( 8؍ اکتوبر 2005ء کو وطن عزیز میں زلزلے سے بہت بڑی تباہی ہوئی تھی۔ اس وقت سوسائٹی فار ایجوکیشنل ویلفئر ( SEW) نے بھی تعلیم کی بحالی میں اپنا کر دار بھر پور طریقے سے ادا کیا ۔ اس بلاگ میں اکیڈ مک کو آ رڈینیٹر کی حیثیت سے دورہ کشمیر کی رودادہے۔ آٹھ سال پرانی تحریر کو جوں کا توں قلم کارواں کے قارئین کو پیش کی جا رہی ہے تاکہ اس وقت کے جذبات اور احساسات سامنے رہیں )
بہادر اور عقلمند اقوام اپنے غموں کو بھی خو شیوں کی طرح یاد رکھتی ہیں کہ تاریخ ایسا آ ئینہ ہے جس کی روشنی میں مستقبل کے خد و خال سنوارے جاسکتے ہیں اور پیش بندی کی جاسکتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم ایسا نہ کر سکے! آج بھی زلزلے کی زد میں ہیں مگر لاپر واہی اور غفلت میں کوئی کمی نظر نہیں آ تی ۔ایک قلم کار صرف الفاظ سے ہی کام لے سکتا ہے سو اپنے حصہ کا کام پیش خد مت ہے۔
—–
2005ء سال کی آخری سہہ ماہی شروع ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ملک کے شمالی علاقے میں آ نے والے زلزلے نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ اان مشکل سا عتوں میں جس کے ہاتھ جو تھا اس نے پیش کر دیا خواہ وہ مال ہو یاکوئی بھی خد مت!ڈاکٹرز کی تو فوری ضرورت تھی ہی مگرموٹر سا ئیکل پر کر تب دکھانے والے بھی اتنے اہم ٹھہرے ۔ جی ہاں ! ان کی مہارت کا امتحان تھا کہ وہ کس طرح ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل لہرا کر زخمیوں کو نکالے!اس موقع پر تر جیحات کی فہرست میں تعلیم کا کوئی ذکر نہ تھا مگر ہفتہ بھی نہ گزرا تھا زندہ افراد کے لئے علاج کے ساتھ تعلیم کی ضرورت بھی ابھر کر سامنے آ گئی اور تعلیمی شعبے سے دابستہ افراد بھی متحرک ہو گئے جن میں ہما را ادارہ سر فہرست رہا۔الحمدللہ! درست سمت میں رہنمائی بھی من جانب اللہ ہوتی ہے!اسکول کا نام تجویز ہوا ’’ امید نو‘‘!
رمضان کے آ خری عشرے میں جب عموما بچے اسکول سے فارغ ہو کر عید کی تیا ریوں میں مصروف ہو جا تے ہیں ،زلزلہ سے متاثرہ بچے خیموں میں ایک نئی امید کے ساتھ اسکول کا ٓ غاز کر رہے تھے۔ اس موقع پر یہ دلچسپ تبصرہ بھی سننے میں آ یا ’’ بچے تو اسکول سے بچنے کے لئے زلزلے کی دعا مانگتے ہیں اب جبکہ زلزلہ حقیقت میں آ گیا ہے تو بھی ان کو اسکول سے راہ فرار نہیں ملی۔۔۔‘‘ یہ بات آ دھی سچ تھی کہ زلزلے سے پہلے ہو سکتا ہے کہ بچے یہ دعا مانگتے رہے ہوں مگر اب تو ان کی آ نکھیں اسکول کو ہی ڈھونڈ رہی ہیں جو ان کے سا تھیوں اور اساتذہ کا مد فن بن کر رہ گیا تھا ۔ ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری‘‘ سن کر بے چین والدین اور بچے اپنے اپنے خیموں سے نکل آ ئے! ان کے دل بچھڑ جا نے والوں کے غم میں نڈ ھا ل تھے مگر زندہ بچ جا نے والوں کے لئے زندگی کی نوید سن رہے تھے۔
