سنبل اور اس کے جیسی بہت سی معصوم کلیوں کے پیش انے والے بد ترین واقعات کسی ایک کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ اگر ایسے واقعات کہیں کہیں اور کبھی کبھی رونما ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ کسی فرد کی بیمار ذھنیت کا نتیجہ ہیں۔۔۔ مگر اے روز ایسے دلخراش واقعات بڑھتے جاتے ہیں۔ مجھ جیسی مایں مرغیوں کی طرح اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپاے ، گلی میں چلتی خوفناک بلاؤں کی قدموں کی آہٹ، اور ان کی لپلپاتی زبانوں کی غلیظ آوازیں سن کر لرزتی رہتی ہیں۔ کسی کی بچی یا بچے کے ساتھ ایسے سانحہ ہوتا ہے، اور ہم سہم کر اپنے بچوں کو اور زیادہ سختی سے اپنے بازوؤں میں چھپا لیتے ہیں۔
اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ جو ہوا وہ رپورٹ ہو گیا۔۔۔ لکن جو بہت سارے اور بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس کا نوحہ کوئی نہیں کہہ پاتا۔ شعبہ نفسیات کی ایک طالب علم ہونے کے ناطے، خاموش، جواب نہ دینے والے، گم سم بچوں کی عجیب حرکتوں اور گم سم انداز کو کھوجتے جب ایسے کسی اندوہناک واقعے کا سراغ ملتا ہے، تو دل ایسے بے چین ہوتا ہے کہ جیسے کسی مٹھی میں مسل ڈالا ہو۔ سکول، بازار، گھر، بسیں، غرضیکہ کون سی جگہ ہے جو محفوظ ہے۔ انسانوں کے روپ میں بلائیں ہیں جو بستیوں میں گھومتی پھرتی ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کسی کی کہانی پڑھ کر افسوس سے چند ٹھنڈی آہیں بھر لینے سے زیادہ کچھ کرنا چاہیں، اور چٹپٹی گفتگوؤں، معاملے کو اپنے مقاصد کے لئے استمعال کرنے، اور کسی کو نیچا دکھانے کے بجاے در حقیقت کچھ کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ گہرائی سے معاملے کی اسباب کا سراغ لگایا جاے۔ اور اخلاص سے ان کے سد باب کی کوششیں کی جائیں۔
ہماری راے میں ایسے ہر جرم کی ذمہ داری سب سے پہلے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس، عدالتی نظام پر عاید ہوتی ہے۔ اں کی کرپشن، چشم پوشی، ظالم کی پشت پناہی، یہ سب مل کر مظلوم کو داد رسی نہ ہونے کا یقین دلا کر بزدل اور مایوس کر دیتے ہیں، اور ظالم کو نہ پکڑے جانے، اور کسی نہ کسی طرح بچ جانے کا یقین اور زیادہ ڈھیٹ اور بے خوف بنا دیتا ہے۔۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ جرائم پھلتے پھولتے ہیں۔ اور مجرم مزید فساد پھیلانے کے لئے آزاد پھرتا رہتا ہے۔
معاشرے میں ہر قسم کی بھوک کو بھڑکانے، نت نے زایقوں سے لوگوں کو للچانے کے سامان تو بہت ہیں، لکن اپنی بھوک پر قابو پانے کے طریقے، اور ناجایز طور پر مٹانے سے روکنے کی تربیت کہیں نہیں ہوتی۔ زعم یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ دکھاتے ہیں جو ہوتا ہے۔ گویا کہ سواے شر کے کچھ اور ہے ہی نہیں جو معاشروں میں ہوتا ہے۔۔۔ خیر کوئ ایسی قابل ذکر طاقت ہی نہیں جو شر کو شکست دے سکے۔۔۔شر سب سے زیادہ طاقتور قوت ہے، اور اس کو روکنے والی خیر کی قوت انتہاہے کمزور اور مضحکہ خیز؟
بے شک انسانی جبلت اور خواھش ایک حقیقت ہے، لیکن انسان کو نرا جانور ہی بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ اس میں میں موجود شر اور خیر دونوں کے رحجانات تربیت سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اور یہ سار امعاشرہ بالخصوص میڈیا شر کو پروان چڑھانے کی بھر پور کوششوں میں مصروف ہے۔ سائنس دانوں کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اگر بندروں کو بھی مستقل تشدد سے بھرپور مناظر دکھاے جاتے رہیں تو وہ انمیں بھی وحشیانہ جذبات کو انگیز کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ انسانوں کی بستیوں مینن تو ایسے کتنے ہی ذہنی مریض پھرتے ہیں جن کے اندر شر انگیز خیالات اور وحشیانہ جبلتیں چھپی ہوتی ہیں۔۔۔ خاص طور پر ایسے مریضوں کی شیطانیت کو میڈیا بری طرح بھڑکانے کا کام کر رہا ہے۔ جرائم اور اخلاق باختگی کے ایسے ایسے طریقے گھر بیٹھے سکھاے جاتے ہیں، کہ جو عام لوگوں کے احاطہ خیال میں بھی نہیں آ سکتے۔ جولوگ میڈیا کو اس ذمہ داری سے بری الزمہ سمجھتے ہیں وہ فلموں پر “PG ” کی قدغن کا کیا جواز پیش کریں گے؟دوسری طرف جس خدا کا خوف اور جس آخرت میں جواب دہی کا احساس انسانوں کو بدی سے روکتا ہے، میڈیا اور سارا معاشرہ اس کو مشتبہ اور غیر اہم بنا دینے کے درپے ہے۔ خدا، آخرت،اخلاقیات ، انسانی رشتوں کی حرمت، انسانی اقدار و روایت، حیا پاکیزگی،غرضیکہ ہر تصور یا تو مشتبہ ہے یا غیر ضروری، یا کوئی ایسا پرائیویٹ معاملہ جس کی ترویج و اشاعت بھی ناقابل معافی جرم ہے۔ اسی لئے میڈیا، ادارے، والدین سب نے اس جرم کے ارتکاب سے خود کو روک کر رکھا ہوا ہے۔
یہ ساری باتیں سب شعوری اور لاشعوری طور پر اپنی نسلوں کو سکھاتے جا رہے ہیں۔ وہ ایسے معاشروں میں پروان چڑھ رہےجہاں مذہب اور اخلاقیات ایک اوٹ ڈیٹڈ شے ہیں، اور بھوک سب سی بری حقیقت جسی کو جیسے بھی ہو مٹانا ضروری ہے۔۔۔ اسی لئے ہر طرف خواہش کے پجاری اور جبلتوں کے غلام پھیلتے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب کو چار گواہوں والی گمراہ کن بحث میں الجھا کر ساری ذمہ داری مذہبی قوانین اور ملاؤں پر ڈالی جا سکتی ہے۔۔۔ تو وہ بد دیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
اگر مظلوم کو در حقیقت انصاف دلانا مقصود ہے تو اس کے لئے ایسے سارے جرائم کے اسباب کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اور ان کے تدارک کے لئے اخلاص سے کوششیں کرنی ہوں گی۔۔۔ لیکن سنجیدگی اور اخلاص، اور حقیقتا انصاف دلانا ایسی خوش کن آرزوئیں ہیں، کہ ان کی وجہ سے بہت سو ں کے کاروبار بند ہو جانے کا اندیشہ رہے گا۔
اچھی اور سچی تحریر ہے۔
ہمارے ہاں آئے دن بڑھتی ہوئی بے راہ روی اسی میڈیا اور روشن خیالی کی پیداوار ہیں۔
یہ بھی آپ نے ٹھیک کہا کہ مذہب سے دوری لوگوں کو ہر طرح کی جواب داری سے پاک کر دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ گھر سے جو تربیت کا حق ادا ہونا چاہیے وہ بھی ہمارے ہاں نظر نہیں آتا سو یہ سب معاملات تو ہونا ہی ہیں۔
پھر مرے پہ سو دُرّے، میڈیا والے ایسے معاملات کی ضرورت سے زیادہ تشہیر کرکے دیگر مادر پدر آزاد لوگوں کو بھی نئی نئی راہیں سُجھاتے ہیں اور اپنے تئیں معاشرے کے مصلح بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ایسا نہیں کہ میں ان واقعات کی مذمت نہیں کرنا چاہتا۔ مگر کچھ اور نکات کی جاب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔
ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ۔ جس انسانی جبلت کی طرف آپ نے اشارہ کیا وہ اس سے پہلے بھی موجود رہے گی، اور تا قیامت موجود رہے گی۔
مگر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان واقعات کا منظر عام پر آنا زیادہ ہو گیا ہو؟؟ اس سے پہلے کہ ہم کسی سٹیریو ٹائپ قسم کا مذمتی بیان جاری کریں اور کسی ایک مخصوص قسم کے طرز زندگی یا خیال کو مورد الزام ٹھہرائیں، ہمیں ایک لمحے کو رک کر سوچنا ہوگا کہ یہ سب کچھ اس مظلوم بچی کا نام لئے بغیر بھی تو کیا جا سکتا تھا۔
