خسارے میں کون؟

rabia-aladvia’’واہ کیا زندہ دل اور پر امید لوگ ہیں یہ اخوانی۔۔۔‘‘ میں نے اپنی بہن کو اخبار میں چھپی تصویر دکھاتے ہوئے کہا۔اس وقت ہم سب کرسٹل کے ڈیکوریشنز سے سجے اپنی کزن کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے پورے خاندان کو ناشتے پر بلایا ہو اتھا۔ عید تو چنددن پہلے گزر چکی تھی مگر یوم آزادی کی مناسبت سے گویا لوٹ آئی تھی ۔ہر طرف خوشی کاسماں تھا ۔ بچے بھی اسکول سے جشن آ زادی مناکر پہنچ چکے تھے ۔ہاتھوں میں مٹھائیاں اور پر چم لئے سب کے چہرے دمک رہے تھے۔موسم بھی ہماری خوشی کو دوبا لا کر رہا تھا۔ اس موقع پر گفتگو کا رخ مصر کی طرف مڑ گیا جہاں مرسی کا تختہ الٹ کر فوج نے حکومت سنبھال لی ہے ۔اس کے خلاف عوام اخوا ن کے ساتھ پچھلے ایک ماہ سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔ رمضان اور اس سے متعلقہ تمام سر گر میاںبشمول اعتکاف وہیں گزاررہے ہیں ۔شب قدر کی دعائوں کی ویڈیو تو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے!گڑ گڑا کر قنوت نازلہ پڑھنا کس قدر معنی خیز اور پر اثر منظر تھا!کیمپوں میں ہی عید تمام روایات اور اہتمام کے ساتھ منائی گئی۔ مذکورہ تصویر میں کیمپ کے اندر ٹیبل ٹینس کا مقابلہ دو لڑ کیوں کے درمیان ہو رہا تھا ،جی ہاں!عید الفطر کی خوشی میں کھیل تفریح منائی جا رہی ہے۔

’’ہاں! احتجاج کو بھی گلیمرائزڈ کر لیا ہے اعتماد اور طا قت کے ساتھ۔کوئی بوجھل پن نہیں ۔جیسے یہ بھی زندگی کا حصہ ہے!!‘‘ اس فخریہ متفقہ بیان کے بعد موضوع تبدیل ہو گیا۔

 

ناشتے پر بیٹھنے لگے تو کچھ smsایک ساتھ موصول ہوئے۔ اٹھا کر دیکھا تو ! pool of blood in Rabiaفوری طور پر ذہن گلستان جوہر کے معروف رابعہ اسکوائر کی طرف گیا۔ کیا وہاں آ پریشن ہو رہا ہے؟؟ مگر اس فوری خیال کو اگلےsmsنے رد کر دیا جب یاد آیا کہ یہ تو قاہرہ میںرابعہ کا میدان ہے جہاںمصری عوام فوجی بغاوت کے خلاف مہینہ بھر سے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں! حلق میں گویا نوالے اٹکنے لگے ۔یعنی جس وقت ہم اپنا جشن آزادی مناتے ہوئے خوشگوار لمحات میں اخوانیوں کی زندہ دلی کی داد دے رہے تھے وہ آگ اور خون کی بارش میں نہا رہے تھے۔خوشی جیسے روٹھ سی گئی اور دکھی دل کے ساتھ ہم گھرکی طرف لوٹے۔وہی بارش جوجاتے ہوئے خوشی کالیول بڑ ھا رہی تھی واپسی میں یوں لگا جیسے آسمان بھی رو رہا ہو اس فر عونیت پر! پھر تو جیسے جیسے خبریں ملتی گئیں دل اداسی میں ڈوبتا گیا! زبان ایسے خشک ہو گئی جیسے اپنے آ پ کو ذاتی طورخطرے میں پاکر بند ہو جاتی ہے پا نچ ہزار کلو میٹر کے فا صلے پر ہونے والے ظلم لگتا تھا ہمارے گلی محلے میں ہو رہا ہے!مگر ہمارا میڈیا تو چین کی بانسری بجارہا تھا ۔بے چارے کے پاس تو وسائل ہی نہیں!وہ تو وہی کچھ پیش کر سکتے ہیں جس ایجنڈے پر کام شروع کیا ہے۔ ان بے چاروں کی اوقات سوچ کر ترس  آتاہے تفصیل کیا لکھیں سب جانتے ہیں اور جو جا ن کر بھی اس پر یقین کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ قابل رحم ہیں بلحاظ انجام !!! فی الحال تو لذتیں ہی لذتیں ہیں!کچھ نہیں تو سکندر کا ڈرامہ ہی دیکھ لیں ! اس موضوع پر کچھ کہنا وقت اور الفاظ کا ضیاع ہے ۔ہاں یہ تو سوشل میڈیا کا کام ہے جو اسکرین سے چمٹے رہنے والے(screen worms ) یہ اصطلاح ہم نے ابھی ابھی گھڑی ہےbook worm کے طرح کی! ہمارے بھائی بہن جو دن رات اس پر کام کر کے گو یا اپنے ماحول سے بیگانہ نظر آ تے ہیں مگر وہ اپنی updates کے ذریعے تاریخ رقم کرنےوالوں کو کس طرح دنیا کے سامنے لا رہے ہیں ۔ لگتا ہے مئو رخ کا کردار اد اکر رہے ہیں!

