ثناء سلیم کے نام۔۔۔

pak-army-isafآپا جی السلام و علیکم،

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہونگے، آپکا کا خط بنام سید منور حسن نظر سے گذرا، خیال آیا کہ سید صاحب کیوں اتنا کشٹ اٹھائیں  اور  اب تو قیم جماعت اسلامی کے پاس بھی اتنا وقت شاید نہ ہو کہ امیر محترم کی ہدایات کہ مطابق ہر کسی کو جواب مرحمت فرماسکیں۔ تو سوچا کہ کیوں نہ یہ نیک کام خود ہی انجام دیدیا جائے۔ امید ہے کہ طبع نازک پہ گراں نہ گذرے گا۔

آپ نے خط کے آغاز میں اپنے کسی پرانے خط کا ذکر کیا ہے جو خواتین پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے تھا۔ ساتھ ہی حالیہ دنوں میں ہونے والے چند واقعات کا ذکر ہے کہ جن میں معصوم بچیوں کا درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں یہاں جماعت اسلامی کے پالیسی بیانات کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا کہ “جماعت اسلامی اس ظلم و بربریت کی سختی سے مذمت کرتی ہے اور واقعہ کی ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے” وغیرہ وغیرہ کیونکہ شریر و شرپسند اپنے مطلب کی باتوں کے علاوہ کسی اور بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

قطع نظر اسکے کہ مذکورہ واقعات کی کوئی بھی ذی عقل حمایت نہیں کرسکتا، آپ نے اپنی تحریر میں حدود قوانین  کا ایک بار پھر مذاق بنانے کی کوشش کی ہے اور وہی گھسی پٹی دلیل کہ چار گواہ کہاں سے لائے کوئی۔ آپا جی اگر آپ اور آپ کے قبیلے کے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ حدود قوانین  قرآن و سنت سے متصادم ہیں  تو پھر “اسلامی نطریاتی کونسل” سے کہیں کہ اس ملک کے جید علماء کی سرکردگی میں نئے اجتہاد کے تحت نیا حدود آرڈینینس منظور کرلیں جو تمام مکاتب فکر کو قبول ہو۔

ویسے یہ بھی خوب ہے کہ حدود آرڈیننس کے خلاف شور مچانے والا طبقہ کچھ یوں واویلا کرتا ہے جیسے کہ اگر کوئی معصوم درندگی کا نشانہ بنے اور وہ اپنے حق میں چار گوہ نہ لاسکے تو فاضل عدالت کے جج صاحبان مذکورہ ملزم سے یہ کہتے ہوں کہ اعلیٰ حضرت آپ کو حبس سے بیجا میں رکھ کر ہم نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ بحفاظت و باعزت گھر جاسکتے ہیں۔ اسکے برخلاف ملزم کو تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے جہاں گواہان کے ساتھ ساتھ فارنسک ثبوتوں کی روشنی میں جرم ثابت ہوجانے پر عمر قید سے لیکر سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اس حوالے سے کی گئی آپ کی باتیں انتہائی نرم الفاظ میں شرارت کے سواء کچھ نہیں۔

آپ کی غیر ضروری گفتگو کا جواب ضروری تھا اسلیے میں غیر ضروری گفتگو کے جواب پر معذرت خواہ نہیں ہوں۔ اب جہاد افغانستان کے حوالے سے آپکے اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ “1980ء میں افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے والے  جنگجو شہید ہیں کہ نہیں؟”۔ میں یہاں ہرگز تاریخی حقائق بیان کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں کہ “اتنے عرصے تک افغانوں نے اپنے بل بوتے پر جہاد کیا اور پھر اتنے عرصے بعد فلاں فلاں ممالک ان کی مدد کو پہنبے” وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بجائے سب سے پہلے تو آپ اپنی تاریخی غلطی کو درست کریں۔ 80 کی دہائی میں افغانستان میں جاری جہاد افغانوں کی جنگ آزادی تھی امریکہ کی جنگ نہیں۔ ظالم کے خلاف جو بھی مظلوم کی مدد کرے تو فبہا، مرحبا، خوش آمدید۔ کل سوویت یونین جارح تھا، آج امریکہ جارح ہے۔ کل امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف مدد کی، آج سوویت یونین کا جانشین روس مدد کو آئے تو مرحبا۔ لہٰذا جارح ظالم کے خلاف ڈٹ جانے، مزاحمت کرنے والے مجاہدین شہید ہیں۔ چاہے وہ جارح سوویت یونین ہو یا امریکہ، چاہے مجاہدین کے معاون امریکہ ہوں یا سوویت یونین۔

