انتظار ابابیل ہے!!

ababil-attack99/11کو پورے 12برس بیت گئے۔نیویارک کے 2بلند میناروں کے ملبے سے سراٹھانے والی جنگ نے نہ صرف عالم اسلام ہی کو نقصان پہنچایا بلکہ خود امریکہ کی پیشانی پر بھی کئی داغ چھوڑے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دؤر کے فرعونوں کیلئے قدرت الگ الگ سزا تجویز کرتی ہے اور اس وقت کے فرعون کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ قدرت نے اسکے لئے ۔۔۔کی سزا تجویز کردی ہے۔ دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا امریکہ خود کتنے خسارے میں ہے؟ اوراس جنگ کی کتنی قیمت خود امریکی قوم ادا کررہی ہے وہ خسارہ ڈالروں اور انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں تو اعداد شمار میں دستیاب ہے لیکن کیا امریکہ یہ تلخ حقیقت ماننے پر تیار ہے کہ 9/11کے بعد آج تک امریکہ سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے!! اور امریکی جنونی اقدامات نے صرف مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو انتہائی غیر محفوظ بنادیا ہے۔ اس وقت دنیا ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی آگ میں جل رہی ہے اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔2مئی ایبٹ آباد ڈرامے اور اسامہ بن لادن کی نام نہاد شہادت کے بعد تو دنیا پر امن کی فاختائوں کو اڑنا چاہئے تھا مگر ہر آنے والا دن مسلم امہ کیلئے بالخصوص نحوست کے سائے لیکر طلوع ہورہا ہے۔

 

دہشتگردی کیخلاف جنگ کے آغاز کا مقصد تو ساری دنیا سے دہشتگردی کا خاتمہ تھا ، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وار آن ٹیرر’’اسلامی دہشتگردی‘‘ (یہ اصطلاح بھی نائن الیون کے بعد متعارف ہوئی) بلکہ مسلمانوں کے خاتمے کی جنگ ہے۔ کیونکہ عملاً اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان اب تک مسلمان ہی اٹھارہے ہیں۔ اور بالخصوص پاکستان تو ھر محاذ پر اس جنگ کی قیمت ادا کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے شرق بعید تک کے مسلم ممالک اپنی معاشی ترقی اور نمو میں مصروف ہیں لیکن پاکستان کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا گیا جسکا انجام بظاہر کسی کو نظر نہیں آرہا۔

 

ہاں دنیا پر تاجداری کا خواب دیکھنے والا امریکہ اپنے فوجی بوٹوں سے ’’اسلامی دہشتگردی ‘‘کو کچل رہا ہے اور تمام معروف ضابطے، اصول اور قوانین اس وار آن ٹیرر میں جس طرح مسخ کئے گئے ہیں اس نے دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے اور دہشتگردی کو اسکے حقیقی خدوخال سے بڑھا کر ایک نظریہ ، ایک فلسفہ اور ایک تحریک کی شکل دیدی گئی ہے۔ مصر اور شام کی موجودہ صورتحال کے بعد دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ کل عراق پر حملہ کیلئے کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈھونگ رچایاگیا آج وہی کھیل شام میں کھیلنے کیلئے نفسیاتی فضا پوری طرح تیار کی جارہی ہے۔کذب بیانی ان کا وطیرہ ہے، مگر دکھ یہ ہے کہ وار آن ٹیرر کا حصہ بن کر ہم بھی ان کے جھوٹ کے گواہ بن گئے اور مسلسل سزا سے دوچار ہیں۔۔لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہے دنیا کو آگ میں دھکیلنے والے خود بھی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ امریکہ خود اس جنگ کی کتنی قیمت ادا کررہا ہے دنیا کے ذرائح ابلاغ اسکی تشہیر کررہے ہیں کہ امریکہ پر بیرونی قرضوں کا جو حجم ہے وہ اسکی مجموعی قومی پیداوار سے 100%زائد اور 60کھرب ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔ اور اس جنگ کو جاری رکھنے کیلئے امریکہ ان بارہ برسوں میں 117کھرب ڈالرز سے زائد کے قرضے لے چکا ہے۔ اور اوسطاً 10کھرب ڈالر کے قرضے سالانہ امریکہ کو لینا پڑرہے ہیں اس جنگ کی آگ کو بھڑکائے رکھنے کیلئے۔وہاں بجٹ کا خسارہ سو فیصد سے بڑھ چکا ہے اور ہر امریکی اس وقت اوسطاً پانچ ہزار ڈالر سے زائد کا مقروض ہے۔ اوباما کے دؤر اقتدار میں اب تک امریکہ پر قرضوں کا بوجھ54کھرب ڈالر ز سے زائد بڑھ چکا ہے۔اور وہ جانی نقصان یقینا بہت زیادہ ہے جو امریکی حکومت اپنے شہریوں کو بتانے سے گریزاں ہے۔

