حسنہ نے رجسٹرمیں نام کے آگے دستخط کیے۔واک تھرو گیٹ سے گذر کرلفٹ میں داخل ہوئی تیسری منزل کا بٹن دبا یا۔
’’ حوا بوتیک اور سیلون‘‘ کے عین آگے دروازہ کھلا۔ نکلتے ہی مہین چادر اتاری، قدِآدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھا اور خود ہی نثار ہوگئی۔ ڈیزائنرلان ، سات گز کی ٹخنوں تک آتی لمبے چاک کی بے آستین قمیص، پرنٹ میں موجود پھولوں کے رنگ کادو انچی پینل لباس کی بے محابا لمبائی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آستینوں کے اڑنے کی وجہ بیان کر رہے تھے۔ اوپری حصہ میں نیٹ کا استعمال بغیر استر اور گریبان کا گہری قطع۔۔۔ بالوں میں لگا کیچرکھینچا ،پرس میں رکھا۔ چہرے کو دونوں جانب سے چومتی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑسا، کم گھیر کا آف وائٹ چوڑی دار پاجامہ۔۔۔ جسم پر دوگنا کپڑا ہونے کے باوجود معمولی سی حرکت پرہر عضو کی ساخت نمایاں ہوتی۔شیفون کا دوپٹہ دائیں کندھے پر رکھتے رکھتے بائیں سے پھسل جاتا ،تکلف سے ھینگر میں لٹکایا۔ سائیڈ میں رکھے ریک کے نزدیک جھک کے جوتے اتارے توشفاف آئینے میں جھلملاتا اپنا عکس پرایا لگا۔
وہ اس سے پہلے بھی ایک بوتیک میں سیلز گرل کا کام کرچکی تھی۔مگر وہاں سٹاف بھی مخلوط اور کسٹمر زبھی۔۔۔۹ سے ۳ تک اوقات میں کتنے لمحات ایسے آتے کہ ہاتھ بڑھانے ، پائوںپھیلانے کی ضرورت ہوتی مگرخود کو سنبھالنا پڑتا ۔ سپر وائزر طلعت کی سخت گیر طبیعت کے باعث آزاد اختلاط کے مواقع میسر نہ آتے اورلباس اور زبان کا استعمال بھی معیاری کرنا پڑتا۔ اس کے بر عکس یہاں شاپنگ مال کا بڑا حصہ خواتین کے لیے مخصوص تھا، لہٰذا ارد گرد ساری خواتین بے حجاب رہتی، بلا جھجھک انتہائی لچر گفتگو سننے میں آتی ، غیر ساتر لباس پر ندامت کاشائبہ تک نہ ہوتا ۔ ’’ عورتوں کے درمیان کیسی شرم؟؟‘‘گاہک خواتین کو بار بار دہرائی جاتی۔ یوں حسنہ صحبت میں ڈھلتی چلی گئی۔ برقعے ،عبائے کے کائونٹر پر کھڑے ہونے کے باوجود اس کالباس گھریلو ماحول سے ہم آہنگ ہوتا ،نہ آگے پیچھے دائیں بائیں جھولتے رنگ برنگے حجاب ،سکارف، چادروں ،دوپٹوں سے۔۔۔ موبائل پر پیغام کی سریلی گھنٹی نے اس کا انہماک توڑا،صائمہ نے آج مال میں کسی پارٹی کیے لئے با رہ بجے آنے کی اطلاع دی تھی ’ بہت سی لڑکیاں ہوں گی ‘ پھرعائشہ،طاہرہ کا۔۔۔ مختلف پیغامات تو اس پہلے بھی آتے رہے مگر آج کا کچھ چونکادینے والا لگا۔یومِ حجاب کے حوالے سے، اس نے اپنے ساتھ کھڑی بیناسے پوچھا اسے بھی کچھ خاص معلوم نہیں تھا،پھر باتوں کا رخ صائمہ ، عائشہ ، طاہرہ کی طرف مڑ گیا۔ ’پانچویں کلاس سے جودوستی ہوئی تو آج تک ہے بناء کسی لڑائی کے ،میٹرک کے بعد انٹر بھی ایک کالج سے ہوا۔پھر طاہر ہ نے بی ایڈ اورصائمہ ،عائشہ جامعہ کا رخ کیا، مگراسے توروز گار کی ضرورت بھی تھی اور شوق اس سے بڑھ کر جووہ یہاں کھڑی تھی۔گھر میں ثمرہ آپی محلے کے سارے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ،ابو ملازمت سے فراغت کے بعد کبھی جز وقتی کام کرلیتے ۔امی سونے کا نوالہ کھلانے اور شیر کی نگاہ سے دیکھنے والی تھیں مگر سال دوسال پہلے آنکھوں میں اترنے والے موتیا کا آپریشن جو ہواتو کامیاب نہ رہا، شوگر کی وجہ سے رہی سہی بینائی بھی چلی گئی ۔ چھوٹا بھائی عاطف کیڈٹ کالج سے انٹر کے بعد فوج میں کمیشن کا ارادہ رکھتا تھا۔اف ! جب گھر آتاکتنی چوٹیں چلتی ۔
