ضلع باغ :شام کو تقریباً ساڑھے چار بجے ضلع با غ پہنچے جو شاید اپنے رنگ برنگے خو بصورت گھروں کی وجہ سے باغ کہلاتا ہے مگر اب یہ سارے گھر اپنی اپنی چھتوں گرے پڑے تھے ۔ ایک عجیب سی وحشت نظر آ رہی تھی ۔وہاں پہنچ کرپیما کے کیمپ سے رابطہ کیا مگر ہمارے لئے کوئی منتظر نہ تھالہذا رات نو بجے تک مر کز میں رکے رہے۔ اس دوران وہاں کے منتظمین نے ہمارے لئے چائے ؍ کھانے کا بندو بست کیا جو اپنے مزے میں بہترین تھا خاص طور پر جب آپ بھو کے ہوں ۔ اب تو دل چا ہ رہا تھا کہ بستر مل جا ئے تو سستا لیں ! در اصل ہم چونکہ ایک دن پہلے یہاں پہنچنے والے تھے اس لئے کل انتظا ما ت کیے گئے تھے اور آ ج اچا نک ہونے کی وجہ سے شاید دیر ہو رہی تھی ۔یہ تو بعد میںپتہ چلا کہ ہمارے میز با ن کا فی دیر سے ہمیں لینے کے منتظر بیٹھے تھے مگر مر کز والوں نے ہمیں کھا نا کھلانے کے لئے روکاہوا تھا۔اس پر معذرت خواہ تھے ۔ ان حالات میں اس قد ر مہمان نوازی اور اوپر سے عاجزانہ رویّہ کہ آپ اتنی دور سے ہماری دلجوئی کے لئےآئی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کا خیال رکھیں!!!
خیر دس بجے تک ہم اپنی قیامگاہ تک پہنچے۔ اس قدر بوسیدگی اور پر خطرراستہ تھا کہ دل ڈر رہا تھا۔ شکستہ اور اندھیرے سے گزرتے ہو ئے خیال آ یا کہ یہاں رہنے والا کس طرح زندہ رہا ہو گا ؟ کاری ڈور سے گزر کر ایک بڑے سے کمرے میں داخل ہو ئے تو پہلی نظر ایک پش چئیرپر پڑی! اسکا مطلب ہے کہ یہاں کوئی معصوم روح بھی ہے ! دل میں خیال آ یا۔ آ گے بڑ ھے تو روشن چہرے والی معصوم خاتون خانہ نے استقبا ل کیا۔ ساتھ ہی ان کی رشتے کی نند بھی تھیں ۔نہایت خوش مزاج اور بذ لہ سنج! وہ دونوں کھانا سجائے ہماری منتظر تھیں ۔ ہنستے ہوئے بولیں ’’آپ لوگ تو واقعی بہت ہمت والے ہیں ۔ایک اور وفد آ یا تھا ان کابھی انتظا ر کیا مگر وہ تو راستے سے ہی واپس چلے گئے۔۔۔‘‘
اپنی بہادری کا تو ہمیں بھی احساس ہو رہا تھالیکن اگر ہم بھی لوٹ جاتے تو اتنے اچھے لوگوں سے ملا قات سے محروم رہ جاتے! نمازیں پڑھ کر گرم گرم بستر میں دبک گئے۔ باتوں میں معلوم ہوا کہ ان کی معذور نند اس حادثے میں زخمی ہوگئی ہیں تو علاج کے لئے لاہور گئی ہوئی ہیں والدین کے ہمراہ۔ مزید یہ کہ ان کی بہن کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی اس کا شوہر بھی لا پتہ ہے ۔جہاں جہاں زخمی ہیں چیک کر چکے ہیں مگر ابھی تک پتہ نہیں چلا۔یا اللہ ان پہاڑوںپر رہنے والوں کا حو صلہ بھی پہاڑوں جیسا ہی ہے! رات گئے تک ننھی مشائم بھی جاگ رہی تھی اور اپنی چمکدار آ نکھوں سے ہنس ہنس کر گزری داستان سنا رہی تھی۔