 

اس جنگ کا ایندھن بننے والے سو ا دو لاکھ لوگوں کے قتل کا ذمہ دار ساری دنیا امریکہ کو سمجھتی ہے۔ جو نائن الیون کے ڈرامے کا تخلیق کار ہے۔ لیکن دکھ اس بات کا کہ مسلم دنیا کے حکمران اس جنگ میں امت مسلمہ کا محافظ بننے کے بجائے دشمن کے آلہ کار بن گئے، جو عالمی نظام پر تسلط کے نشے میں فی الوقت چور چور ہیں۔ القائدہ، طالبان، اسامہ بن لادن کی تلاش ، اسلامی تحریکیں، جہادی لشکر ۔الغرض بہانوں سے ان بارہ برسوں میں پاکستان کو معاشی، سماجی استحصال سے دوچار کرنے میں وقت کے فرعونوں نے کوئی بھی کسر نہیں ٹھا رکھی۔سیکڑوں فوجی، ہزاروں شہری اربوں ڈالر کا سرمایہ اس آتش فشاں کے جہنم کی نذر ہوچکا ہے۔ انسانیت نہ جانے کب تک اس جنگ کی تباہ کاریوں کی قیمت ادا کرتی رہے گی’’قوت‘‘کے استعمال نے ہمیشہ ’’نفرتوں‘‘ کے الائو ہی روشن کئے ہیں اور مسلمہ امہ شاید پھر ابابیلوں کی منتظر ہے کہ اس کے حکمران تو قصر سفید کی کنیز ثابت ہوئے ۔
ابرہہ اور اس کے سپاہی لشکر تیرے گھر سے جو ناکام لوٹے تو کیا؟
میرے شہر وں میں یوں آکے وارد ہوئے۔ ہم زمین زاد لوگوں کے گھر لٹ گئے!
آشیاں گرپڑے اور شہرمٹ گئے۔۔
رب کعبہ تجھے تیرے گھر کی قسم جو سلامت رہا ، سلامت رہے تا قیامت
میرے برباد شہروں کی فریاد سن۔۔!!
ابرہہ کا وہی لشکرِ فیل ہے۔۔۔ہم کو پھر انتظارِ ابابیل ہے۔

فیس بک تبصرے

انتظار ابابیل ہے!!“ ایک تبصرہ

  1. بارہ سال قبل جب ٹیلی وژن پر ٹوئن ٹاور کی تباہی براہ راست دکھائیجا رہی تھی تو سورۃ الفیل ہی یاد آ ئی تھی۔ لیکن آنے والے وقت مشکل سے مشکل ہو تے گئے لگتا ہے کہ
    ابا بیلیں حکم الٰہی کی منتظر چونچ میں کنکر لئے کھڑی ہیں اور رضائے الٰہی مسلمانوں کی طلب مغفرت سے جڑی ہے ۔ کاش رجوع الی اللہ نصیب ہو تا کہ اذن سنگباری ملے۔

Leave a Reply