رہی بات اس کی کہ کون شہید ہے اور کون نہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی بیان یا انٹرویو سے اپنے مطلب کی بات اخذ کرنے پر ہی قانع ہیں۔ سید صاحب ہی نہیں تمام علماء اس بات کا بارہا اعادہ کرچکے ہیں کہ کسی کے کہنے یا نا کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔ اور میں تو سید صاحب سے یہ حُسن ظن رکھتا ہوں کہ انہوں نے موجودہ ظالم و جارح امریکہ کی مخالفت میں حکیم اللہ کو شہید کہا ہے کہ وہ کسی صورت امریکہ اور اس کے چمچوں کو بغلیں بجانے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مختلف واقعات پر جاری کیے گئے بیانات اظہر من الشمس ہیں چاہیے وہ سلالہ واقعہ ہو، میجر جنرل ثناءاللہ نیازی پر حملہ ہو یا فوج و پولیس پر کیے گئے دیگر حملے۔ ان تمام واقعات کے بارے میں جاری کی گئی پریس ریلیزز میں فوج و پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں  کے جوانوں کی بابت شہید ہی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

جماعت اسلامی تو اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ امریکہ کی مسلط کردہ “دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں  پاکستانی فوجی کام آئے یا کوئی طالب، دونوں طرف نقصان تو اپنا ہی ہے۔ اور حکومت پاکستان کو فوراً اس جنگ سے باہر آجانا چاہیے۔ موجودہ کون شہید ہے اور کون نہیں کی بحث پر تو بقول سید منور حسن “ہم تو ان لوگوں کی طرف سے فوج کی مدح سرائی پر بہت محظوظ ہورہے جو اُٹھتے بیٹھتے فوج کو مطعون کیا کرتے تھے” لیکن خیر اگر آپ کو تاریخ درست کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ذرا بتلائیے کہ آن ڈیوٹی فوجی وردی میں طیارے کے حادثے میں مارے جانے والے اس وقت کے صدر مملکت اور چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق شہید ہیں یا پاکستان کی اعلیٰ عدالت سے سزائے موت پانے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید ہیں؟

تاریخ کی درستگی بہت ضروری ہے۔ میں آج تک اسلامی تاریخ کی کئی جنگوں کے بارے میں کنفیوز ہوں۔ ذرا بتائیے کہ “جنگ جمل”  جو کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان لڑی گئی میں کون حق پر تھا اور کس طرف سے لڑنے اور جانوں کا نذرانہ دینے والے افراد شہید کہلائیں گے؟

چلیں یہ تو ہم بہت دور آگئے، ماضی قریب میں بلوچستان کے کوہساروں میں فوج سے لڑائی کے دوران نواب اکبر بگٹی مارے گئے اور انہی سے لڑائی میں پاک فوج کے چند افسران و جوان بھی جانبحق ہوئے۔ بھلا بتائیے کہ کون سا فریق شہید کہلانے کا زیادہ مستحق ہے؟

آج کل ستّر و اسّی کی دہائی کا بڑا شہرہ ہے بھلا پتہ تو چلے کہ 1971ء میں پاکستان کی بقا و سالمیت کے لیے جدو جہد کرنے والے “البدر” اوہ معذرت وہ تو قابل گردن زنی ہیں، وہ پاکستانی فوجی کیا کہلائیں گے جو پاکستان توڑنے اور قیام بنگلہ دیش کی جدوجہد کرنے والے مُکتی باہنی سے لڑتے ہوئے مارے گئے؟ پاکستانی فوجی شہید ہیں یا مُکتی باہنی کے شورش پسند؟

