اپنے خوابوں کی تعبیر کے اس سفر پر میں نے کیسے کیسے مصایب جھیلے، کیسے کیسے معرکے لڑے اور اندھیری رات کاٹتے اپنے پیاروں کے لئے کوں کون سے دیے روشن کیے۔
میرا خواب، میرا سفر، میری قربانیاں اور میری کامیابیاں۔
کیا اپ ایک ایسی شخص کا قصہ سننا چاہیں گے جو مغربی آقاؤں سے اسپانسرڈ نہ ہو؟
دراصل حاکم اور محکوم کی اپنی ہی نفسیات اور ذہنیت ہوتی ہے۔
ہمارے جیسی بقا کی جنگ لڑتی قوم کی کچھ محکوم ذہنیتوں کی نفسیات یہ بن گئی ہے کہ جب کبھی اپنی پریشانیوں اور مشکلات سے گھبرا کر کوئی راہ نجات ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو انھیں بس وہی قومیں اپنی نجات دہندہ معلوم ہوتی ہیں جو اپنے تئیں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ وہ انہی کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انھیں یوں محسوس ہوتا کہ اگر انھیں کوئی بچا سکتا ہے، کوئی نظام، کوئی فکر، کوئی راستہ کوئی شخص تو وہ ان کے یہی آقا ہیں۔جو ان کے خیال میں انسانی ارتقا کی بلندیوں پر موجود کچھ “سپر ہیومن” ہیں۔جن کے پاس ہر مشکل کا حل ہے، اور وہ ہر گتھی سلجھا سکتے ہیں۔ ساری خوبیاں ان پر ختم ہیں اور ہر کمزوری سے وہ پاک ہیں۔ اگر کوئی شخص ، فکر یا رویہ اس تصور کی نفی کرے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار کمر بآندھ کر لڑنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف ان بزعم خود حاکموں کی ذہنیت جو ان کے بیانات، عالمی فیصلوں، زرائع ابلاغ دوسری قوموں کے ساتھ ان کے تعلقات یہاں تک کہ ان کی فلموں تک سے ظاہر ہوتی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس زمین کے محافظ اور نجات دہندہ ہیں۔ کوئی ارضی یا سماوی آفت ہو، کوی خلائی مخلوق حملہ کرے، کہیں کوئی ملک، کوئی گروہ کوئی فرد یہانتک کہ کوئی جانور بھی خطرے میں ہو، یہ خدائی فوجدار زبردست بیک گراونڈ میوزک اور داد و تحسین کی آوازوں کے ساتھ میدان میں کود پڑیں گے۔ اور بہت بہادری، عقلمندی اور جانفشانی سے مشکل کو حل کر لیں گے۔ ان کے خیال میں “ڈیفنڈر اف دی ارتھ ” کا یہ ٹائٹل ان کے شایان شان ہے جس کو ماننا چاہیے۔ہر ایک ملک اور قوم کے حالات، ثقافت، نفسیات اور مسائل سے وہ بخوبی واقف ہیں، لہٰذا کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کو چاہیے کہ ان کے موقف اور فیصلوں کو ہاتھوں ہاتھ لے اور دل و جان سے تسلیم بھی کرے۔
ظاہر ہے کہ حاکم و محکوم کی اس نفسیات کے نمو پانے کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن سے میں بخوبی واقف بھی ہوں اور ان کی معترف بھی۔
مگر ایک فریق کی تمام تر کامیابیوں اور دوسرے فریق کی تمام تر خامیوں کے باوجود میں اس ذہنیت کے حقیقت ہونے سے انکاری ہوں۔میں نہیں سمجھتی کہ ابھی وہ ارتقا کی ان بلندیوں پر پہنچ سکے ہیں کہ مرے خطے اور مرے لوگوں کو سمجھ سکیں ۔ اس لئے انھیں اپنے فیصلے ہم پر مسلط کرنے کی بجاے ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس بات کا کچھ اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہالی وڈ کی فلموں میں الف لیلوی کہانیوں کے کردار اکیسوں صدی کے امریکہ کے گلی کوچوں میں بسنے والوں کا سا لب و لہجہ اپناۓ نظر اتے ہیں۔ بغداد کے بازاروں میں پھرنے والے مسلمان سکھ سٹائل کی پگڑیاں باندھتے ہیں اور خواتین بیہودہ لباسوں کے ساتھ چہروں پر نقاب ڈالے گھومتی ہیں۔
جب منفی بیس سنٹی گریڈ میں منی سکرٹس اور شارٹس پہننے والے حیران کن لہجوں میں پوچھتے ہیں کہ عرب اور پاکستان کی گرمی میں عورتیں “برقعوں اور چادروں ” کا “جہنم” کیسے برداشت کرتی ہیں۔
چشم زدن میں مہلک ہتھیاروں سے بے شمار انسانوں کو ہلاک کر دینے والے دنیا کو بتاتے ہیں کہ سلامتی کا پیغام دینے والے مذہب کی الہامی کتاب دہشت گردی کی تعلیم دیتی ہے۔
کرہ ارضی کے بالکل مخالف سمت بسنے والی انسانوں کی ایک عظیم اکثریت کے حالات، مذاہب، ثقافت اور نفسیات کو سمجھے بغیر وہ اپنے وضع کردہ اصول اور فیصلے ان پر مسلط کرنے کے لئے زیادہ مصروف نظر اتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کا ہاتھ تھام کر اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دینے کے لئے ہر گھڑی تیار اور مستعد رہتے ہیں جو ان کے اس جذبے کی تسکین کا باعث بن سکے، اور ان کا نجات دہندہ ہونے کا یہ امیج اور زیادہ واضح کر سکے۔
مگر میں کسی کے جذبہ احساس برتری یا کمتری کی تسکین کا سبب بننے کو تیار نہیں۔
میں مانتی ہوں کہ میں ایک ایسی قوم کی فرد ہوں جہاں خواب دیکھنے والوں کو تعبیریں پانے کے لئے ہر روز مرنا اور پھر جینا پڑتا ہے۔
زیست ہمارے لئے ایک چیلنج ہے، اور اس کے لوازمات سامان تعیش۔
اپنا اور اپنے پیاروں کا پیٹ بھرنا ہو، بد امنی اور قتل و غارت گری کی فضا میں زندگی کی چند سانسیں بچا لینا ہو، کرپشن اور نا انصافی کے جنگل میں اصولوں کے راستوں پر چلنا ہو، علم کی شمع جلانی ہو یا فرسودہ خیالات و روایات کے خلاف جنگ لڑنا ہو۔ میں کن آزمائشوں سے گزرتی ہوں، یہ ایک تحیر انگیز داستان ہے۔
میں ہر روز ڈرون حملوں میں ماری جاتی ہوں، میں زلزلے سے تباہ شدہ شہر میں بچنے والوں کے لئے خیمہ سکول اور خیمہ اسپتال قائم کرتی ہوں۔
میں بھڑکتے شعلوں میں گھری سکول وین سے بچوں کو بچا لینے کی کوشش میں اپنی جان قربان کر دیتی ہوں، میں نے شیزوفرینیا سے لڑ کر ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی ہے، میں نے دنیا کی کم عمر آئی ٹی ماہر کا اعزاز حاصل کر کے زندگی کی جنگ ہار دی۔
میں نے پورے ملک میں بے سہاروں کے لئے فلاحی اداروں کا جال قائم کر دیا ہے،میں نوے برس کی عمر میں صحراؤں اور سیلاب زدہ علاقوں میں گھوم گھوم کر کنویں کھدواتااور بھوکوں کو کھانے کھلواتا پھرتا ہوں،
میں نے حکومتی امداد کے بغیر اپنے لوگوں کے تعاون سے مثالی مراکز صحت قائم کیے ہیں۔
میں نے اپنے تقدس اور تحفظ کی علامتوں کے ساتھ تعلیم اور خدمت کے لئے بے شمار معرکے لڑے ہیں۔
مگر میں زمیں کے نجات دہندوں اور خیر اندیشوں سے سپانسرڈ نہیں ہوں۔ کیوں کہ میں ایسا نہیں چاہتی۔
میں اپنے خوابوں کی تعبیر کو پانے کے لئے ان کا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں جو میرے ہر خواب کوپورا کرنے کی قیمت یہ لگاتے ہیں کہ، میں اپنے دین، وطن اور اپنی قوم کی تضحیک کر کے، ان کے جذبہ خودپسندی کی تسکین کا سبب بن جاؤں۔ مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔
اس لئے کہ میں اپنی قوم سے خفا نہیں ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ ان کے بہت سے مصایب ان حاکم و محکوم ذہنیتوں کے حاملین کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ میں اپنی قوم سے خفا کیسے ہو سکتی ہوں؟ وہ تو خود ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے۔
میرے خواب اور میرا مفاد میرے لوگوں کے فائدے سے ہٹ کر نہیں ہے۔ میری خوشیاں میرے پیاروں کے سکھوں سے وابستہ ہیں۔ اسی لئے مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔
میں گلے سڑے، دکھ دیتے نظام سے باغی ضرور ہوں، لیکن اس نظام کے جبر تلے دبے لوگوں سے باغی نہیں ہوں۔
مجھے ایسی کوئی بغاوت نہیں کرنی، جس سے مرے پیاروں کا سر شرم سے جھک جائے۔
کوئی مجھے جاننا چاہتا ہو، سمجھنا چاہتا ہو تو آئے، میرے دروازے کھلے ہیں۔
میں اپنے خدا کے بتاے ہوے طریقوں پر مطمئن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ سکھ انہی سے کشید کیے جا سکتے ہیں۔
کیا اپ مجھے سننا چاہیں گے؟
فیس بک تبصرے