 

تاریخ کے کسی بھی اندوہنا ک واقعے کی تفصیل پڑ ھتے ہوئے بڑی شدت سے خیال آتا ہے کہ کاش ہم اس وقت ہوتے تو یوں کرتے مگر آج اپنے سامنے ہونے والے واقعات پربے بسی محسوس کر تے ہیںہاں !البتہ اللہ کاشکر ہے کہ اجتماعیت سے جڑے رہنے کی وجہ سے ڈپریشن اور غفلت دونوں ہی امراض سے بچے رہتے ہیں ۔چنانچہ فورا اپنے دائرہ کار میں کام شروع کر دیتے ہیں ۔ اسی لئے تو بات صرف دعائوںاور آ نسوئں تک نہ رہی اور ہر رسائی تک اس واقعے پر احتجاج بمعہ مطالبات درج کرواتے رہے۔ سب سے بڑا نام نہاد ادارہ اقوام متحدہ جس بری طرح expose ہوا اسکی مثال نہیں ! اس کی ویب سائٹ پر جب شکایت درج کروائی تو محض پانچ سو افراد کی شہادت کی خبر نظر آئی ۔تکلف کی انتہا دیکھئے!!حالانکہ پہلی خبر ہمارے پاس 2600شہادتوں کی تھی جس وقت بان کی مون پاکستان میں یوم آزادی کے فنکشن میںشریک تھے۔ اس کی کارکردگی اس کے سر براہ کے چنائو کے معیار سے ظاہر ہے ! ضعف بصارت اور سماعت کے ساتھ ساتھ تمام حسیات سے عاری ہو۔ قائل ہونا پڑ تا ہے موصوف کے ٹیلنٹڈ ہونے کا !وجہ صاف ہے کہ آج تک کوئی مقدمہ انصاف نہ پاسکا ۔باقی دنیا کو تو سانپ سا سونگھ گیا ہے ! مگر نہیں راہ حق کے مسافر اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں ۔اس وقت کھوئی ہوئی یا سوئی ہوئی امت کو بیدار کر رہے ہیں۔

 

دنیا کے ہر گوشے میں مظاہرے ہورہے ہیں ۔ذرا اس اربعہ کے نشان کو دیکھئے! سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے مقبولیت کے! اسے سبو تاژ کر نے کے لئے کفارکے ایجنٹ بھی سر گرم عمل ہیں ۔بڑی دور دورکی کو ڑیاں لائی جا رہی ہیں مگر اس قافلے کو تو ان شاء اللہ رواں دواں ہی ہونا ہے!

