لاہور میں ایک دل خراش واقعہ جو رپورٹ ہوگیا‘ ایک معصوم کلی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا نہ جانے کتنی سنبل درندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں جو رپورٹ تک نہیں ہوپاتیں۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے واقعات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ درندوں کے لیے چھوٹے بچے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ یہ کیس بھی میڈیا کے لیے ٹرائل کیس تھا۔ میڈیا نے اس پر مہم چلائی اور ملزمان گرفتار کرلیے گئے۔ اور اب پانچوں مجرموں کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ میڈیا نے کیس کو اچھالا‘ قانون نے اپنا حق ادا کیا‘ مجرموں کو سزا ہوگئی۔ لیکن کیا واقعات رک گئے؟
دہلی میں اجتماعی زیادتی کے کیس کے بعد بھارت میں اجتماعی زیادتی کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس جرم کے بڑھتے رجحان نے بھارت کو بھی پریشان کردیا ہے یہی حالات پاکستان میں بھی ہیں جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ کا شور اینکر پرسن‘ سیاست دان‘ انسانی حقوق کی علمبردار اور قانون دان کررہے ہیں لیکن کوئی بھی ان واقعات کی وجوہات پر بات نہیں کررہا۔ دہلی کے اس کیس سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ میڈیا ان واقعات کا سدباب تو نہ کرسکا بلکہ ایسے کئی اور واقعات کامحرک ثابت ہوا ہے اور اس بات کو بھی واضح کردیا ہے کہ قانون اس کا حل پیش نہیں کرسکتا بلکہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اس کا حل بھی سماجی ماہرین ہی پیش کرسکتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان اور بھارت میں ٹی وی چینل‘ موبائل فون‘ انٹرنیٹ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے۔ مواصلات کے یہ ذرائع پوری آب و تاب کے ساتھ فحاشی و عریانی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ٹی وی ڈراما ہوں یا ٹی وی کمرشل‘ کرکٹ میچ ہو یا نیوز بلیٹن‘ گھنٹہ آفر‘ SMS بنڈل‘ فحش ویب سائٹس اور فلمیں میڈیا کا بغور جائزہ لیں تو معاشرے کی اصلاح کے لیے ان کا کردار نظر نہیں آتا بلکہ موجود حالات میں جتنے بھی معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں اس کے بڑھانے میں میڈیا کاکردار ہی نظر آتا ہے۔
دونوں ممالک کا میڈیا مغربی میڈیا کا چربہ کرتا ہے‘ وہاں پر معاشرے میں پھیلی بے حیائی‘ عریانی و فحاشی کو ہمارے معاشرے کے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کرتا ہے۔ مغرب میں فحاشی و عریانی کا موجد میڈیا نہیں ہے بلکہ میڈیا کی مقبولیت سے قبل ہی وہاں کے معاشرے میں فحاشی و عریانی اور بے حیائی عام تھی‘ خاندانی نظام تباہ ہوچکا تھا‘ وہاں کی ثقافت‘ روایات دم توڑ چکی تھی‘ قحبہ خانے عام تھے‘ ناجائز اولاد کو قانونی حیثیت مل چکی تھی‘ جنسی تعلقات قائم کرنا انتہائی آسان ہوچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میڈیا کو ایسے طبقے کو متوجہ کرنے کے لیے عریانی و فحاشی کو بطور مارکیٹنگ استعمال کرنا پڑا جو ان کے معاشرے میں عام تھی‘ مغربی میڈیا میں فحاشی و عریانی کو وہاں کے معاشرے نے باآسانی قبول کرلیا جو ان کے لیے قابل اعتراض بات نہیں تھی۔
لیکن ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے۔
ایک طرف ہمارے معاشرے میں آج بھی روایات زندہ ہیں‘ رسم و رواج کی پابندی کی جاتی ہے‘ ثقافت سے لگائو ہے‘ مذہب کے لیے آج بھی عقیدت موجود ہے‘ برادری سسٹم انتہائی مضبوط ہے‘ خاندانی نظام کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے جب کہ دوسری طرف ہمارا میڈیا مغربی میڈیا کو کاپی کرتے ہوئے ان کے معاشرے کو ہمارے لیے ماڈل بنا کر پیش کررہا ہے۔ ہمارے ڈرامے‘ فلمیں‘ خبریں‘ اشتہارات‘ گھنٹہ آفر‘ SMS بنڈل‘ رسائل و جرائد سب ہمارے معاشرے میں مغربی سفیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور وہان پر پھیلی بے حیائی کو یہاں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا کی اس مسلسل کوشش نے ہمارے معاشرے میں ثقافتی خلش (Cultural Lag) پیدا کردی ہے۔ نوجوانوں کو بے حیائی کی جانب تو راغب کیا جاہا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں قائم ہماری ثقافت‘ برادری نظام‘ خاندانی نظام‘ مذہب‘ روایات اس بے حیائی کو تسلیم نہیں کرپاتی۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی گرل فرینڈ کا تصور بہت برا سمجھا جاتا ہے‘ قحبہ خانے‘ نائٹ کلب‘ ناجائز رشتے کو آج بھی تسلیم نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ نوجوان جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی جنسی تسکین کی خاطر درندگی اختیار کرتے ہیں‘ کبھی نوجوان لڑکیاں ان کا شکار ہوتی ہیں اور کبھی معصوم کلیاں۔
ان تمام واقعات کی ذمہ داری دیگر سماجی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ میڈیا آج لیڈنگ رول ادا کررہا ہے اگر میڈیا واقعی مخلص ہے تو اسے اپنے قبلے کا تعین کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے کو مغربی معاشرے میں ڈھالنے کی کوششیں جاری رہیں تو اس طرح کئی کلیاں مسلتی رہیں گی اور ٹاک شو چلتے رہیں گے‘ ریٹنگ بھی بڑھتی رہے گی۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
Bohat khoob ….
جزک اللہ
آپ کی تحریر کا تیسرا بند سو فیصد درت ہے اور معاشرے میں بگاڑ میں اس کا اہم کردار ہے