بریکنگ نیوز کی دوڑ نے ذاتی زندگی کی پرائیویسی کا حق سب سے چھین لیا ہے۔ سنبل کا نام مختاراں مائی کی طرح اب مشہور ہو کے رہ گیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اب اس کو اتنا مشہور کر دینے کے بعد وہ ایک نارمل زندگی گزار پائے گی۔ اتنا بڑا صدمہ سہنے کے بعد تو ایسے بھی یہ ممکن نہ تھا، ماہرین نفسیات اپنے طور پر اس کی سائیکو تھراپی کر کے کوششیں تو کریں گے مگر انسانی ذہن کو آج تک کون کنٹرول کر سکا؟
اس کی سوچ پر جو ذخم بنا اب شائد ہی مٹ سکے، مگر کیا ہم اس پر یہ رحم نہیں کر سکتے کہ سوشل میڈیا میں اِن رہنے کی خاطر جو مذمتی بلاگ لکھے جا رہے ہیں ان میں سے اس کا نام ہی نہ لکھیں؟ کیا اخبار والے، نیوز چینلوں والے، سیاست دان سب اتنے بے رحم ہو گئے ہیں کہ اس معصوم بچی کی یوں پردہ دری کرےجا رہے ہیں اور کسی کو ایک ذرہ برابر بھی شرم نہیں آتی؟؟
گزشتہ برس دسمبر میں دہلی میں ایک بھارتی طالبہ کو ریپ کرنے بعد اتنا مارا گیا کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ اس کے ساتھی کو بھی شدید زخمی کیا گیا، ا ب مجھے یاد نہیں کہ وہ بھی مارا گیا کہ نہیں۔ مگر کام کی بات یہ ہے کہ بچی کے والد نے میڈیا اور سب لوگوں سے اپیل کی کہ آپ لگ جو بھی احتجاج کریں، جو بھی کارروائی کریں، بچی کا نام استعمال نہ کریں۔
کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس بچی کا نام کیا تھا جو گزشتہ برس دسمبر میں نئی دہلی میں ماری گئی؟؟
ہم سے تو کافر مشرک ہی بھلے تو کم از کم کسی کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہیں۔
جناب اپ کی بات سے اتفاق کرتے ہیں، اپنے ایک دوسرے بلاگ میں ہم نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے. بات یہ ہے کہ جرم اور ظلم کوئی بھی نیا نہیں ہوتا، مگر کبھی کبھی کسی پر گزری بہت سے دوسروں کے دکھوں کی ترجمانی کر جاتی ہے.ہم شعبہ نفسیات سے وابستہ ہیں. ایسے مظلوموں سے ہمارا تعلق رہتا ہے. لکن جس انداز میں اس واقعہ پر طوفان کھڑا کیا جا رہا ہے، سنجیدہ اور درد مند طبقے کی ذمہ داری یہ بنتی ہے ، غور طلب باتوں کی طرف بھی عوام النا س کی توجہ دلائی جاے.اسی لئے ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ واقعات کی جزئیات پر بات کرنے کی بجاے محرکات پر غور کیا جاے. سنجیدہ اور متعلقہ افراد ایسے معاملوں پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور مفاد پرست ان کے ذریعے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں…ایسے میں ہمیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے اپنی حد کوشش ضرور کرنی چاہیے.
کیا ہی اچھا ہوتا کہ بے چاری بچی کا نام کوئی نہ لیتا۔ کوشش کرنے سے تو کسی نے نہیں روکا۔ اچھے کا م کے لئے تو تعاون کرنا چاہئے ۔ مگر اچھا کام بھی اگر بھونڈے طریقے سے کیا جائے تو مفید نہیں رہتا۔
ایشو یہ ہے کہ میڈیا جو انڈین ایجنڈے کے مطا بق کام کر رہا ہے۔ وہ جب چاہے ہماری سمت بدل دیتا ہے۔ اب اس کیس کو ہائی لائٹ کرنے کی ٹا ئمنگ دیکھیں جب انڈیا میں دہلی ریپ کیس کا فیصلہ آ یا تو اس نے توجہ ہٹا نے کے لئے ہمارے ہاں کے واقعات کو فوکس کر لیا ۔ ڈبل فائدے حاصل! ایک تو حجاب مہم کے اثرات کو زائل کر نا اوردوسری طرف ریپ سٹیٹ کا ٹائیٹل اپنے بجائے پاکستان کے سر بانڈھنے کی کوشش! اللہ شر میں سے خیر نکالتا ہے ورنہ ہم تو دشمن کے بنائے ہوئے خاکہ میں رنگ بحرنے میں مصروف ہوجا تے ہیں ۔ اب دیکھیں تین بلاگز تو اس ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔اللہ ہمیں دشمن کی چالوں سے نمٹنے کی ہمت دے۔
باتیں سب ٹھیک ہیں اور دل لگتی بھی ہیں، لیکن سوال تو حل کا ہے۔