 

بات ہورہی تھی میدان رابعہ کے شہداء کی جو اپنے خون سے تاریخ کو دہرارہے تھے۔ ان کے مصائب محض40 یا 80سال پرانے نہیں ان کا شجرہ تو اصحاب الاخدود سے ملتا ہے!حضرت خبیب ؓ سے ملتا ہے! آل یاسر ؓ سے ملتاہے! اس قبیلے کے لوگوں کو اللہ چن لیتاہے۔ اور یہ اہل مصر جو رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں ان کا کیا کہنا ؟موجودہ دور میں ان کی استقامت اور صبر مثالی ہیں ! شہید حجاب المروہ الشر بینی کا تعلق بھی تو اسی سر زمین سے تھاجو ایک روشن مثال چھوڑگئی ہے اپنے خون سے!

 

سال کے شروع کی بات ہے بھائی سے گر میوں کی چھٹیوں کے پروگرام پر با ت ہو رہی تھی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا ’’ اب تو مصر میں تم لوگوں (اخوانیوں کی ) حکومت ہے ! وہاں کی سیر کاپروگرام بنا سکتے ہیں۔۔۔‘‘ اور ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا ! ابا جان کے پاس ایک صاحب آیا کرتے تھے جن کے متعلق انہوں نے بتا یا تھا کہ یہ اپنے ملک مصر نہیں جاسکتے کیونکہ اخوانیوں پر پا بندی ہے۔۔۔بعد میں ان کی فیملی سے بھی بہت اچھے  تعلقات ہوگئے تھے مگر وقت کی گرد میں سب گم ہو گئے اور میں نے سوچا کہ انکل جواد بھی اپنے ملک لوٹ گئے ہوں شاید!!

 

چند روز قبل رابعہ کے میدان میں خیمہ زن افراد کے بارے میں ایک مسکراتی ویڈیو دیکھی ( جو اس کریک ڈائون سے بہت پہلے بنائی اور upload کی گئی تھی۔ یہ خون میں نہائی ہوئی موجودہ ویڈیوز اور تصاویر سے قطعا مختلف تھی۔ جی ہاں ! امید اور مسکراہٹوں کا مجموعہ! فتح مندی کے نشے سے سر شار ،فتح کا نشان بلند کرتے ،کسی کے ہاتھوں میں جھاڑو ہے تو کوئی اسٹھیسکوپ لئے ہوئے! کسی نے بھٹے کا ٹھیلہ لگا یا ہوا ہے تو کچھ لوگ تربوزکھلا رہے ہیں !ہر عمر اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے! سب روشن چہرے اب کہاں ہوں گے ؟؟ یہ گنگناتی ویڈیو بھی ہمیں افسردہ کرگئی ان لوگوں کا انجام سوچ کر!! کیا یہ لوگ بے وقوف ہیں ! نادان اور جذ باتی!جو عورتوں بچوں اور بوڑھوں کمزوروں کو بھی میدان میں لے آ ئے؟؟یہ بات کہنے والے قافلہ حسین کو بھول جاتے ہیں ! وہ بھی تو آمرانہ ملوکیت کے خلاف جہاد تھا ! اور آج بھی یہ ہی معرکہ ہے!!

 

پرانی بات ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک مصری فیملی آ کر ٹھہری۔ انکل منعم اور ان کی بیگم! ان کی چار بیٹیاں اور بیٹا مصطفیٰ تھے ۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہم تین بہن بھائیوں کی ان سے بہت دوستی ہو گئی۔ چمکتی آ نکھوں والا شریر سامصطفٰی اور جہد( بیٹی) جب چھٹیوں میں آتے تو رونق دوبالا ہوجاتی۔ قسم قسم کے کھانے اور تفریح کرنے کو ملتی! انکل کی اچانک موت سے وہ سب اس افرا تفری میں واپس گئے کہ ہم ایک دوسرے کو روایتی طور پر رخصت نہ کر سکے !جب بھی مصر کی بات ہوتی مجھے طنطا کا یہ خاندان بہت یاد آ تا ہے! میرے بچپن کی خوشگوار یادوں کا ایک باب! ام مصطفٰی اور ان کا خاندان کہاں اور کیسے ہو ں گے؟ میں اپنی سوچ کو روک نہیں سکتی!

