ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں کہنے والے کہ کمزوروں کی کھوپڑیوں سے مینار ہی بننا چاہیں ۔لیکن کیا کریں کہ ہم مینار یوں نہیں بناسکے کہ ’’ڈرون‘‘ کھوپڑیوں کو سلامت ہی نہیں رہنے دیتے ۔ اور کوئی کھوپڑی تو انہیں اتنی عزیز ہوتی ہے کہ محض ایک سر کی قیمت’’پچاس لاکھ ڈالر‘‘ بھی لگا دیتے ہیں۔ نہ معلوم حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت کا چیک حکومت کو موصول ہوا کہ نہیں؟ قومی خزانے میں اضافہ بہر حال خوشی کی خبر ہوسکتی ہے۔ مذاکرات کا عمل سبوتاژ ہو کہ نہ ہو۔اور رہی قومی غیرت وحمیت۔ سو وہ تو عزت سادات کی طرح رخصت ہوگئی اور قصرِ سفید کی کنیز کے رتبے پر فائز ہے آج کل۔
ایک ترک مدبر کا قول ہے کہ’’ دنیا کی کسی چیز نے ترکوں کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر انگریزوں کی دوستی پر اعتماد اور ان کے ایمانداری پر حسن ظن نے پہنچایا‘‘ ترکی کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ملی ہوئی عزت اور ذلت کیا چیز ہوتی ہے۔ اور تاریخ اپنے آپ کو مسلسل دہرارہی ہے۔ روسی جنرل فیڈروف ایک حیرت انگیز واقعہ لکھتا ہے’’انگریزوں کو ہندوستان کے راستے میں ایک بحری مستقر کی ضرورت تھی اس کیلئے ’’عدن ‘‘سے بہتر مقام اور کون سا ہوسکتا تھا۔ اسکے حاصل کرنے کیلئے انگریزوں نے جو تدبیر استعمال کی اسکی نظیر صرف انہی کی تاریخ میں مل سکتی ہے۔ انہوں نے ایک انگریز کمپنی کے جہاز کو عدن کے قریب سمندر میں غرق کردیا۔ اور پھر خوداس کی حمایت کیلئے پہنچ گئے۔ جہاز غرق ہونے کا الزام عدن کے عربوں پر لگادیا اور شیخ یمن کو گولہ باری کی دہمکی دی ۔وہ بے چارہ اس آفت سے سہم گیا اور مجبوراً تاوان جنگ جیب میں رکھ کر ان حضرات نے شیخ کو عدن کی فروخت پر آمادہ کرلیا اور بہت سی رقم کا لالچ دیکر بیع نامہ لکھوالیا۔ جب قیمت ادا کرنے کا وقت آیا تو شیخ کی خاص مُہر کسی طرح چوری کراکے رسید پر لگالی اور قانوناً شیخ کو ایک پیسہ دیئے بغیر عدن پر قبضہ کرلیا۔ سلطانِ ترکی اس وقت اپنی ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے عدن کی پروا کیا کرتے؟‘‘
یہ کھیل ۶۰۰ سو برسوں سے جاری ہے، ایک کے بعد ایک ’’عدن‘‘ سامراجی قوتوں کے نرغے میں آتے چلے جارہے ہیں۔ اور ہم اپنے دوستوں کی دوستی نبھاتے ہوئے شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار خود کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور لندن کے تحقیقی ادارے تو نوحہ کناں ہیں کہ ڈرون حملوں سے معصوم شہری اور بچے ہلاک ہورہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر داخلہ وائٹ ہاؤس کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ ’’ان حملوں میں صرف عسکریت پسند ہی نشانہ بنتے ہیں‘‘!!
دہشتگردی کیخلاف اس نام نہاد جنگ میں ہم Scape goats(قربانی کے بکرے ہیں) جنکی حلقوم پر مسلسل خنجر رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ خود مغربی محققین اور تجزیہ نگار بار بار ثابت کررہے ہیں کہ ’’القائدہ اور طالبان‘‘ ایک نئی عالمی جنگ کا عنوان ہیں جن کا مقصد ہرگز بھی دنیا کو دہشتگردی سے نجات دلانا نہیں بلکہ اسکی آڑ میں اپنے عالمی منصوبوں کی تکمیل اور اہداف کا حصول ہے۔ اور خود کو اکیسویں صدی کی واحد سُپرپاور منوانا کہ دنیا بھر میں اسکے فوجی اڈے موجود ہوں، عالمی منڈیوں میں اس کی مصنوعات کا غلبہ ہو، تیل، گیس اور خام مال کی رسد پر اسکا کنٹرول ہو، نئی دنیا کا سیاسی نقشہ امریکی مفادات کے تابع ہو۔ جس میں اسرائیل کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو۔ چاہے اسکے لئے عراق اور افغانستان کی کمر توڑدینا پڑے یا ایران، پاکستان، مصر، شام ،لیبیا اور دوسرے اسلامی ممالک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا پڑے۔9/11کے ٹوئن ٹاورز تو عدن میں تباہ ہونے والا ’’جہاز‘‘ ثابت ہوئے۔ غلبہ کی ایک خواہش جو سینکڑوں برس پرانی ہے۔ غلبہ دوستوں پر بھی اور دشمنوں پر بھی۔!