بحرحال کمبخت انگریز کی ایجاد کردہ انٹرنیٹ عجیب کے ساتھ ساتھ مزیدار بھی ہے جہاں ہرکوئی اپنے مطلب کی چیز بڑے فخر سے سامنے لے آتا ہے جیسے اس کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ سوات و قبائلی علاقوں سے متعلق افواج پاکستان کی کئی ایسی ویڈیوز تحقیقات کے مراحل میں ہیں جو آپاجی کی نظروں سے نہیں گذرسکے۔ ویسے سید صاحب تو کرنل امام کو بھی شہید گردان چکے ہیں شاید بصارتِ سلیم میں نہ آسکا۔

محترمہ تاریخ کی بزعم خود درستگی کرتے کرتے یہ فہرست بڑی لمبی ہوجائیگی۔ لیکن تاریخ  اُن نام نہاد سکیولرز کو ضرور یاد رکھے گی جو معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں پر تو  آواز اُٹھاتے ہیں لیکن ڈرون حملے کا نشانہ بننے والی معصوم نبیلہ کا درد ان کا جگر چھلنی نہیں کرتا۔

شکریہ۔۔۔

فیس بک تبصرے

ثناء سلیم کے نام۔۔۔“ پر 16 تبصرے

  1. بہت خوب وقار بھائی۔۔۔۔۔ یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آسکی کہ جب بھی متنازعہ امور کی بات آتی ہے ڈان والے ڈرون کی طرح کیوں بی ہیو کرنے لگ جاتے ہیں۔

    • ڈان اور ڈرون مںں بہت کچھ مشترک ہے اس لیے!!!! اللہ ہمیں ڈان اور ڈرون دونوں سےبچائے۔

  2. WELL DONE! her letter was so confusing that I could not undrstnd her point of view! thanks to b comprehend it.

  3. بہت خوب برادر وقار عظیم، مختصر و مدلل و قاطع برهان. اللہ کرے زور قلم اور

  4. Therefore, we can conclude that what Jamat and their people do is right, while the rest of all are wrong. You people are responsible for killing thousands of lives in Afghanistan and back then America, Israel, and Europe were your friends because they were supporting you. You innocent kids. Or we idiots.

  5. Buhat Khoob

  6. موصوفہ نے پہلی دفعہ شاید اردو میں بلاگ لکھا تھا ۔ ناپختگی واضح تھی ۔ افسوس اس پرہوا کہ خود کو کولیفائڈ سمجھنے والاطبقہ سوائے مذہب بیزاریت کے اور کچھ نہین جانتا ۔ اردو مین لکھیں تو پھنستے ہیں ۔ آپ نے جواب دیا ہے لگتا ہے اب وہ اردو میں لکھنے کی غلطی نہ کریں گی ۔

  7. You need to correct your history knowledge. Not USSR came to Afganistan first; it was US sitting there planning against USSR then they came to undo US planning. So, US started a campaign and got “free” recruits in the name of “Jihad”. It was never a jihad. Islam was never in danger. Get your history knowledge straight.

    • حضرت، اُس وقت امریکا افغانستان نہیں آیا تھا۔ افغانستان کی حکومت پر پہلے ہی ماسکو نواز کمیونسٹ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر قابض تھے۔ اور مجاہدین اس وقت سے ہی کمیونسٹوں سے برسرپیکار تھے۔ اور پھر 80 کی دہائی میں سویت یونین اپنے پٹھوؤں کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے افغانستان وارد ہوا۔

      دوبارہ کچھ بہتر انداز میں تاریخ کا مطالعہ کریں۔۔۔

  8. محترم میں صرف دو باتوں پر تبصرہ کرنا چاہوں گا-آپ نے فرمایا-
    ۱- 80 کی دہائی میں افغانستان میں جاری جہاد افغانوں کی جنگ آزادی تھی امریکہ کی جنگ نہیں۔

