نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کے طواف کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچے تو دیکھا حضرت عمر فاروقؓ سر جھکائے کچھ سوچ رہے ہیں، قائد ﷺ نے اپنے جان نثارؓ پوچھا کیا سوچتے ہو عمرؓ!
جواب ملا جب میں طوافِ کعبہ کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچتا ہوں تو مجھے براہیمی سجدوں کی یاد آنے لگتی ہے اور میرا بھی جی چاہتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں سجدہ ریز ہو جاؤں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تو چاہتا ہے عمرؓ تو کیا میرا جی نہیں چاہتا ۔۔۔ میرے تو دادا تھے ابراہیم ،جس طرح میں نے تجھے اپنے رب سے مانگا اسی طرح میرے دادا نے مجھے اپنے رب سے مانگا تھا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ ﷺ بھی اگر یہی چاہتے ہیں تو پھر یہ قانون بن گیا ناں۔۔! آپ ﷺ نے فرمایا نہیں عمرؓ قانون فرش پر نہیں عرش پر بنا کرتے ہیں۔ اور پھر عرش سے جواب آیا
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى
اے پیغمبر قیامت تک اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دے دیجئے کہ جو بھی زائرِ حرم میرے گھر کے طواف کو آئے میرے عمرؓ کے شوقِ عبادت کی تکمیل کیلئے مقامِ ابراہیم کو اپنی سجدہ گاہ بنا لے۔ اس وقت سے سجدے شروع ہیں آج بھی ہو رہے ہیں اور اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک زائرینِ حرم بیت اللہ کے طواف کو آتے رہیں گے۔
سیّدنا عمرؓ جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے مانگا تھا خلیفہ دوم کے طور پر ایسا طرزِ حکمرانی قائم کیا کہ تاریخ جس کی مثال دینے سے قاصر ہےایک رات وہ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور انہیں آگ جلتی نظر آئی، یہ سوچ کر کہ شاید کوئی قافلہ ہے جس نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اس کی خبر گیری کیلئے الاؤ کی جانب چل پڑے قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ایک خیمہ ہے اور اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے قریب ہی خیمے کے باہر ایک شخص ضروریاتِ زندگی کا سامان کرنے کیلئے آگ جلائے ہوئے ہے۔ سلام کے بعد اس شخص سے پوچھا کہ بھلے مانس تم کون ہو اور یہ خیمے کے اندر سے آنے والی آواز کا کیا ماجرا ہے۔اس نے بتایا کہ ایک غریب الدیار شخص ہوں اور امیر المؤمنین کی سخاوت کا چرچا سن کر مدینہ آرہا تھا کہ رات ہوگئی اور میری بیوی جو حمل سے تھی اسے دردِ زہ شروع ہوگیا آپ نے اس کی بات سن کر پوچھا کیا تمہاری بیوی کے پاس کوئی دوسری عورت موجود ہے؟جواب ملا کوئی نہیں۔۔۔آپ فوراً گھر لوٹے اور اپنی بیوی حضرت امّ کلثوم بنت علی کو ساتھ لے کر واپس اس شخص کے ہاں پہنچے اپنی بیوی کو اس عورت کے پاس اندر خیمے میں بھجوایا اور خود اس شخص کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور اپنے گھر سے لائے ہوئے سامان سے کھانا پکانے میں مشغول ہو گئے۔ اب وہ شخص سخت غصّے میں امیرالمؤمنین کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ رات کو قافلے شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے اسے اور اس کی بیوی کو شدید تکلیف کا سامنا کرناپڑا۔اسی اثناء میں خیمے سے بچے کے رونے کی آواز نئے مہمان کی آمد کا اعلان کرتی ہے اور سیّدہ امّ کلثوم خیمے سےآواز دے کر کہتی ہیں امیرالمؤمنین اپنے بھائی کو بیٹے کی خوشخبری دیجئے۔
اور اب وہ شخص کہ جو تھوڑی دیر پہلےامیر المؤمنین کو سخت سست کہ رہا تھا اسےجب معلوم ہوا کہ اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں خود خلیفۃالمسلمین ہیں تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ امیر المؤمنین نے مسافر کی پریشانی کو دیکھ کر تسلی دی کہ میں تمھارا خادم ہوں پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اطمینان رکھو۔ امیر المؤمنین نے دیگچی اٹھائی اور دروازہ کے قریب آ کر رکھ دی ،اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بہن کو کھلاؤ۔
سیدنا عمر فاروق تاریخ اسلام بلکہ تاریخِ انسانی کا وہ روشن کردار ہیں جن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی جن کے بارے میں جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔” [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]۔
صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی غلام تھاجس کا نام ابو لولو فیروز تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپکو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد یکم محرم الحرام 23ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اور نبی اکرم ﷺ اور خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے پہلو میں دفن ہوئے۔
سلامتی ہو عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ پر کہ جن کی مثال تاریخ کبھی پیش نہ کر سکے گی۔۔۔
آپ کے مطابق “اللہ کے رسول نے حضرت عمر کورب سے مانگا” لیکن میرے لیئے تعجب کی بات ہے کہ جنہیں اللہ کے رسول نےخود رب سے مانگا انہوں نے اسلام قبول کرنے کے پہلے ہی سال نبوت پر شک کیا۔۔؟ سیّدنا عمر فرماتے ہیں : ”والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ“! یعنی خدا کی قسم جب سے میں اسلام لایا میں نے کھبی شک نہی کیا سواے اس دن کے (روز صلح حدیبیہ)!! آپ اس کی وضاحت فرماہں گے؟
آپ کے مطابق “اللہ کے رسول نے حضرت عمر کورب سے مانگا” لیکن میرے لیئے تعجب کی بات ہے کہ جنہیں اللہ کے رسول نےخود رب سے مانگا انہوں نے اسلام قبول کرنے کے پہلے ہی سال نبوت پر شک کیا۔۔؟ سیّدنا عمر فرماتے ہیں : ”والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ“! یعنی خدا کی قسم جب سے میں اسلام لایا میں نے کھبی شک نہی کیا سواے اس دن کے (روز صلح حدیبیہ)!! اپ اس کی وضاحت فرماہں گے؟
ملک صاحب مجھے تو آپ کی علمیّت پر تعجب ہو رہا ہےعمر فاروقؓ نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی دنوں میں اسلام قبول کیا اور کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کب ہوئی اور کیا خود حضرت عمر فاروقؓ نے اس شک کا اظہار جناب نبی کریم ﷺ کے سامنے بھی کبھی کیا اور آپ کی اس بات کا کوئی حوالہ ؟
ڈاکٹر اسلم صاحب السلا علیکم۔
میں کوئی عالم نہی ہوں نہ ہی کسی دینی درس گاہ کا فارغ التحصل ہوں۔ لیکن فرصت کےاوقات میں مطالعہ اور تحقیق کرتا ہوں ۔ اب اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ میں معذرت چاہتا ہوں حضرت عمر نے اسلام لانے کے ایک سال نہیں بلکہ 12 سال بعد صلح حدیبیہ کے موقع پر پیغمبر کی نبوت پر شک کیا۔ انہوں نے اسلام بعثت نبی کے 6 سال بعد یعنی 7 سال قبل از ھجرت اسلام قبول کیا جبکہ صلح حدیبیہ کا واقعہ 6ھ کو رونما ھوا۔ اس صورت میں یہ امر اور بھی باعث تاسف ہے کہ حضرعمر 12 سال تک نبی کی صحبت میں رہنے کے باوجود نبوت پہ مشکوک ہو گئے۔ جہاں تک پیغمبر اسلام کے سامنے اس شک کے اظہار کا سوال ہے تو حضرت عمر کے اپنے الفاظ ہیں کہ:
فقال عمر بن الخطاب رضوان الله عليه : والله ما شككت منذ أسلمت إلا يومئذ فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فقلت : ألست رسول الله حقا ؟
مرادِ رسول کے نبوت پر شک کرنے کا واقعہ 30 سے زیادہ کتب اہل سنت میں موجود ہے ۔ جن میں سے چند درج زیل ہیں۔
1- صحيح ابن حبان : 9 / 492 ح
2- الطبقات الكبرى : 6 / 135
3- كنز العمّال : 2 / 525 ح : 4663
4- السنن الكبرى للبيهقي : 7 / 37
5- المصنف لعبد الرزاق : 5 / 330 ح : 9720
6- المعجم الكبير : 1 / 72 ح
7- مجمع الزوائد : 1 / 179
8- سيرة ابن هشام : 3 / 331
9- تفسیر البغوی ، سورۃ الفتح آیت 25۔
10- تفسیر طبری ، سورۃ الفتح آیۃ 25۔
وعلیکم السلام
شکریہ ملک صاحب
صلح حدیبیہ جن شرائط پر کی گئی بظاہر وہ شرائط انتہائی توہین آمیز تھیں جس کی بنیاد پر حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی جلالی طبیعت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ کیا آپ ﷺاللہ تعالٰی کے سچے رسول نہیں ہیں اور کیا اللہ کی مدد کا وعدہ سچا نہیں ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کے بے شک میں اللہ کا سچا رسولﷺ ہوں اور بلاشبہ اللہ کی نصرت کا وعدہ بر حق ہے۔ اسی موقع کے متعلق آپ کی نقل کرردہ بات جناب عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمائی۔ عمر فاروقؓ کی طبیعت میں ایک جلال تھا جس کی بنیاد پر ہی جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئیے تو آپ ننگی تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ جو شخص یہ بات کہے گا کہ نبیﷺ وفات پا گئے میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔
جناب ملک صاحب آپ عمر فاروقؓ کے اس رویے کو کیا نام دیں گے
جناب عمر فاروقؓ کے یہ کلمات جو آپ نے نقل کئے ہیں ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی نبوت پر واقعی شک کیابلکہ ان کی یہ بات محض شرائط صلح پر ایک ردّعمل تھا
حضرت عمر فاروقؓ کی ساری زندگی ان کے اسلام کیلئے قربانیوں کی لازوال داستان ان کے نبوّت محمدی ﷺ پر پختہ یقین کا عملی نمونہ ہے
سلامتی ہو حضرت عمر فاروقؓ پر جو قیامت تک کیلئے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک روشن نشانِ منزل ہیں
ڈاکٹر صاحب السلام علیکم۔
حضرت عمر انتہائی سادہ اور واضح الفاظ میں فرماتے ہیں ” خدا کی قسم میں جب سے اسلام لایا شک نہیں کیا سوائے اس دن (صلح حدیبیہ)کے ۔” کیا اس کو صلح حدیبیہ کی شرائط کا رد عمل کہا جائے گا ؟ ہم اگے بڑھتے ہیں تاکہ یا واقعہ اور واضح ہو جائے، جناب عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے صلح حدیبیہ کے بعد کفارہ دیا ا ور نیک اعمال (صدقہ، روزہ، نماز )انجام دیئے۔ حضرت عمر کے یہ الفاظ ” (قال عمر فعملت لذلك أعمالا )۔۔۔ صحیح بخاری اور بہت سی کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔
اب میں چاہوں گا کہ آپ کے تبصرہ میں موجود 1 اھم نکتہ پر روشنی ڈالوں اور اس کے بارے میں تلخ حقائق بہت اختصار کے ساتھ بیان کروں۔
آپ کے مطابق “سیدنا عمر بن خطاب ایک جلالی طبعیت رکھتے تھے” ڈاکٹر صاحب اگر ہم ایک دیانتدارانہ تحقیق کریں تو با آسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب صرف مسلیمن پر جلالی مزاج رکھتے تھے جبکے کفار کے ساتھ مبارزہ میں صورت حال مختلف
تھی!! صحیح بخاری میں سیدنا عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح ذکر ہوا ہے: “فاخبرنی جدی زید بن عبداللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بینما ھوفی الدار خائفا۔۔۔ ترجمہ:میرے دادا زید بن عبداللہ نے خبر دی کہ حضرت عمر اسلام لانے ک بعد قریش سے ڈرے ھوئے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے۔۔۔۔۔۔” (صحیح بخاری ج5ص249 ناشر مرکزی جمعیت اہل حدیث ھند ۔ ترجمہ مولانا داود راز۔)
ڈاکٹر اسلم صاحب
ایک مختصر سا سوال ہے وہ یہ کہ: حضرت عمر کو “فاروق” کا لقب کس نے دیا؟
مالک
مدینے میں ایک مسلمان نے بیت المال سے آٹے کی بوری چوری کر کے اسے ایک یہودی کے پاس امانت کے طور پر رکھوادی اس بوری میں ایک سوراخ تھا صبح جب شور مچا کہ ایک آٹے کی بوری چوری ھو گئی ھے تو آٹے کے نشانات کےپیچھےچل کر دیکھا تو وہ یہودی کا گھر تھا اسے حراست میں لے لیا گیا اس نے بتایا کہ یہ بوری فلاں مسلمان نےمیرے پاس رات میں امانت رکھوائی ھے اس مسلمان کو بھی پکڑ لیا مگر مسلمان نےجھوٹ بولا کہ میں نے اس یہودی کے پاس کوئی بوری نہیں رکھوائی یہودی جھوٹا ھے
یہودی مستقل یہی کہتا رہا کہ اس مسئلے کو اللہ کے رسول ﷺ کی عدالت میں لے کر چلومسلمان کے چونکہ حضرت عمر سے دوستانہ تعلقات تھے تو کہتا رہا کہ اس مسئلے کو پہلے حضرت عمر کے پاس لے چلوآخر یہودی کی بات مانی گئی اور آپ ﷺ کی خدمت میں جب مسئلہ پیش کیا تو آپ ﷺ نے سارا معاملہ سن کر فرمایا کہ یہودی سچا ھے
اور مسلمان جھوٹا ھے
مسلمان یہ مسئلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ لے آیا
ابھی وہ سارا معاملہ بتا ہی رہا تھا کہ اچانک یہودی کے منہ سے نکل گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ میرے حق میں فیصلہ دے چکے ھیں اور مجھے بے گناہ فرمایا ھےاور اسے جھوٹا کہا ھےیہ سننا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور اس مسلمان (منافق) کا سرتن سے جدا کر دیا اور فرمایا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلہ فرمادیا تو میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی اس پر منافقین نے مدینے میں فتنہ پھیلا دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا ھے تب اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید میں سورہ النساٰ کی آیت 58 سے 65 نازل فرمائیں
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( 65 )
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
آپ ﷺ نے حضرت عمر کو اس واقعے کے بعد ۔۔۔۔فاروق ۔۔۔۔یعنی حق اور باطل میں فورا فرق کرنے والا کے لقب سے نوازا.
mashallah bohat khood aslam bhai