 

مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔شوق شوق میں آ نٹی نے جہد کے لئے شلوار قمیض سلوائی( وہ لوگ تو میکسی نما لباس پہنتے تھے) تووہ کچھ تنگ ہو گئی! آ نٹی با بار اس کو چھو کر خسارہ ! خسارہ! کہتیں۔ اس وقت ہمیں اس لفظ کی ایک نئی جہت سمجھ آ ئی کہ ہر قسم کے بڑے چھوٹے نقصا ن کے لئے یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے ورنہ اس سے پہلے تو ہمارے سامنے جو مفہوم تھا کہ تجارت میں خسارہ ہوتا ہے بس! بعد میں سورہ عصر کی تشریح نے اس لفظ کا درست اور مکمل فہم دیا۔

 

اب میدان رابعہ کے بعد ابتلا کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے ! لوگ اسے اخوانیوں کی حماقت اور نقصان کہہ رہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ خسارے میں تو تمام انسان ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ۔۔۔ ذرا سورۃالعصرکو ذہن میں تازہ کر لیں ! کیا ہم اب بھی کہیں گے کہ اخوان اور میدان رابعہ والے خسارے میں ہیں ! جی نہیں صرف وہی تو خسارے سے محفوظ ہیں !!!

فیس بک تبصرے

خسارے میں کون؟“ ایک تبصرہ

  1. الله غایتنا ….. الرسول قدوتنا…… القرآن دستورنا…….. الجهاد سبيلنا …….. الموت فى سبيل الله أسمى أمانينا……….اخوان کا تو یہ اپنے خالق سے وعدہ ہے…………موت تو ان کو بھی آنا ہے جو آج چونا گچ محلات میں چھپے ہیں…………مصر کے منافقوں کو کوئی جا کے بتائے کہ اس زمین پہ کبھی فراعین بھی بسا کرتے تھے…………..اور وہ آج محض عبرت بہم پہنچاتے ہیں……….
    مصری فوج ،جعلی لبرل اور امریکیوں اسرائیلیوں کے پِلے منافق سیاستدان باطل کے ساتھ کھڑے ہیں ………اور وقت تو کھرے کو آسانی سے آسانی سے کھرا نہیں مانتا……کجا یہ کہ باطل کو ………
    حق پہ کھڑا اکیلا آدمی بھی مثل ایک لشکر کے ہوتا ہے………..چراغ تنہا جلتا ہے اور تاریکی کا سارا قبیلہ اُس کے آگے بھاگتا ہے……..
    موت ان کو نہیں آئی ، جو حق کی راہ میں ظالموں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں…………وہ تو اپنے قاتلوں کویہ کہہ کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے ہیں…………….
    تم نے ہماری دنیا خراب کی………….اور ہم نے تمہاری عاقبت………
    دل ہے کہ رات کے اس پہر قابو میں نہیں اور آنکھ تر ہے…………دامن میں کوئی عمل نہیں کہ غار والوں کی طرح حضور حق پیش کیا جائے……….
    بے بسی ہے اور …………………..دل گویا کسی کی مٹھی میں……….
    کل مصر کے بازار میں تیرا یوسف ارزاں تھا اور آج تیرے بندوں اور بندیوں کا خون ………………..مولا!!!
    اللہم انصر اخواننا فی مصر…………اللہم احفظ المسلمین…………اللہم اید المومنین………..اللہم اہلک الظالمین بالظالمین…………….نشکو ضعف قوتنا و قلۃ حیلتنا الیک………………یا ارحم الراحمین……………

Leave a Reply