت سے نبرد آزما ہوں گے۔ یزیدیت اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت حسینیت کا نام و نشان مٹانے کے درپے ہو گی۔ وہ یزید کو شکست دے سکیں یا نہیں، اس روز، جب سب گروہوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ پیش کیا جائے گا، فیصلہ ہو جائے گا کہ فتح کس کی ہے اور اصل میں شکست کون کھائے بیٹھا ہے۔
مگر کیا کِیا جائے کوفیوں کا کہ دل ان کے امام حسین کے ساتھ ہیں پر تلواریں یزید کی حمایت میں نکلتی ہیں ۔اپنے سامنے کی سچائی کو جانتے بوجھتے جھٹلانے والے لوگ ہمیشہ یزید کے لشکروں کو تقویت دیتے ہیں۔ حسین کے ساتھ تو وہ کھڑ ا ہو گا جسے خدا نے سچ کی توفیق دی ہو۔ سچائی کے متلاشیوں کے لیے کربلا کی رنگین سرزمین سے پھوٹتی کرنو ں کا پیغام تو بس یہی ہے:
“جو شخص کسی ایسے بادشاہ کو دیکھے جو اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس کے ایسے افعال و اعمال کو دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اسی ظالم بادشاہ کے ساتھ اسی کے مقام(دوزخ) میں پہنچا دے۔”[3]
(نوٹ: تاریخی واقعات “تاریخ دعوت و عزیمت” از سید ابو الحسن علی ندوی سے لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شہادت امام حسینؓ ، شہید کربلا، جادہ و منزل اور قادیانی مسئلہ سے مدد لی گئی ہے۔)
—-
[1] علامہ اقبال کا پورا شعر یوں ہے:
در نوائے زندگی سوز از حسینؓ اہل حق حریت آموز از حسینؓ
ترجمہ: زندگی کے نغمے میں حضرت حسینؓ کی وجہ سے سوز پیدا ہوا اور اہل حق نے انہیں سے آزادی کا سبق لیا۔
[2] ترجمہ: جب خلافت نے قرآن مجید سے تعلق توڑ لیا، حریت کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا۔ یہ حالت دیکھ کر سب سے بہتر امت کا وہ نمایاں ترین جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے اور اٹھتے ہی جل تھل ایک کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور چھٹ گئی۔ ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا اور چل دی۔
[3] حضرت حسین ؓ کے میدان جہاد میں ایک خطبہ سے اقتباس۔
مکرمی احمداویس صاحب آپ کی تحریر”اہل حق حریت آموز از حسینؓ”بہت خوبصورت اور اپنےاندر درداحساس اور اہل حق کوخراج تحسین کا جزبہ رکھتی ہے اتنی اچھی تحریرپرمبارک