    اگر آپ ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں تو جلد از جلد اس دور کے حالات پر غور کر لیجیے – اگر ہم نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم تاریخ سے سبق ضرور سیکھ لیں-ورنہ انہی غلطیوں کو بار بار دوہراتے رہیں گے-

    ۲- کل سوویت یونین جارح تھا، آج امریکہ جارح ہے۔
    کیا کل امریکہ جارح نہیں تھا؟ کیا کل اس کی سرپرستی میں اسرائیل نہتے فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کر رہا تھا؟

    • محترم میں نے اس وقت کے حالات پر غور کرنے کے بعد ہی یہ نکتہ نظر اپنایا ہے۔

      دوسری بات یہ کہ آپ کو بڑا درد ہورہا ہے نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کا؟ چلیں خیر یہ تو اچھی بات ہے۔ لیکن کیا اس بنیاد پر روسیوں کو افغانیوں کے قتل عام کی اجازت دیدی جاتی؟ ہیں جی؟

      • “اجازت” کا لفظ خوب استعمال کیا آپ نے-اس وقت دیگر جگہوں پر جو مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے وہ یقیناآپ کی اجازت سے بہہ رہا ہوگا۔یہ فیصلہ آپ کی مجلس شوری میں ہوتا ہوگاکہ کس جگہ اجازت دی جاےَ اور کہاں نہیں-
        محترم میری بات کا برا نہ منایں۔معذرت چاہتا ہوں اگر آ پ کو تکلیف پہنچی ہو۔ میرا مقصد یہ نہیں ۔
        عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے دونوں جارح تھے، ہیں ، اور شاید آیندہ بھی رہیں گے۔
        ” کل امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف مدد کی، آج سوویت یونین کا جانشین روس مدد کو آئے تو مرحبا”
        کل امریکہ نے صرف اپنے مفاد کے لیے مسلمانوں کالہواستعمال کیا او ر آنے والے کل بھی یہی ہوگا اگر کچھ نہ سیکھا۔چاہے مدد کو روس آے یا چین یا امریکہ۔ صرف اللہ کی نصرت پر یقین رکھیے۔ان طاقتوں کے کھلونے نہ بنیے اور نہ بننے دیجیے۔امید ہے میرا نقطہ نظر سمجھ گئے ہوں گے۔اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے -آمین-

        http://globalresearch.ca/articles/BRZ110A.html

        • ارے بھائی کیا بات کررہے ہیں آپ؟ میں نے تو آپ سے پوچھا ہے کہ جی جناب، امریکہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے قتل عام میں مدد کررہا تھا اور ہے۔ اور امریکیوں کے برخلاف ہم بھی بدستور فلسطینیوں کی مدد و حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور افغانستان میں جب روس مسلمانوں کا قتل عام کررہا تھا تو کیا افغان مجاہدین کو انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے تھا کہ جی ضرور، ہمارا قتل عام جاری رکھیں؟ ہم آپ کےخلاف نہیں لڑتے کیونکہ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو لامحالہ امریکہ کو اس سے فائدہ ہوگا؟

          بس بھائی اتنا سا سوال تھا اور آپ مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت کو ہم اور ہماری مجلس شوریٰ کی اجازت سے منسوب کربیٹھے۔

          تو حضرت بتائیے کہ کیا مجاہدین کو اس وقت سوویت یونین کے خلاف لڑائی نہیں کرنی چاہیے تھی؟ کیونکہ اس سے کسی نہ کسی صورت میں امریکہ کو فائدہ پہنچتا تھا۔ باوجود اسکے کہ اس سے خود افغانوں کا بھی بھلا ہوتا اور انہیں سوویت یونین کے ہاتھوں قتل عام سے نجات ملتا۔ ہیں جی؟