صبح اٹھ کر بھی ہم اندھیرے میں تھے کہ کیا کر نا ہے اور کہاں جا نا ہے؟ فون پر مسلسل رابطے میں تھے۔پھر بالآ خر مقامی ذمہ دار خاتون آپہنچیں۔ انہیں اچانک کہیں جانا پڑ گیا تھا۔رات کو دیر ہو گئی تھی ۔اسلئے صبح آ ئی ہیں ۔ خیر پر تکلف ناشتے پر مزیدار گفتگو کے بعد ہم ان کے ساتھ نندرائی گئے۔ وہاں کی صورت حال کے مطا بق بچے اپنے اپنے اسکولوں میں واپس چلے گئے ہیںچنانچہ ہنگا می اسکولز محض دو دن ہی چلے۔ ہم نعمان پورہ روانہ ہوئے ۔ وہاں کچھ پڑ ھی لکھی لڑ کیوں سے ملا قات ہوئی جن کے مطا بق یہاں اسکول قائم ہو سکتا ہے کیونکہ قریب میں کوئی اسکول نہیں ہے اور اونچائی سے آ نے والے بچے ہیں ۔
ان ہی کے گھر میں ظہر کی نماز پڑ ھی اور دوپہر کا کھا نا کھایا۔ شلجم کی بھجیا اور روٹی اس قدر تازہ اور مر غوب غذااور عین بھوک کے وقت! نہ جانے گھر والوں کے لئے ہے بھی کہ نہیں ؟ یہ سوچ کر حلق میں نوالے اٹکنے لگے۔ ہمارے اصرار کے باوجود وہ شریک نہ ہوئے۔ اللہ انہیں اس مہمان نوازی کا اجر دے آ مین ۔ یہاں مجوّزہ ٹیچرز کی بریفنگ کی اور درسی سامان دیا۔ یہ جگہ ذرا ڈ ھلان کی طرف تھی لہذا سگنلز کا مسئلہ تھا چنانچہ رابطہ کرنے کے لئے چڑ ھائی پر جا نا پڑ تا تھا۔
پھر ارجہ کی طرف روانہ ہو ئے جو یہاں سے تقریباً سوا گھنٹے کے فا صلے پر ہے۔ راستے میں جگہ جگہ ناٹو افواج جن میں خواتین بھی تھیں پکنک مناتی نظر آ ئیں۔وہاں ساڑھے چار بجے پہنچے۔ دور تک امیر بیگم ( منظور وٹو ) کی خیمہ بستی تھی۔ ہم ایک لمبی شکستگی سے گزرنے کے بعد ایک گھرمیں پہنچے جہاں سب روزے سے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے دو ساتھی ( مقامی ) بھی روزے سے تھے لہذا باقاعدہ افطار کا انتظا م ہوا جس میں ہم بھی شریک ہو ئے۔
افطار کے بعد صا حب خانہ سے میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے بتا یا کہ یہ ایک اوسط علا قہ ہے ۔تجارتی لحاظ سے اہم ہے ۔اس کی افا دیت یوں بھی ہے کہ یہ ناٹو افواج کے مر کز سے قریب ہے یہاں چونکہ پرائیوٹ اور سر کا ری ادارے تباہ نہیںہوئے لہذا پڑھائی میں تعطل نہیں ہوا ہے۔یہاں خیمہ اسکول کے بجائے باقاعدہ اسکول نئے سیشن سے شروع کیا جاسکتا ہے جسے ضرور سپورٹ کیا جائے گا۔
اس میٹنگ کے بعد وا پس باغ آ ئے۔ یہاں پیما کے کیمپ میں انچارج ڈاکٹرز وذمہ داران سے میٹنگ ہوئی ۔یہ روز اول سے یہاں موجود ہیں۔اسی وقت کیمپ میں ایک نومولود کی آ مد کی خبر سنی۔اگر چہ ہم اس کو دیکھ تو نہ سکے مگر آ واز ضرور سنی زندگی سے بھر پور !
