قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَمِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم….٣٦ ﴾…… سورة التوبة”بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداءِ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے ۔ ان میں چارحرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں(ناحق قتل) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو”
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو، سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، وہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ۔”
حضرت قتادہ نے فرمایا: “ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم وزیادتی بہت بڑا گناہ ہے ۔”
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر ‘یومِ عاشوراء’ یعنی دس محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے اَحادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ “اس سے ایک سالِ گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔” (مسلم : ج۱ ،ص ۳۶۸)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑاعظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کوغرق کیا تھا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب اورحقدارہیں۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا”۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:۱۸۰
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو”۔
یوم عاشورہ یعنی دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں مثلاً
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ادریس کو بلند درجات عطا فرمائے۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات دی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت نوح کو کشتی پر سے اتارا۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسی پر تورات نازل کی ۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے اسمٰعیل کو ذبح کرنے کی بجائے دنبے کا فدیہ دیا تھا۔
اس دن اللہ نے حضرت یوسف کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔
اسی دن اللہ نے حضرت یعقوب کو ان کی قوتِ بینائی واپس کی تھی۔
اس دن اللہ نے حضرت ایوب سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔
اسی دن اللہ نے حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔
اسی دن اللہ نے دریاکو چیر کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنایا تھا۔
اسی دن حضرت موسی نے دریائے نیل عبور کیا تھا۔
اسی دن حضرت یونس کی قوم کو توبہ کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔
لیکن یہ سب باتیں کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں سوائے اس کے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم وستم سے نجات ملی۔
سیّدنا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو شہادت کیلئےایک ایسا دن نصیب ہواجوتاریخِ عالم میں پہلے ہی سے مقدس اور بابرکت گردانا جاتا تھا۔
﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَمِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم….٣٦ ﴾…… سورة التوبة”بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداءِ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے ۔ ان میں چارحرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں(ناحق قتل) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو”
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو، سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، وہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ۔”
حضرت قتادہ نے فرمایا: “ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم وزیادتی بہت بڑا گناہ ہے ۔”
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر ‘یومِ عاشوراء’ یعنی دس محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے اَحادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ “اس سے ایک سالِ گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔” (مسلم : ج۱ ،ص ۳۶۸)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑاعظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کوغرق کیا تھا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب اورحقدارہیں۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا”۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:۱۸۰
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ” یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو”۔
یوم عاشورہ یعنی دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں مثلاً
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ادریس کو بلند درجات عطا فرمائے۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات دی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت نوح کو کشتی پر سے اتارا۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسی پر تورات نازل کی ۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے اسمٰعیل کو ذبح کرنے کی بجائے دنبے کا فدیہ دیا تھا۔
اس دن اللہ نے حضرت یوسف کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔
اسی دن اللہ نے حضرت یعقوب کو ان کی قوتِ بینائی واپس کی تھی۔
اس دن اللہ نے حضرت ایوب سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔
اسی دن اللہ نے حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔
اسی دن اللہ نے دریاکو چیر کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنایا تھا۔
اسی دن حضرت موسی نے دریائے نیل عبور کیا تھا۔
اسی دن حضرت یونس کی قوم کو توبہ کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔
لیکن یہ سب باتیں کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں سوائے اس کے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم وستم سے نجات ملی۔
سیّدنا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو شہادت کیلئےایک ایسا دن نصیب ہواجوتاریخِ عالم میں پہلے ہی سے مقدس اور بابرکت گردانا جاتا تھا۔
فیس بک تبصرے