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اہل کتاب کے سامنے چاہے جتنی بھی فراخ دلی اور دوستی کا مظاہرہ کیا جائے وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے اور انکے خلاف سازشیں کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور کفار وملحدین کا دست وبازو ہی بنے۔ اگر دہشتگردی کی اس جنگ میں امریکی پارٹنر بن کر ہم سمجھتے ہیں کہ انسانیت کو حقیقتاً دہشتگردی سے نجات دلادیں گے تو یہ اسلامی تاریخ کے حقائق سے چشم پوشی ہے۔ کیا ہم تاریخ کا یہ سبق فراموش کرچکے ہیں کہ وہ اہل کتاب ہی تو تھے جنہوں نے مدینہ کے مسلمانوں کیخلاف مشرکین عرب کو ابھارا تھا! مسلمانوں کیخلاف۲۰۰سو برس تک شدید صلیبی جنگ لڑنے والے کیا اہل کتاب نہ تھے‘‘۔اندلس سے مسلمانوں کا صفایا کرنے والے کون تھے۔؟؟ اور اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی جمعیت کو جن سے خطرہ لاحق ہے کیا وہ اہل کتاب سے بڑھکر بھی کوئی ہیں؟ قرآن نے یہ تعلیمات نہیں دیں کہ ہم اغیار کی جنگ میں انکے اتحادی بن جائیں بلکہ وہ مسلمانوں کو اس جنگ کے سلسلے میں جو وہ اپنے عقیدے اور دین کی بالادستی کیلئے لڑیں گے (تاکہ اسلام جدید اور عالمگیر نظام کی صورت میں ظہور پذیر ہو) معرفت بخشتا ہے۔ ہم قرآن سے صریحاً چشم پوشی کررہے ہیں کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’بعضھُم اولیاء لَبعض‘‘وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ سید قطب شہید اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’ یہ محض قرآن کا اندازِ بیان نہیں ہے بلکہ یہ پیرائیہ بیان اس لئے اختیار کیا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ یہ ان اہل کتاب کا ’’دائمی‘‘ اور ’’بنیادی‘‘ وصف ہے۔اسلام اس دوستی کے قلاوے کو اتار پھینکنے کا حکم دیتا ہے۔ ’’تم میں سے جو کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے‘‘(المائدہ۱۵)۔
اس وقت کی سب سے بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ ہم بھارت اور امریکہ کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔ جبکہ وقت نے انکو بارہا ہمارا دشمن ثابت کیا ہے، ہم تو دشمنی کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں یہ دشمنی بھی کھلے عام انکی طرف سے ہورہی ہے۔امریکیوں نے حکیم اللہ محسود کو کھانے میں زہر دیکر ہلاک نہیں کیا بلکہ سرعام ڈرون حملے میں ہلاک کرکے ہماری حمیت کو للکارا ، ہمارے حکمرانوں اور پارلیمنٹ کو للکارا کہ کیسا امن اور کیسے مذاکرات؟؟؟ غلام بھی اپنی مرضی سے جی سکتے ہیں بھلادنیا میں ۔۔۔ ہم اللہ اور رسولؐ سے وفاداری کے بجائے ان وفاداریوں کو نبھارہے ہیں جو ہمیں ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل رہی ہیں۔ ماہ نومبر کلام اقبال کی بازگشت ساتھ لاتاہے۔ اقبال فرماتے ہیں۔
فریاد افرنگ ودل آویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی وپرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خواب گراں خیز!
(افرنگ اور اس کی دل آویزی سے فریاد، افرنگ کی دل ربائی اور حیلہ گری سے فریاد، ساری دنیا افرنگ کی چنگیزی سے ویراں ہوچکی ہے۔
معمار حرم! جہان کی ازسرِ نو تعمیر کیلئے اٹھو۔۔اس خوابِ گراں ،خوابِ گراں، خواب گراں سے بیدار ہو!)
یہ خطرات اور چیلنج جب زندہ قوموں کو پیش آتے ہیں تو وہ انکی خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہی کلام اقبال کا خلاصہ بھی ہے اور فلسفہ شہادت امامِ حسین ؑ میں کارفرما روح بھی۔
عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشَد
(خدا کرے کہ دشمن ایسا شر برپا کردے کہ اس میں سے خیر برآمد ہوجائے)
اور نوشہ دیوار یہی ہے کہ وہ شر بپا ہوچکا ہے۔ !!!
jazak allah
very nice
go.amerca go” ka ab waqat agya hay….
pakistan ke pori qoum tayar hay