کپڑے کی فریاد

cloth-fabricمیں کپڑا ہوں انسانی زندگی میں میری اہمیت اتنی ہی اہم ہے جتنی روٹی ہوا پانی اور روشنی کی ، جن کے بغیر زندہ نہیں رہا جا سکتا ۔ میری بے شما ر قسمیں ہیں باریک موٹا دبیز ریشمی کھردرا وغیرہ ۔ اور استعما لا ت بھی بے شمار ہیں کہیں میں لباس کی صورت میں ستر پو شی کے کام ٓاتا ہو ں ، کہیں مجھ کو آرا ئشی طور پر دیواروں ۔ کھڑ کیوں گرلز وغیر میں لٹکا یا جا تا ہے ۔ کہیں چا در کی صورت میں بستر پر بچھا یا جا تا ہے ۔ کہیں میت کے چہرے کو ڈ ھا نکا جا تا ہے ، یا پھر بھوک پڑتال و دیگر مطا لبات بھی لکھ کر آ ویزاں کیے جا تے ہیں علا وہ ازین چھو ٹے ۔ بڑے خوان پوش کی صورت میں ڈھا نپنے کے لیے استعمال کیا جا تا ہو ں اور اسپتا لو ں میں زخموں کو ڈھا نپنے اور بیکٹر یا ز سے حفا ظت کے طور پر بھی کام آتا ہوں ۔

 

غرض دیکھا جائے تو میرا بنیادی مقصد ڈھا نپنا ہے ۔ خوا وہ صرف محرم کے دنوں میں سینما کے ہو رڈنگز پر عریاںتصاویر ہی کیوں نہ ہو ۔باقی دنوں میں یہ تصاویر ماحول کو آلودہ کیے رہتی ہیں ۔ میرے استعمال کی بد صورتی اس وقت ظا ہر ہو تی ہے جب اس کے بنیادی مقصد ڈھا نپنے کو نظر انداذ کر دیا جائے ۔ جسم انسا نی پر تار تار کپڑے کبھی اچھے نہیں لگیں گے ۔ دیواروں پر بکھرے پھٹے پرانے پردے بد نما دیکھا ئی دینگے ، اسی طرح نا کا فی خوان پوش مکھی یا دوسرے جرا ثیم سے کھا نے کو محفو ظ نہیں رکھ پا ئے گا،  نا کافی لبا س ، نا کا فی چا در ڈھا نپنے میں نا کام رہے گی ۔ آج معا شرہ میرے ساتھ استحصال پر کمر بند ہے ۔ بے جان دیواروں ، صوفوں اور آ را ئشی اشیاء میں تو میرا بے مثال استعمال ہے ۔ تعداد لباس میں بھی میری گنتی بے شمار ہے لیکن ستر پوشی کے معا ملے میں مجھ کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے لباس کا مقصد ستر پوشی اور جسم کو موسم کی سختی و گرمی سے محفوظ رکھنا تھا مگر اس سے قطع نظر کم سے کم و ناکافی لباس اب موجودہ دور میں جدیدیت کا با عث سمجھا جا نے لگا ہے۔

 

روشن خیا لی اور جدیدیت کی آ ڑ میں عریا نی و فحا شی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سر پر ایک گز کا ٹکڑا بھی اب خوف کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ اسکا رف کی صورت میں مجھ سے سر ڈھا نپنے وا لو ں کے خلا ف گمرا ہ کن پرو پیگنڈا کر کے گو یا میرے خلاف محا ذ کھڑا کر دیا گیا ہے۔  نہ جانے سر ڈھا نپنے میں مجھ سے کیا خوف پیدا ہوا ہے کہ مخالف قوتیں متحد و سرگرم ہو گئی ہیں اور مغرب زدہ معا شرے کو فروغ دینے کے لیے مجھ کو حجاب کی صورت میں استعمال کرنے والوں پر دقیا نو سیت کا لیبل لگا دیا ہے اور تعلیمی و دیگر اداروں میں حجاب استعمال کرنے والی مسلم طالبات کو ان  اداروں سے بے دخل کرنے کی ساز شیں کیں جا رہیں ہیں ٓآخر کیوں ۔  میں فریا د کنا  ہوں کہ میرے آزا دانہ استعمال پر پابندی کیوں لگا ئی جا رہی ہے؟  لوگ اپنے سامان ، کپڑے ، زیور ، قیمتی متاع کی حفا ظت کرتے ہیں ۔ تالے لگا تے ہیں ، دولت بنکوں میں رکھتے ہیں ، گھر پر چو کیدا روں اور کتوں کا بندو بست کرتے ہیں تو اگر میں عورت کی عصت و عفت کی حفا ظت جو  ہر عورت کے لیے قیمتی متا ع ہے حجاب کی صورت میں کر رہا ہوں ،تو مجھ پر بنیاد پرستی کا الزام عا ئد کر کے پا بندیا ں کیو ں ؟

 

میری وجہ سے اب معصوم طالبات کو تعلیمی اداروں سے نکا لا جانے لگا ہے ، مجھ کو اب ترقی میں رکاوٹ سمجھا جانے لگا ہے ،  ملازمتوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے حالا نکہ تاریخ شاہد ہے کہ میں عورت کی ترقی و تعلیم میں رکا وٹ نہیں بلکہ یہ میں ہی ہوں جس نے عورت کو معا شرے میں با عزت مقام بخشا ہے ، اپنے ارد گرد نظر دو ڑائیں تو چہا ر جا نب با حجا ب ڈاکٹرز ، ریسرچ اسکالرز ، انجینیرز ، وکلاء ، پرو فیسرز، غرض ہر شعبہ زندگی سے وا بستہ خاتون پردے کے مضبوط قلعے میں اپنے فرا ئض کما حقہ ادا کر ہی ہیں اور مردوں کی ہوسنا کی سے محفوظ ہیں ۔ آج امریکہ میں عورت اس حد تک عدم تحفظ کا شکا ر ہو چکی ہے کی اب وہ خود پردے و حجاب کی خوا ہا ں ہے تاکہ اس طرح مردوں کی ہوسنا ک نگا ہوں اور جنسی تشدد سے بچ سکے ۔ دو سال سے لے کر پچیاسی سال کی عورت امریکہ میں جنسی تشدد کا شکار ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں نو مسلم خواتین کی تحریک freedom in hijab شروع ہو چکی ہے ۔ غرض پردہ و حجاب اسلام کا شعار ہے ، عورت کے تقوی و شرم و حیاء کی علا مت ہے ، عورت کے احترام کی چا در ہو اور کپڑا ہونے کے ناطے میں نسلوں کی امین عورت کو معا شرے کی ہوسنا کی سے بچانے میں میں عورت کی عزت و عصمت کا محا فظ ہوں تو کیا اب بھی میرے ساتھ امتیا زی سلوک برتا جا ئے گا؟؟؟

فیس بک تبصرے

کپڑے کی فریاد“ ایک تبصرہ

  1. طاغوت کو اسلامی نظام قابل قبول نہیں ہے!

Leave a Reply