ان ہنگا می بنیا دوں پر کھلنے والے اسکولوں کے علا وہ متا ثرہ علا قوں کے لئے ایک نئی تعلیمی پا لیسی وضع کی گئی جس کی کا غذی کا روائی تو رمضان میں ہی مکمل کر لی گئی تھی لیکن اس پرباقاعدہ عمل در آ مد عید کے فورا بعد ہی شروع ہو گیا۔اس کے تحت ایک گروپ جو جنرل سیکریڑی، صوبائی نگران (سر حد) ،مرکزی ممبران برائے اکیڈمک اور مینجمنٹ کمیٹی پر مشتمل تھا ۔اسلام آ باد ، مظفر آ با د،باغ اور راولا کوٹ کی طرف گیا جبکہ دوسرا گروپ جو مرکزی کوآر دی نیٹر اور صو با ئی نگران ( پنجاب)پر مشتمل تھا بالا کوٹ ،مانسہرہ کی طرف روانہ ہوا۔
جانے کاسن کر جہاں ہمارے حوصلے بلند ہورہے تھے وہیں میڈیا کے ذ ریعے کمزور صحت اور اعصاب رکھنے والوں کو نہ آ نے کامشورہ سن کر پست بھی ہو رہے تھے کیونکہ اپنے بارے میں ہمیں کوئی خاص خوش فہمی نہیں ہے مگر پھر یہ سوچ کر کہ ہم کسی کے سر ہا نے بیٹھ کر اس کے آ نسو تو پونچھ ہی سکتے ہیں اپنے جوش کو بر قرار رکھا یہاں تک کہ روانگی کا دن آ پہنچا۔
کراچی ایر پورٹ سے صبح ۱۱ بجے کی فلائٹ اسلام آ باد کے لئے تھی جہاں سے اسی روز مظفر آباد جا نا تھامگر خیمہ اسکولوں کے لئے لے جانے والے سا مان پر PIA نے سترہ ہزار کی رقم اضا فی سامان کی مد میں طلب کر لئے۔اسی حیص بیص میں فلائٹ مس ہوگئی۔ تقریبا 6 گھنٹے ایر پورٹ پر گزارنے کے بعد شام 4 بجے ایر بلو کی پرواز سے روانہ ہوئے۔مگر اس سے پہلے وہاں اپنے قیا م کا انتظام کر واناپڑاکیونکہ مظفر آباد کے لئے رات کا سفر نا ممکن تھا ۔ دل میں وسوسے اٹھنے لگے کہ سفر کی ابتداء ہی خراب ہو گئی ہے اللہ رحم کرے ! مگر ہر بات میں اسکی مصلحت ہو تی ہے ۔نہ صرف یہ کہ جہاز والوں نے ہماری کو ششوں کا خیر مقدم کر تے ہوئے اضافی سامان بغیر کسی کرائے کے جا نے دیا بلکہ سعودی عرب سے ملتان جا نے والی خاتون نے اپنی چو ڑیوں کے لئے رکھی گئی رقم ہمارے ہاتھوں پر رکھ دیے۔لوگوں کے چہرے پر خیر سگالی کے جذ بات صاف پڑ ھے جا رہے تھے۔ اسلام آ با دپہنچے تو رات پھیل چکی تھی۔ ائر پورٹ پر ڈھیروں امدادی سامان کھلے آسمان تلے پڑے دیکھ کر دل میں خیال آ یا کہ ذرا سی با رش اس کو ناقابل استعمال بنا سکتی ہے۔ رات کو اپنی عزیز ترین دوست کے گھر قیام کیا ۔اسلام آبا د کے ہر گھر کی طرح اس کے مکین بھی امدادی کا موں میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری پذیرائی محض ذاتی رشتوں کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس میں وہ جذ بے بھی شامل تھے جس نے اس وقت پوری قوم کو ایک کیا ہوا تھا۔ہیٹر کے آ گے بیٹھے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ فلائٹ مس ہونے سے جہاں ہمیں مہما نی کاشرف حاصل ہو رہاہے وہیں موسم سے آ ہستہ آ ہستہ مطابقت ہو رہی ہے ورنہ!!!!
صبح اٹھ کر سامان کا جائزہ لیا تو اس میں اضافہ ہو چکا تھا کیو نکہ یہا ں سے بھی کچھ خریداری ہوئی تھی۔ وہ سب لوگ یاد آرہے تھے جنہوں نے اس سامان کی شاپنگ سے لے کر پیکنگ تک کا پر مشقت کا م کیا تھا ۔وہ سب اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے جسما نی طور پر نہ سہی مگر قلبی اور روحانی طورپر ضرور تھے۔پشاور سے ہماری ساتھی اپنے دو بچوں کے ہمراہ آ پہنچیں ۔گویا صرف سامان میں ہی نہیں بلکہ افراد میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔اس بوجھل قافلے کے ساتھ ہم صبح نو بجے مظفر آ با د روانہ ہوئے۔ راستے میں جگہ جگہ ڈونرز کانفرنس کے لئے خیر مقدمی بینرز آ ویزاں تھے ( زلزلہ کو ایک ماہ گزر چکا تھا)۔
ضلع مظفر آبا د:دن کے تقریبا ایک بجے مظفر آباد پہنچے۔گرد میں اٹاہوا حسین مظفر آبا د!!گرد وغبار جس کا حسن ماند نہ کر سکا بلکہ سوگواری کی وجہ سے اس میں اور اضافہ ہوگیاہے۔ اور یہ اداسی اس وقت اوربڑ ھی ہوئی محسوس ہوئی جب دریا کنارے لگائے گئے بیلہ نور شاہ میں الخد مت اور پیما کے کیمپ میں شام اترنے سے سردی بڑھنے کا سوچا۔ کیمپ تک کے راستے میں تباہ حال ادارے نظر آ ئے ۔جیل ریت کا ڈھیر بن گئی تھی۔قیدی جیل سے فرار ہوئے یا پھر قید حیات سے ہی رہائی پا گئے؟ سر کاری دفتروں میں شیلف ٹھنسی فائیلیں اسی طرح نظر آ رہی تھیں ۔کتنی سینت سینت کر رکھی جاتی ہیں !اب نہ ان کو کوئی روکنے والا تھا اورنہ بڑ ھا نے والا ! یا اولی الاابصار ! سب سے زیادہ عبرت فوجی اداروں کو دیکھ کر ہو رہی تھی۔
گوشہ عافیت کے مختصر سے کیمپ میں کھا نا کھا نے کے بعد پیما کے فیلڈ کیمپ میں کچھ وقت گزارا ۔ ایک خاص بو ہو نے کے باعث عام ہسپتال کا گمان ہو تاتھا مگر پھر بھی مریضوں اور تیمارداروں کے بلند حو صلے ،ہمت اور ڈاکٹرز، امدادی کا رکنان کے کی محنت کے لحاظ سے یہ ہر گز ایک عام ہسپتال نہیں تھا۔ کچھ قابل رشک کار کن روز اول سے یہیں تھے۔ ہمارے قیام کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا۔رات اتر نے سے پہلے ہم اپنی اس قیام گاہ بانڈی سمّاں ( جو تقریبا 15منٹ کی ڈرائیو اور لا تعداد موڑوں کے بعد آ ئی)پہنچے ۔ پہا ڑ کو اپنے سے اتنے قریب دیکھ کر ہیبت کا احساس ہو رہا تھا ۔اس قدر مضبوط پہاڑ کس طرح ریزہ ریزہ ہو گئے!حق الیقین عین الیقین میں بدل رہا تھا ۔ یہاں سے پورے مظفر آ بادکا نظارہ ہو رہا تھا۔رات کی تاریکی میں روشنیاں جگنوئوں کی طرح چمک رہی تھیں ۔
’’جب پندرہ دن تک لائٹ نہیں تھی تو کتنا اندھیرا ہو گا ۔۔؟؟‘‘ اس سوچ نے سوال کی صورت اختیار کر لی ۔جواب میں ہماری میزبان کے چہرے پر خوف اور غم کے تا ثرات کسی الفا ظ کے محتاج نہ تھے ۔یہ بات نہیں کہ زبان و بیان کی کمی تھی بلکہ یہ ایک علمی گھرانہ ہے ۔ صاحب خانہ کالج سے منسلک ہیں جبکہ بیگم ایک اسکول کی پرنسپل ہیں جو زلزلے میں بری طرح تبا ہ ہو گیا ہے۔تباہ تو خیر گھر بھی ان کا بری طرح ہو چکا ہے سوائے مہمان خانے کے جو ہمارے حوالے کر کے خود گھر کے پچھواڑے میں لگے خیمے میں رہ رہے ہیں ۔اس کی وجہ شاید ان لوگوں کا چھتوں اور دیواروں سے خوف زدہ ہوناہے مگر نہیں یقینا اس کی بنیادی وجہ ان کی مہمان نوازی ہے (جس کی جھلک پورے کشمیر میں نظر آ تی ہے جہاں سے گزرے چائے کی آفر ہوئی باوجود بے سرو سامانی کے!) پرتکلف کھانے ( ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے ہمارے سامان میں ٹن پیک کھانے رکھوائے تھے!) ، گر ما گرم بستراور دلچسپ موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے نیند کی وادیوں میں کھو گئے ۔
اگلے دن صبح کے نور میں نہائے ہوئے مظفر آ باد کو دیکھ کر احساس ہوا کہ اس کو جنت نظیر کیوں کہا جا تا ہے ؟ نا شتے پر ہی تھے کہ گا ڑی آپہنچی۔فورا ہم سب خیموں میں کھلے اسکول (ایگرو ٹیک)گئے۔اگرچہ اتوار کی وجہ سے چھٹی تھی مگر چونکہ سب خیموں میں ہی مقیم ہیں لہذا ٹیچرز اور بچوں سے ملاقات ہو گئی۔اس کے بعد ماکڑی گئے جہاں اسکول کھولنے کی پر زور درخواست تھی۔پھر عید گاہ روڈ پر واقع اسکول پہنچے۔یہ دونوں اسکول عید سے ایک ہفتہ قبل ہی کھولے گئے تھے۔
ایک معصو م بچی نے کہا ’’ میرے ابّوفوت ہو گئے ۔۔۔‘‘ دوسری بولی ’’میری امی اللہ کے پاس چلی گئیں۔ ۔۔‘‘ یہ داستا ن تو ہر بچے کے
چہرے پر تھی۔اتنے چھوٹے بچے تو موت کا مفہوم بھی نہیں جا نتے۔وہ تو بس ’’ میں بھی۔۔۔۔ میرا بھی۔۔۔‘‘ طرز پر اپنی بات کہہ رہے تھے۔ان کو تو احسا س ہی نہیں کہ یہ زلزلہ ان کی زندگیوں میں کتنی محرو میاں گھول گیا ہے ۔شا ید وقت ان کو یہ سب کچھ بتادے گا!!!
یہاں سے لوئر پلیٹ گئے۔راستے میں گھروں کی تباہی قریب سے دیکھ کرآفت کا صحیح اندازہ ہو رہاتھا ۔گھروں کی چھتیں قدموںمیں تھیں جنہیں کاٹ کر لوگوں کو نکا لا گیا تھا۔ایک گھر کی سیڑھیوں پر دوپٹہ اٹکا ہوا تھاگویا خاتون خانہ نے جان بچا نے کے لئے بھاگ دوڑ کی ہو گی ! پتہ نہیں زندگی ہا ری یا موت؟۔۔۔ یہا ں ایک گھر میں چائے اور بسکٹ سے مستفید ہوکر نماز ظہر ادا کی ۔اس کے بعد چہلا بانڈی گئے جہاں خیمے خبیب فائونڈیشن کی طرف سے لگائے گئے ہیں جو ترکی نے اسپانسر کیے ہیں ۔یہ بہت منظم ، صاف ستھرے اور وسعت لئے ہوئے تھے۔
اس کے بعد ہمارا رخ کامسر نثار کیمپ تھا جہان شہداء کے ورثاء مقیم ہیں ۔یہاں ایک الگ دنیا تھی ۔صبرو شکر کے پیکر !اپنے پیاروں کو قربان کرکے اللہ کی رضا کے منتظر !پھر آزاد کشمیر یونیورسٹی کے قریب لگے کیمپوں میں گئے جہاں Read Foundation کی طرف سے اسکول کھلا ہے۔یہاں 350بچے زیر تعلیم ہیں ۔انچارج کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لہذا مزید اداروں کی ضرورت ہے۔ اس دوران شام ہوچکی تھی۔کھانا کھانے کی نہ مہلت ملی نہ ضرورت پڑی!دریا کے کنارے سے گزرتے ہوئے گاڑی سے اتر کر تھوڑی دور پیدل چلے ۔ تباہی کی داستان دریا کی آ نکھوں سے بھی برس رہی تھی۔ اس موقع پر احساس ہوا کہ گاڑی پر کوئی بینر نہ ہونے کی وجہ سے ہماری شنا خت لوگوں کی نگا ہوں میں الجھن بن کر تیرتی ہے لہذا بینر لگا نا ضروری سمجھا اس کے فوری اثرات نظر بھی آ ئے۔
قیام گا ہ پر واپس پہنچ کر عصر ،مغرب ادا کیں ۔پھر چائے وغیرہ پی کر کھانے کی تیا ری میں حصہ لیا ۔ اس دوران بحرین سے آ نے والی لیڈی ڈاکٹربھی ہمارے ساتھ موجود تھیں ۔ ہم سب نے اپنے تا ثرات شئیر کر نے کے ساتھ ساتھ آ ئبدہ دن کی پلا ننگ بھی کی۔ ہمارے سا تھ جانے والے بچوں کے علا وہ وہاں موجود گھر کے بچوں کی وجہ سے خو ب رونق رہی۔
صبح اٹھ کر پر تکلف ناشتہ کیا ۔اس کے بعد پڑوس کے گھر کی چھت پر واقع اسکول کو دیکھا ۔اسمبلی کا یہ منظر انتہائی دلنشین تھا ۔بچے انتہائی منظم، باحوصلہ اور پر اعتماد نظر آئے۔اس کے بعد میرا تنو لیہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں اسکول قائم کر نے کی درخواست کی گئی تھی۔تقریبًا سوا گھنٹے بعد وہاں پہنچے مگر وہاں منہاج القرآن اور المصطفیٰ نے کیمپ لگا کر تعلیم کاسلسلہ شروع کر دیا تھالہذا وہاں سے واپس آ کر دختران اسلام اکیڈ می پہنچے ۔ہم میں سے ایک گروپ اکیڈمی کے انچارج کو گیا جبکہ دوسرے گروپ نے اساتذہ اور طالبات سے ملا قاتیں کیں ۔ یہاں تدریس شروع ہوئے آ ج پہلا دن تھا ۔بچیاں خوف کے باعث کمروں کے اندر پڑھنے پر راضی نہ تھیں لہذا tentمیں پڑ ھائی ہو رہی تھی۔ پڑ ھائی کیا ہونی تھی؟ آ ج تو سب اپنی اپنی کہنے سننے میں تھے ۔ ہر ایک کے پا س ایک سی بات تھی مگرجدا جدا بھی تھی! بچھڑ جانے والوں کا غم اور زندہ بچ جانے والوں کی خوشی!
پھر ایک بجے کے قریب گوشہ عافیت پہنچ کر نماز پڑ ھی اور امید نو اسکول جا کر ٹیچرز سے ملا قاتیں کیں ۔یہاں تر بیت اساتذہ کے حوالے سے ایک تر بیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا مگر روشنی کامناسب اہتمام نہ تھا لہذا ہم پیما کے کیمپ میں چلے گئے۔ وہاں بہت بڑا ایک نیا وارڈ بن کر تیار ہوا تھا انہوں نے بخوشی وہ ہمارے حوالے کر دیا۔شاید اتنی اچھی ورکشاپ عام حالات میں بھی نہ ہو سکتی ہوجتنی آج ہوئی!شر کاء کی تعدد 25تھی۔ اس کے دوران ہی ہماری پشاور کی ساتھی اپنے ذاتی مصروفیت کے باعث گھر روانہ ہو گئیں ۔وہاںہماری موجو د گی کے دوران ہی وارڈ میں بستر لگنا شروع ہو گئے تھے۔رات گئے تک ہمیں وہاں رکناپڑاکیونکہ ایگرو ٹیک کی خیمہ بستی میں ہو نے والی ایک شادی میں شر کت کر نی تھی ۔کوئی گا ڑی دستیاب نہ ہو نے کے با عث ایمبو لنس کے ذ ریعے شا دی میں گئے۔اس دلچسپ صورت حال پر اس عالم میں بھی ہنسی آ رہی تھی۔
شا دی والے کیمپ میں کا فی گاڑیاں کھڑی تھیں ۔شا ید آ فیشیل بھی شر کت کر رہے تھے ۔کیمپ کو جھنڈیوں سے سجایا ہوا تھا۔ جب تک ہم پہنچے کھا نا و غیرہ ہو چکاتھا۔ ہمار ی تواضع کے لئے کولڈ ڈرنک پیش کی گئی۔ شا دی کا فنکشن کیا تھا ایک چھوٹے سے ٹینٹ میں دس با رہ خواتین اور کچھ بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ فضا میں اداسی رچی بسی تھی۔دلہن خوفزدہ سی سہمی بیٹھی تھی۔ اس کے پاس ہی دلہا کی بہن چپ چا پ بیٹھی تھی۔ پتہ چلا کہ اس کا چھہ سالہ بیٹا اسکول کی عمارت میں ختم ہو گیا ہے۔شا ید ماں کو اس کے کپڑے یا د آ رہے ہوں گے جو اس نے ماموں کی شا دی کے لئے بنوائے ہوں گے! اس موقع پر ہم نے بھی تحائف پیش کئے ۔ شعبہ الخدمت اور گو شہ عا فیت کی طرف سے بھی سلامی دی گئی۔ میڈیا کوریج بھی ہوئی آ خر شادی کی خبر تھی۔
واپس آ کر کھا نا وغیرہ گرم کر کے کھا یا اور نماز پڑھ کر سو گئے۔ کل کے مقابلے میں آ ج سنّا ٹا محسوس ہورہا تھا کیو نکہ ہماری ساتھی کے علا وہ ڈاکٹر بھی مانسہرہ روانہ ہو گئیں تھیں۔ صبح نا شتے کے بعدایک گروپ کو ہڑی کی طرف روانہ ہو ا جہاں قائم اسکول کی حو صلہ افزائی کی در خواست کی گئی تھی۔ دوسرے گروپ نے امید نو اسکول ( بیلہ نور شاہ) کی راہ لی ۔یہاں تقریباً 300 بچے تعلیم کی روشنی حاصل کر رہے ہیں ۔ٹیچرز کی تعداد چھ اور ایک انچارج ہے۔ مزیدبچے داخلے کے خواہش مند ہیں مگر جگہ کم ہونے کے با عث ممکن نہیں ! جب بچوں میں جر سیاں تقسیم کیں تو ان کی تعداد میں ایک دم اضا فہ ہوگیا۔ اپنے وسائل محدود ہونے پر سخت افسوس ہو رہا تھا! اس کے بعد ایگرو ٹیک اور عیدگاہ اسکول میں بھی تد ریس دیکھی۔ پھر پیما کے دفتر میں ہر اسکول کے لئے کتابوں اور اسٹیشنری کے علیحدہ علیحدہ بنڈل بنائے۔ یہ ایک پر مشقت کام تھا۔اس موقع پر وہاں پر موجود ر ضا کار بھی ہماری مدد کو آ تے رہے۔ اس کے علاوہ ہمیں جب اور جس چیز کی طلب ہوئی انہوں نے فوراً مہیاّ کر دی۔ ایثار کا مظا ہرہ تو وہیں سمجھ میں آ تا ہے جہاں اپنی ضرورت کے مقابلے میں دوسرے کو تر جیح دیں! پھر اس وقت تو سب کا محور ایک ہی تھا۔
میڈیکل میں پڑھنے والا ایک رضا کار اس عالم میں بھی اپنی ظرا فت سے ماحول کو زعفران بنائے ہوئے تھا ۔ کہنے لگا ’’باجی ! زلزلے نے تو ہماری ساری تھیوری بدل دی ہے۔ نازک چیزیں جیسے ٹی وی، کانچ کے بر تن تو محفوظ رہیں اور پتھر کی سخت دیوا ریں بھر بھری ہو کر ہا تھ میں آگئیں۔۔۔‘‘ سوچ کر ہی جھر جھری آ تی ہے!اس کام سے فارغ ہو کر تمام سا مان ذمہ داران کے حوالے کر کے واپس اپنی منزل پر آ گئے۔
اگلی صبح مظفرآباد میں ہماری آ خری صبح تھی لہذا ان منا ظر کو نہ صرف کیمرے میں بلکہ اپنی آ نکھوں میں اچھی طرح سمولیا ۔ اپنے میز بان سے اجازت لی تو وہ لوگ بھی اداس تھے خصو صاً وہ بچی ماریہ جو کسی مہر بان پری کی طرح ہماری خد مت کر رہی تھی ۔اس موقع پر ہم نے اس کو تحفے خریدنے کے لئے کچھ پیسے دینے چا ہے تو خو بصو رتی سے لو ٹا دیے گئے کہ ہم اس طرح بچوں کو نہیں بنا نا چاہتے کہ یہ لالچ میں خد مت کریں! ہمارے کہنے کے با وجود کہ مہمان کا میزبان کے لئے تحفہ لانا ہمارا رواج ہے وہ نہ مانے۔( یہ خود داری تو کشمیری عوام کا خا صہ ہے اور یہ زلزلہ اس طرح بھی ان کی آ زمائش ہے! ) ۔۔۔ آ ج کا دن ان کے لئے ایک جذ باتی دن ویسے بھی تھا کہ وہ اپنے اسکول کا آ غاز پھر سے کر رہے تھے۔ہم سب دعائوں میں رخصت ہوئے۔ ضروری کام نبٹا کر سامان انچارج کے حوالے کر کے ایک بجے ہم ضلع باغ کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔
( بقیہ روداد اگلے بلاگ میں ملا حظہ کیجئے)
اپنے خاکستر میں چھپی ایسی چنگاریاں یہ پیغام دیتی ہیں کہ ابھی امید باقی ہے. ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی.
آٹھ اکتوبر 2005 کو پاکستان میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کو آج آٹھ برس بیت گئے۔
اللہ پاک بچھڑنے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو لوگ اس ناگہانی آفت سے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئے ان کو ایمان کی سلامتی کے ساتھ زندگی کی آزمائشوں میں ثابت قدم رکھے آمین یا رب العالمین ۔