وہ برقعوں کو ترتیب سے رکھ رہی تھی، سب خواتین حلیوں سے بے پرواہ سامان کی جانچ پڑتال میں مصروف تھیں کہ اچانک لفٹ سے تین دبلے پتلے لڑکے پستول لہراتے بے ہوش چوکی دارکو لئے نمودار ہوئے،غالباََ اس نے مزاحمت کی ہوگی۔ پوری منزل کی خواتین تھرتھرانے لگیں کہ سرخ آنکھوں والا لڑکا چلایا ۔
’’ کوئی چالاکی نہیں ، سب اپنے موبائل ، پرس اپنے آگے زمین پر ڈال دو ‘‘
پورے فلور پر سناٹا چھاگیااورفوراََ مطلوبہ چیزوں کا ڈھیر لگ گیا۔مگر سیما جسے ابھی مال میں آئے دو ہفتے ہوئے تھے سسک پڑی ۔نا جانے پیچھے سے کس نے اسے تسلی دی اور ڈاکو کا لفظ استعمال کیا۔بس پھر کیا تھا۔ تینوں نے اپنی پوزیشن سے بے پروا ہوکر فلک شگاف قہقہے مارے زہر خند ہنسی رکی تو ایک گرجا ۔
’’ ارے ہمیں ڈاکو بولتے شرم نہیں آئی، ہم تو جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ،مال لوٹتے ہیں، وہ بھی صرف مجبوری میں ۔۔۔ اپنے اوپر نظر ڈالو کتنوں کے سکون قرار چھینے؟کتنوں کے ایمان غارت کیے؟ ؟ ان کی نظریں جسموں سے آر پار ہونے لگیں ۔چھپا تی کس سے ؟سروں اور سینوں کے بجائے دوپٹے ، چادریں ہینگروں کی زینت تھے ۔ساری توانائیاں تو اس قیامت خیز لمحہ سے پہلے تک سب کچھ عیاں کرنے میں خرچ ہوئی تھیں !
کسی موبائل پر ’’میں ہوںڈان ‘‘ کی گھنٹی بجی کہ واردات کروانے والے نے خبر لی ہوگی اور کرنے والے ہوش میں آگئے۔
آناََ فاناََ غائب ہوئے کہ گدھے کے سر سے سینگ ،خواتین کا سکتہ ختم ہوا تو سب اپنے دوپٹوں کی جانب دوڑیں ۔ کچھ نے توعبایے اپنے اوپر ڈال لئے۔ لمحوں میں خواتین کی زبان کھل گئی ،بینا ساتھ ساتھ ڈاکوئوں کو کوس رہی تھی ارد گرد اور بہت کچھ ہورہا تھا۔مگرحسنہ کہاں تھی؟آج اگر اسے گھر کے دروازہ سے نکلتے دیکھ کر ثمرہ آپی نے آیۃالکرسی پڑھ کر نہ پھونکی ہوتی تو؟ اس نے آئینے میں عکس دیکھا اور نظریں چرالیں ، سائیں سائیں کرتے دماغ میں وہی کاٹ دار فقرے گونجے ،نظریں گڑنے لگیں ،آنسو گالوں پر بہہ نکلے۔بے اختیار ہینگر کی طرف بڑھی۔
اچانک لفٹ آ کر رکی اور صائمہ، عائشہ،طاہرہ سمیت کئی طالبات پورے فلور پر پھیل گئیں ۔ صائمہ جو اس سے پہلے بھی یہاں آچکی تھی حیران نظروں سے سب کو دیکھا ۔ باحجاب حسنہ سے تینوں لپٹ گئیں۔
’’ بہت خوب آپ لوگ یوم ِحجاب منارہے ہیں،ہم یہاں مزید آگہی کے لئے آئے ہیں ‘‘ ملٹی میڈیا پھرتی سے لگایا ، دنیا بھر سے مشہور خواتین کے تاثرات لئے جارہے تھے جنھوں نے شعور کے ساتھ حجاب اختیار کیا تھا۔ اس کی خاطر کتنی آزمائشیں سہیں؟صبر وثبات کے کتنے گھونٹ نوش کیے؟مطمئن لہجے، باوقار حلیے دھیمے دھیمے اپنے سحر میں جکڑ رہاتھا۔ پھر آن لائن ایک پروفیسرخاتون کا لیکچر شروع ہوا۔ حجاب اور مسلمان عورت زیرِ بحث تھی،ایک حسنہ ہی کیا بے خبر عورتیں محو سنے گئیں ۔
’’حجاب گناہ کی اکساہٹ سے بچنے کی کوشش ہے،حجاب علامت ہے ایمان سلامت ہونے کی۔۔۔ حجاب مسلمان عورت کی شناخت ہے، عزت کا نشان ہے۔ مروہ الشربینی نے اپنی جان حجاب پر قربان کرکے نہ صرف جرآت مندی کی مثال قائم کی ہے بلکہ مسلم خواتین کو ان کا حق یاد دلایا ہے جو ان کو خالق و مالک نے عطاکیا ہے۔‘‘ پر جوش طالبات نعرہ زن ہوئیں ۔ شہید ہ حجاب مروہ الشربینی زندہ باد!
بہت اچھی منظر کشی کی ہے۔ بے حجابی ایک معاشرتی دباو کی وجہ سے عام ہوئی ہے اور اسے حجاب کی یاد دہانی کروا کے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ حجا ب ڈے زندہ باد!