          • اگر آپ نے اس دئے ہوئے لنک پر غور کیاہوتا تو جان جاتے کہ روس کو افغانستان میں گھسانے والا خود امریکہ ہی تھا جس کو آپ نے مرحبا کہا۔اگر اس خطے میں سی آئ اے کارروائیاں شروع نہ کرتی تو۷۹میں سوویت یونین افغانستان میں داخل نہ ہوتا۔ اس سے پہلے افغانستان کی اپنی خانہ جنگی تھی اسے آپ مجاہدین کی سوویت یونین کے خلاف لڑائی سے ہرگز تعبیر نہیں کر سکتے۔ سوویت یونین کے انخلا اور ٹوٹنے کے بعد بھی خانہ جنگی ختم نہیں ہوئ۔
            سوویت یونین کے ہاتھوں قتل عام سے نجات اس لئےحاصل کی کہ امریکہ کے ہاتھوں قتل عام سے فیض یاب ہو سکیں؟
            ۱۹۷۸ میں روسی پٹّھووں نے انقلاب برپا کیایہ ناقابل برداشت تھا اور سی آی اے کو کو مدعو کر لیاگیا جس کے نتیجے میں کئی گنا زیادہ خونریزی ہوئ۔آج امریکی پٹّھووں کی حکومت برداشت کرنی پڑ رہی ہے صرف اپنی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے۔
            یہ “ہیں جی؟” آپ کا تکیہ کلام ہے؟

  9. آپکے جوابات منطقی ہیں اور آپ نے انہیں مناسب اندازمیں بیان کردیا ہے۔
    محترمہ ثناء سلیم کی طرف سے اردو میں بلاگ لکھنے کی کوشش قابل تعریف ہے، امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اردو میں لکھتی رہیں گی۔

  10. @ف – خان
    ارے بھائی میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں اس پوسٹ میں کہ میں یہاں تاریخی حقائق بیان کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ کچھ کچھ تاریخ ہم بھی جانتے ہیں اور اسے جاننے کے لیے آپ کے دیے لنک کی ضرورت نہیں۔

    بے نام صاحب خود کہہ رہے کہ افغانستان میں پی ڈی پی اے کے روسی پٹھوؤں نے سوویت یونین کی مدد و حمایت سے انقلاب برپا کیا۔ تو امریکی سی آئی اے کی کاروائیاں کہاں سے آگئیں؟ انقلاب ثور اور اس سے پہلے ظاہر شاہ وغیرہ کی حکومتوں میں پاکستان بھی ان سے براہ راست متاثر ہوتا رہا اور حکومت پاکستان بھی وہاں مختلف عوامل کی مدد و حمایت کرتی رہی۔ افغان خفیہ ادارہ ؔخاد” کی کاروائیوں کا تو پاکستان خود شکار ہوا تو آپ کے خیال میں افغانستان کی صورتحال کا پاکستان پر ہرطرح سے اثرانداز ہونے کے باوجود پاکستان کو بھی افغانستان میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا؟

    بین الاقوامی تعلقات اور بین الریاستی تعلقات کا تھوڑا سا مطالعہ فائدہ مند ہوگا آپ کے لیے۔

    دوسری بات یہ کہ سوال یہ تھا کہ “”کیا مجاہدین کو اس وقت سوویت یونین کے خلاف لڑائی نہیں کرنی چاہیے تھی؟ کیونکہ اس سے کسی نہ کسی صورت میں امریکہ کو فائدہ پہنچتا تھا؟” بجائے جواب دینے کہ ف صاحب فرماتے ہیں کہ “سوویت قتل عام سے نجات امریکی قتل عام سے فیضیاب ہونے کے لیے؟” یعنی سوویت قتل عام انہیں بہت پسند ہے۔ شاید سابق سُرخوں کے دلوں میں کوئی کسک اب تک چنگاری دے رہی ہے۔ لیکن خیر۔۔۔ کیا افغانستان میں جاری جہاد ان بے بصیرتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟ مجاہدین اُس وقت بھی اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ اب بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ میں پھر دہراتا ہوں، آج اگر سوویت یونین بھی مدد کو آئے تو ضرور مدد لینی چاہیے۔

    اور ہاں ہم انقلاب ثور کے تحت افغانستان پر قابض ہونے والے کمیونسٹوں کے خلاف جدوجہد کو بھی جہاد سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply