ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن
تم جنگ کے پیاسے لگتے ہو
کوئی بات نہیں
کوئی فِکر نہیں
یہ پیاس بُجھادی جائے گی
تاریخ مٹادی جائے گی
لیکن!!! تم پہلے یہ تو کہو
کہ تم نے ہم کو کیا سمجھا ہے؟
پیار کروگے پیار کریں گے
ورنہ! ہر اِک ظلم کا بدلہ
لینے کا آتا ہے ہُنر
ہم صحراؤں کے پالے ہیں
ہم نے ہی فضاکے سینوں میں
پرواز کے خنجر گھونپے ہیں
ہم شاہیں ہیں
ہم شیرِ علیؓ
ہم دریا اور سمندر کی
ہر ایک لہر سے واقف ہیں
پہچان گئے کہ کون ہیں ہم؟؟؟
نہیں تو پھر اے نادانو!!!
پہچان ہی لو تو اچھا ہے
تاریخ ہماری پڑھ گزرو
چودہ سو سال پرانی ہے…
فاتح ِ عالم نام محمد
صلی اللہ علیہ وسلم
ہم سب کا جو بانی ہے
خیر…
خیر تم اتنا یاد رکھو
کہ اللہ پاک کی نصرت سے
ہم پاکستان بچالیں گے
ہم موتِ شہادت کے پیاسے
ہم لڑ کر مرنا چاہتے ہیں
ہر اِک کے دل میں جذبہ ہے
سب تم سے لڑنا چاہتے ہیں
ہر ایک سے لڑنا ہوگا تمہیں
میں شاعر ہوں یہ میرا قلم
تلوار ہے کفر کی گردن پر
میں شاعر ہوں میں کہتا ہوں
میرے قلم سے پہلے لڑلو
میری فوج سے بعد میں لڑنا!!!
شاعر: صفدر علی صفدؔر
عزم اور ارادوں سے بھر پورایک جذباتی نظم ! جذبات جو عمل پر ابھا رتے ہیں ۔،اللہ کرے میری قوم کے ہر فرد میں بیدار ہوجائے! پہلے تو ہمیں اپنے ہی اندر کے دشمنوں، کاہلوں اور سست لوگوں سے لڑ نا ہوتا ہے۔