شاہ زیب قتل کیس میں ملوث ملزمان کو رہا کر دیا گیا، مدعیان نے قتل کے تمام ملزمان کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا ۔۔۔ جونہی یہ خبر سنی تو شدید دھچکہ لگا۔۔۔ بظاہر ایسا ہو نا تو نہیں چاہیے تھا ۔۔۔ کیونکہ یہ ملزمان اور مدعیان کا آپس کا معاملہ تھا ، مگر حقیقت میں یہ صرف ملزمان اور مدعیان ہی کامعاملہ نہیں تھا ۔۔۔
عدالت نے ملرمان کی رہائی کا فیصلہ سنایا تو احاطہ عدالت میں گاڑیوں میں بیٹھتے ہوئے ملزمان نے”جیت گئے ،،، ہم جیت گئے” کےنعرے لگائے ،،، خوشی سے جھومے اور ایک دوسرے کے گلے ملے ۔۔۔ دراصل یہ مناظر تکلیف دہ تھے ،،،، ملزمان کے چہروں پر کسی قسم کی کوئی شرمندگی ، ندامت یا پشیمانی کے آثار تک نہ تھے ، احساس تفاخر کے نشے میں مست ان کے چہروں پر ڈھٹائی نمایاں تھی اور ہم جیت گئے کے نعرے ان کے لہجوں کی رعونت کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔ یہ سب کیا تھا ؟؟؟ یہ دولت کا غرور تھا اور طاقت کا نشہ تھا۔۔۔ یہ پاکستان کے جاگیر دار مراعات یافتہ طبقے کی طرز معاشرت کی جھلک تھی ،،، یہ اس بات کا اظہار تھا کہ دولت ہی اصل طاقت ہے اور اس طاقت کی بنیاد پر ہم کسی کی بہن کو سر راہ رسوا کر سکتے ہیں ، ہم کسی کو بیچ چوراہے گولی مار سکتے ہیں ،،،ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ، اس ملک کی پولیس ہمارے پاؤں کی ٹھوکر پر ہے ، ہمارا نام اگر ای سی ایل میں ہو تب بھی اس ملک سے فرار ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ،،،، عدالتوں کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ، میڈیا ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور یہ سول سوسائیٹی ۔۔۔ ہونہہ ۔۔۔ یہ کس کھیت کی مولی ہے ،،،، جیت بالاآخر ہماری ہی ہے۔۔۔ “ہم جیت گئے ہم جیت گئے” ۔۔۔
شاہ زیب کا ایک جاگیر دار کے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تو بات سادہ ہی تھی ، کہ اس ملک کی روایت میں یہ بڑی خبر نہ تھی ،،، مگر شاہ زیب کے دوستوں نے جس جرات سے اس روایت کو بدلنے اور قتل کا حساب لینے کا مطالبہ کر دیا وہ اہم تھا اور تاریخ کا حصہ بن گیا ۔ میڈیا نے اس آواز کو ببانگ دہل چہار سو پھیلایا ،،، سول سوسائی اور میڈیا کی یہ جدوجہد اس ملک کو جاگیر دارانہ ذہنیت سے چھٹکارہ دلانے کی نہایت قیمتی جدوجہد تھی۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب!
یہ ملک آپ کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ جہاں جو آپ کی مرضی ہو وہی چلے ۔۔۔ آج کے بعد آپ کو ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا ، حضور آپ سے ایک بات عرض کرنا ہے حضور آپ کو بھی ایک روز مرنا ہے۔۔۔ آپ کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہوگا۔۔۔ جن نوجوانوں نے شاہ زیب کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے صدائے احتجاج بلند کی وہ سب لائق تحسین ہیں۔ انہوں نے اس ملک میں انصاف اور قانون کی بالادستی کو رائج کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ،،، یہ مختلف گول چکروں اور چوراہوں میں کھڑے ہونے والے چند سو افراد ہی تھے جن کےمسلسل احتجاج کی بدولت فرعون کے جانشینوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔۔۔۔ اور یہ ثابت ہوا کہ ظلم کے خلاف سو سائٹی کا آواز بلند کرنا سماج میں انصاف کی بالادستی کیئے کتنا ضروری ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف چند لوگوں کا بھی کھڑے ہوجانا جہاں مظلوم کواس کا حق دلانے میں مدد فراہم کرتا ہے وہی ظالم کے گرد گھیرا بھی تنگ کرتا ہے اور معاشرے میں انصاف کے حصول کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے ۔۔۔ ظلم کے خلاف لوگوں کا آواز بلند کرنا زندہ معاشرے کی علامت اور سماج کے استحکام کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔۔۔