واپس قیام گاہ پر آ کر کھا نا کھایا اور تھک کر سو گئے۔ ہمیں کمپنی دینے یا میز بان کا ہاتھ بٹانے کے خیال سے وہ دونوں خواتین بھی ہمارے ساتھ مقیم رہیں۔ اگلی صبح ضلعی نگران سے میٹنگ طے تھی مگر ان کے نہ پہنچنے کے باعث ٹیم ممبر(صاحب خا نہ)سے گفتگو رہی۔انہوں نے یہاں اسکول کے لیے سامان ریجنل انچارج کے حوالے کیا ۔
12بجے راولا کوٹ کے لیے روانہ ہوئے جہاں تقر یباً ڈیڑھ بجے پہنچے ۔راستے میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے لڑکے لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں اسکول کالج سے واپس جاتے نظر آئے ۔ساتھ ساتھ غیر ملکی افواج بھی گشت کرتی نظر آئیں ۔ دل ہی دل میں ان طالب علموں کی حفاظت کے لیے دعا مانگی اگر چہ جمعہ کا وقت تھا مگر کاروبار زندگی رواں دواں تھاہم نے وہاں ٹھہرنے کے بجا ئے اپنا سفر اسلا م آباد کی طرف جاری رکھا ۔راستے میں ایک جگہ اتر کر چائے وغیرہ پی ۔
پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں میں داخل ہوئے توشام بھی اترچکی تھی اور مغرب کے دھندلکوں میں اسلام آباد پہنچے ۔اگر چہ ڈونرز کانفرنس گزر چکی تھی مگر بینرز اب بھی آویزاں تھے وہاں پہنچ کر جامعہ المحصنات میں مغرب کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ وہاں کی انچارج بھی آگیئں ۔ان کو لے کر اسلام آباد کی خیمہ بستی میں واقع بیٹھک اسکول گئے ۔بچے اور ٹیچرز فوراًجمع ہو گئے۔ٹارچ کی روشنی میں اسکول کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر ایک سرکاری افسربھی موجود تھے جنہوں نے اسکول کی بہت تعریف کی ۔ایک بچے نے کشمیر کے بارے میں ولولہ انگیز تقریر کی۔
رات گیارہ بجے ہماری واپسی کی فلائٹ تھی مگر ابھی ٹکٹ نہ ملے تھے۔اس کے انتظار میں ہم ایک جگہ کھڑے تھے نزدیک ایک شا دی ہال تھاجہاں اس وقت مہندی کی آ مد پر پٹاخے اور آ تش بازی ہو رہی تھی۔ اس شادی کا موازنہ مظفرآ با د میں ہونے والی شادی سے کیا تو دل بھر آیا۔کیا اب بھی ہمیں فر صت توبہ نہیںہے؟؟ نو بجے کے قریب ٹکٹ ہا تھ میں آ ئے تو ہم بھا گم بھا گ سیور فوڈ ز پلائو کباب والے ریسٹورنٹ میں کھا نا کھانے پہنچے۔ ( یہ وہی ہیں جو مظفر آ باد کی خیمہ بستی میں روزانہ کھانا مہیا کرتے ہیں )۔
اتفاق سے ہماری میز پر ہمارے بعد ایک فیملی آئی تو ان سے سلام دعا ہوئی۔ پتہ ہے وہ کون تھے؟ جن کے ہاں ہم باغ میں ٹھہرے تھے ان کی بہن اور خا لہ وغیرہ تھے جو میر پور سے باغ جا رہے تھے۔ بے حد عجیب اتفاق کہ جس کے دکھ کو ہم ذاتی طور پر محسوس کر رہے تھے اس سے یوں ملاقات ہو جائے! دنیاواقعی بہت چھوٹی ہے!اس لڑ کی کو دیکھ کر اس پر گزرنے والے امتحان کا خیال آ یا ۔ اللہ اس کو ہمت دے اور اپنے شوہر کے بارے میں کوئی اطلاع ملے جو محض افواہ نہ ہو! ( بعد میں ملبے سے لاش نکلنے پر شہادت کی تصدیق ہو گئی تھی۔ اللہ یقیناً اس بچی پر مہر بان ہے جس نے اپنے باپ کے بعد دنیا میں آ نکھ کھولی۔ یتیم پیدا ہوناتو سنت محمدی ﷺسے مماثلت ہے !)۔
کھانے سے فارغ ہو کر ہم ائر پورٹ پہنچے تو مسافروں نے لائونج میں جا نا شروع کر دیا تھا۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے۔چیک ان کے بعد لائونج میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ روانہ ہوتے وقت تھوڑی سی مدد، ذراسی امید، چند مسکراہٹیں ، اور خوشیاں لے کر متا ئثرین کے پاس گئے تھے واپسی میں ڈھیروں خوشیاں ، حو صلوں کے پہاڑ اور امیدوں کے سورج لے کر پلٹے ہیں۔ کیا یہ سودا برا ہے ؟ جاتے وقت وسوسے تھے، خدشات تھے ، آ تے ہوئے ہمتیں بلند اور اللہ پر یقین میں اضا فہ ! اگر حادثہ اگر اللہ پر یقین بڑ ھا دے تو یہ آ زمائش ہوتی ہے جس سے پوری قوم گز ری ہے!!
کشمیر۔۔۔تعلیمی حقائق:
اس دورے میں یوں تو کشمیر کا ہر پہلو دیکھنے کا موقع ملا مگر تعلیمی شعبے میں توجہ کے باعث اس کے حقائق پرزیادہ نظر رہی۔یہ با ت بالکل درست ہے کہ کشمیر میں تعلیم کا تناسب90% سے بھی زائدہے ۔اس بات کا مشاہدہ یوں ہوا کہ ہم نے متاثرہ علاقوں کے لئے ہنگامی تعلیمی پیکج بنا تے وقت بچوں کے لئے بنیادی ٹسٹ کا طریقہ کار طے کیا تھا کہ جس کو معیار بنا کر بچوں کو مختلف کلاسوں میں تقسیم کیا جا سکے مگر اس کے استعمال کی ضرورت یوں نہ پڑی کہ ہر بچہ کہیں نہ کہیں ضرور زیر تعلیم تھالہذا اس کے مطابق اس کو کتابیں مہیا کر دی گئیں۔ بچے تعلیمی سر گرمیوں کے تعطل پر اداس اور مضطرب تھے ۔ لیکن نصاب پر ایک سر سری نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو ا کہ یہ قطعاً ان مقا صد کو پورا نہیں کر تا جو ایک قوم کے پیش نظر رہنی چاہئے۔ جس طرح محض چند رسمی رسومات ؍ شعائر کو مکمل دین سمجھا جا نے لگا ہے اسی طرح چند ایٹی کیٹ سیکھ لینے کو مکمل تعلیم سمجھنا درست نہ ہو گا۔ دنیا کی ہر قوم حتٰی کہ گدھے گھوڑے تک اپنے بچوں کو وہ سکھا تے ہیں جو وہ انہیں بنا نا چا ہتے ہیں مگر تعلیم کے نام پر ایسے علوم بچوں پر لاد دیے گئے ہیں جو باقاعدہ ضرر رساں ہیں۔
نصاب تعلیم کے بعد طریقہ تعلیم آ تا ہے ! جب دیگر علاقوں کے لوگ یکساں latitudeپررہنے کے با وجودمختلف طریقہ تعلیم اپناتے ہیں تو کشمیر جہاں زمین ہی مختلف طبقات پرمبنی ہو کیسے یکساں نظام تعلیم اپناتی؟ لہذا اس کی جھلک بھی نظر آ تی ہے ۔جب تعلیم کا مقصد محض مادّی وسائل کا حصول ہو تومعیار پر کس کی نظر وہوتی ہے؟ تعلیمی ادارے مشروم کی طرح کھلے نظر آ تے ہیں مگر تعلیم کا حال؟ اس کا اندازہ اس وقت ہواجب ہماری منتخب کردہ اوسط درجے کی کتب تک اساتذہ کو پڑ ھا نامشکل ہو گیایعنی مقدار معیار کی علامت ہر گز نہیں ہے! مگر یہاں Pearl Valley جیسے ادارے بھی ہیں جہاں کے زیر تعلیم بچے بآسانی 10,15 ہزار روپے پر غیر ملکی اداروں کے متر جم بنے پھر تے ہیں ۔یہ چمک دیگر لوگوں کو بھی مجبورکر تی ہے کہ وہ تعلیم کے نام پر محض گٹ پٹ سیکھ لیں تا کہ مستقبل خوشحال گز رے۔یہ جانے بغیر کہ یہ دراصل قوم کو غلامی کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔
ایک نظر کشمیری معاشرے پر ڈا لیں ( کہ معاشرہ بھی فرد کی تعلیم و تر بیت پر اثر انداز ہوتا ہے )تو مذ ہب پر سختی سے عمل پیرا اپنی ذات کے خول میں سمٹا ایسا معاشرہ نظر آ تا ہے جس پر بیرونی اثرات کم تھے اور گھریلو مذ ہبی تعلیم اتنی موثر ہے کہ نصاب کے ذریعے پڑ ھا یا جا نے والا زہر ان پر اثر انداز ہوتا نظر نہیں آ تامگر گھر کے ماحول اوراسکول کے نصاب میں بعد ایک پریشان حال باغی نسل پیدا کر تی ہے اور یہ صورت حال بھی ایک آدھ نسل تک رہتی ہے اس کے بعدتعلیم گھریلو تر بیت پر حاوی ہو جاتی ہے۔
اس موقع پر کشمیر میں تعلیمی اداروں اور طلباء کی اس قدر تباہی پر دل قابو میں ہی نہیں آ تا تھا کہ پوری نسل تباہ ہو گئی مگر تعلیمی صورت حال کی جھلک دیکھ کر سورۃ کہف میں قتل کیے جانے والے بچے کا پس منظر یاد آ جا تا ہے کہ شاید اہل کشمیر کو اپنے ان بچوں کے حوالے سے مستقبل میں کسی بڑی آ زمائش سے اللہ نے بچایا ہے۔اللہ کی مصلحتیں وہی جان سکتا ہے! ان حقائق کی روشنی میں مناسب ہو گا کہ کشمیرکی تعمیر نو میں محض عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے بجائے اپنے تعلیمی ڈھانچے کو بھی مقاصد سے ہم آ ہنگ کر نے کی کو شش کریں ۔اس کام میں بھی معاونت وقت کی ضرورت ہے۔
فیس بک تبصرے