مسلمانوں کی تاریخ میں یزیدی لشکراپنے تخت وتاج کی حفاظت کیلئے قافلہ حسینی سے ٹکراتے ہی رہے ہیں۔ حق کی شناخت کرلینا، باطل کو للکارنا، اور پھر اس حق کی خاطر جان دے دینا ہی تو حق کی سب سے بڑی فتح ہے۔ اور یہی فتح امام حسین ؓ نے میدان کربلا میں حاصل کی۔ یوں تو مسلمانوں کی تاریخ ہی شہادتوں کی تاریخ ہے۔ شہید تو امیر حمزہؓ ۔شہیدحضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت حسن ؓ بھی ہوئے لیکن حضرت امام حسین ؓ کی شہادت ان سے سے مختلف کیوں ہے کہ ہر سال دنیا کے چپے چپے پر مسلمان اس شہادت کو یاد کرتے ہیں، سوگ مناتے ہیں۔ انکے غم کو تازہ کرتے ہیں۔ ہر زبان پر ان اہل بیت کی مظلومانہ شہادت کے نوحے ہوتے ہیں شاید اسلئے کہ آپکی شہادت پوری مسلم امہ کی طرف سے فرض کفایہ تھی یا یہ کہ ایک فرد اور اس کے اہل بیت کی نہیں بلکہ اصولوں کی شہادت(گواہی) تھی، اور انہوں نے وقت کے حکمرانوں کی غیر مشروط اطاعت سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے اسلام کی نظریاتی بقا کیلئے جان قربان کی۔وہ دیکھ رہے تھے کہ جمہوریت ملوکیت میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔ اور قیصر وکسریٰ کی سنت پوری کرتے ہوئے نظام مملکت وراثت کی صورت میں باپ سے بیٹے کو منتقل ہورہا ہے۔ چنانچہ اسلام کے پورے نظامِ اخلاق، تمدن، قانون، معاشرت، معیشت غرض اسکی اجتماعی ہئیت ہی بدلنے جارہی تھی۔ مسلمانوں کا نظام مملکت خطروں کی زد میں تھا۔ ملت کا اجتماعی شیرازہ بکھرنے جارہا تھا۔
وقت کے طاغوتوں کو للکارنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔یہ نواسہ رسولؐ کی جرائت ہی ہوسکتی تھی۔ بقول سید اسعد گیلانیؒ ’’خلافت وملوکیت کے دوراہے پر جو سرخ نشان امام حسین کے خونین پیرہن کا آویزاں ہے اس شہادت نے ہماری تاریخ میں ایک خط مستقیم کھینچ دیا جو دور خلافت اور دور ملوکیت کو اپنے خون شہادت سے ممتاز کرتا ہے یہ امتیاز ان مٹ ہے ۔ملت کی تاریخ میں اس مخصوص چوراہے پر شہادت واقع ہوجانے سے یہ شہادت ِ عظیم بن گئی۔کربلا کا واقعہ عراق کی سرزمین کے ایک گوشے میں نہیں بلکہ تاریخ کے چوراہے پر واقع ہوا ہے اور میدان کربلا بلاآخر ہماری تاریخ کا چوراہا بن گیا ہے‘‘۔
امام حسین ؓ نے اسلامی ریاست کے اصولوں کی خاطر سرکٹایا۔ اور اسلامی ریاست کا کون سا اصول اس لاالہ کی سرزمین پر اب تک پامال نہیں ہوا۔ اور اب تقسیم درتقسیم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور ہم ہیں کہ سازشوں کو سازش سمجھنے پر بھی تیار نہیں۔ جب ہلاکو خان بغداد کو تاراج کررہا تھا اور قوم کو ان بحثوں میں الجھادیا گیا کہ ’’کوا حرام ہے یا حلال‘‘ اب موضوع بحث امریکی ڈرون حملے نہیں بلکہ یہ ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا کہ ہلاک؟!گویا اسلامی معاشرے کا شعار ’’شہادت ‘‘ہی کو متنازعہ بنادیا گیا۔ بات اتنی سادہ نہیں کہ ’’ھلاک‘‘ یا ’’شہادت‘‘ کو فقہ سے ثابت کرنا مقصود ہے۔ بلکہ اب ملک مختلف نظریات رکھنے والی طاقتوں کیلئے میدان جنگ بنادیا گیا ہے۔ اور عوام کی توجہ امریکی جنگی جرائم سے ہٹانے کی یہ سازشیں ہیں۔ خود ہمارے ریاستی ادارے امریکہ کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اس قسم کی نفسیاتی سازشوں کا مقصد عوام کو کنفیوز کرکے اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانا ہے۔ کیونکہ جو سر نہیں اٹھا سکتے انہیں سر جھکانے کی قیمت یونہی ادا کرنی پڑتی ہے!! اور تاریخ گواہ ہے کہ کاسئہ گدائی اٹھانے والے کبھی سراٹھا ہی نہیں سکتے۔ امام حسینؓ نے راہ حق میں سرکٹایا۔سرآج بھی کٹ رہے ہیں جب نہ زمین تحفظ دینے پر تیار ہے نہ آسمان۔ سر کاٹنے والے ہر دور کی بڑی حقیقت ہوتے ہیں لیکن مقتل میں کٹنے والے سروں کی آن،بان اور شان ہمیشہ سلامت رہتی ہے۔
لیکن جو اندر سے کمزور ہوں تو بیرونی دشمنوں کے کام بہت آسان ہوجاتے ہیں ہمیں بحثوں میں الجھاکر ہمارادشمن اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی کررہا ہے ہم بحث میں ہی الجھے رہے کہ ملالہ ہیرو ہے یا سامراجی ایجنٹ؟ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا ہلاک؟؟اور وقت کے ہلاکو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تیاری کررہے ہیں۔ جب وقت یہ سوچنے کا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی شہادت سے امریکی عزائم بے نقاب ہوگئے ہیں لہٰذا ہمیں اپنی پالیسیوں پر فوری نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہمیں یوٹرن لینا ہوگا۔ ہم اس وقت ’’ہلاک‘‘ اور ’’شہید‘‘ کی بحث میں وقت ضایع کرتے رہے اور اپنے اداروں اور عوام کے درمیان فصیلیں کھڑی کرتے رہے۔ اور ہمارے دشمن خوش ہیں کہ تقسیم درتقسیم کے عمل سے تو انکی طاقت خود ہی ختم ہوگئی ہمیں کیا ضرورت ہے مزید بیرونی طاقت آزمانے کی؟؟اس یومِ عاشور پر بھی ہم نے یہ پیغام نہ سمجھا تو پھر کون سا وقت آئے گا۔ اور پیغام یہ کہ اصل شہادت بس اصولوں کی خاطر حق کی شہادت ہے اور ریاست کی بقا کیلئے وقت کے یزیدوں کی چالوں کو سمجھنا ہی حسینیت ہے؟؟!!
’’خود ہی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تع صورِ اسرافیل
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؑ!‘‘
فیس بک تبصرے