واقعہ یہ ہے کہ شاہ زیب کے قاتلوں کو معاف کرنے کا استحقاق صرف اس کے ماں باپ کا نہیں رہا تھا بلکہ اب یہ پوری قوم کا حق بن چکا تھا ، یہ معاشرے کی مشترکہ لڑائی تھی پورا سماج اس میں فریق تھا ، شاہ زیب کے عزیز و اقربا دوست احباب ، اس کے کلاس فیلوز اس کے شہر والے اور دوسرے شہروں والے بھی ،،، وہ سب جنہوں نے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کیلئے سڑکوں پر نعرے لگائے ، پلے کارڈز اٹھائے۔۔۔ اپنا وقت ، پیسہ اور صلاحتیں صرف کیں ۔۔۔ اس ملک کے وہ تمام شہری جو انصاف اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں وہ سب اس مقدمے کے فریق تھے ۔۔۔ شاہ زیب کے والدین سے بصد احترام کے ساتھ۔۔۔ عرض یہ ہے کہ بے شک شاہ زیب آپ کا لخت جگر تھا اس کےقاتلوں کا معاف کرنا آپ کا قانونی اور اسلامی حق تھا مگر پھر بھی آپ کو اپنے بیٹے کے قاتلوں کو معاف نہیں کرنا چاہیے تھا ،،، کیونکہ شاہ زیب کا خون اب قوم کی امانت بن چکا تھا ،،، اس ملک کے گلے سڑے جاگیردارانہ نظام کے تابوت میں ٹھکنے والا کیل بن چکا تھا۔۔۔ قاتلوں کو سزا ضور ملنی چاہیےتھی یہ اس ملک کے سماج کی زندگی کیلئے ضروری تھا۔۔۔
اب جبکہ قاتل رہا ہو چکے ، مدعیان سے انہیں معافی مل چکی ، مگر سماج کو ابھی بھی اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔۔۔ اور وہ ہے قاتلوں کو شرمندہ کرنے کی جدوجہد ۔۔۔ ظالموں کو پریشان کردینے کی جدوجہد ،،، شاہ زیب کے دوست اور سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہو اور شاہ زیب کے قاتلوں کی تصاویر اٹھا کر احتجاج کیا جائے اور دنیا بھر میں قاتلوں کے چہروں کو رسوا کر دیا جائے ۔ قاتل کو نکو بنا دینا چاہیے ، قاتل جہاں جائے اس کو طعنے ملنے چاہیے،،، اسے محسوس ہو کہ اس نے کوئی غلط کام کیا ہے۔۔۔ بھیانک جرم کیا ہے ۔ وہ کسی شاپنگ سنٹر میں جائے تو کوئی دکان دار ایسا بھی ہو جو کہہ دے کہ تم شاہ زیب کے قاتل ہو ،،،، وہ کسی لڑکی کو پرپوز کرے تو وہ شاہ زیب کا قاتل کہہ کے ٹھکرا دے ،،، ہر طرف “قاتل تری زندگی شرمندگی شرمندگی” کی صدائیں بلند ہوں۔۔۔ پاکستانی قوم جاگ اٹھے اور اعلان کرے کہ اب اس ملک میں جاگیروں اور سرمائے کی بنیاد پر اترانے والے ظالموں کو منہ چھپا کر رکھنا ہوگا اور انہیں انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی ۔
یہ سماج کی جیت ہو گی۔۔۔ اب سماج کو جیتنا ہوگا۔۔۔
آپ کو یہ خبر کہاں سے ملی ہے۔ ہم نے جنگ، ایکپریس سمیت اخبارات کو دیکھا ہے کسی نے بھی ابھی تک یہ خبر رپورٹ نہیں کی۔
ماشا ا للہ بہت اچھا تجزیہ ہے! بات تو یہ کہ ندامت خود جرم کی معافی کاسبب بن جا تی ہے مگر یہاں تو فتح مندی کے جذبات جرم کو مزید واضح کر رہے ہیں لہذا اس پر
سوشل بئیکاٹ کی تجویز اچھی ہے مگر سوال یہ ہی ہے کہ ہمت کون کرے گا ظلم کی آندھی میں مضبوطی سے کھڑے ہونے کی جب مقتول کے والدین ہی نہ کر پا رہے ہیں !!!
ہمارا معاشرہ کھوکھلا ہو چکا ہے ہم جو کچھ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھتے اور دکھاتے ہیں اُس میں بھی مالی مفادات اور ریاکاری شامل ہوتی ہے۔رجوع الاللہ ہی ہمیں موجودہ صورتِ حال سے نکال سکتی ہے۔جب حکومتِ وقت ہی قاتلوں کے ساتھ مل گئی ہو تو مقتول کے لواحقین کیا کریں؟