حجاب جو مسلم معاشرے کی تہذیب کا عکاس ہی نہیں مسلم عورت کی وجہ امتیاز بھی ہے۔اسلام ایک روایتی مذہب نہیں ایک مکمل دین کی شکل اور جامع نظام زندگی ہے جو عقیدے ،عبادات ،انفرادی اخلاق ،اجتماعی نظام زندگی ہے۔قانون ،عدالت،پارلیمنٹ،منبرومحراب دعوت وتبلیغ اور ان کے زیر اثر وجود میں نے والی عالم گیر روایات سے بھی عبارت ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کا بغور جائزہ لیں نو نظرآتاہے کہ پاکستان میں مسلم معاشرہ اپنی اصل پہچان کھوتا جارہا ہے اور بنیادی اسلامی معاشرہ کی بجائے ہم مخلوط معاشرے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔اس مخلوط معاشرہ میں اسلام اور جاہلیت میں کشمکش نظرتی ہے۔ہماری تہذیبی روایات کی روشن قندیلیں بھجتی نظر آتی ہیں اور ان کی جگہ مغربی تہذیب وثقافت کی یلغا ر کے ساتھ ساتھ ہندوانہ تہذیب کے اثرات نمایاں ہورہے ہیں۔لیکن اسی صورت حال سے اہل دل اور درد دل رکھنے والے لوگ نہ صرف پریشان ہیں بلکہ فکر وآگہی کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے ساتھ وہ اسی تہذیبی یلغار کو روکنے کیلئے عملی پیش رفت بھی کرتے نظر آئے ہیں کیونکہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب مسلمانوں اور اسلام کی علامات کونشانہ تضحیک بنایاجارہاتھا۔تو اس وقت میڈیا نے بڑا معتصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے خاص طور پر حجاب کو نشانہ بنایا اور مسلم عورت کے اس شعار کو بد نام کرنے کی کوشش کی اور فرانس جیسے ملک میں جسے آزادی فنون اور آزادی اظہار رائے کا چیمئین سمجھا جاتا تھا۔وہاں پر سب سے زیادہ معتصبانہ رویہ اختیار کیاگیاجس سے مسلمان غمزدہ ہی نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے اس رویے کے خلاف خود کو منظم کرنے کا بندوبست کیا۔فرانس میں حجاب کے خلاف قانون سازی کی گئی ۔محترمہ مروہ اثر بینی جرمنی میں حجاب کے جرم میں شہید کی گئی اور فرانس میں اس پابندی کے خلاف ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا۔یورپی ممالک کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی ۔توعالمی اسلامی تحریکوں کے رہنما علامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں یہ طے کیاگیا کہ فرانس میں حجاب کی پابندی قانون کے خلاف آئندہ 4ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب کے طور پر منایاجائے گا۔چونکہ یہ قانون ستمبر 2003ء میں پاس کیاگیا تھا۔
4ستمبر کا دن پوری دنیا میں یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے یہ دن اسلامی تہذیب وثقافت کو اجاگر کرنے کا دن ہے ۔یہ دن خواتین اسلام کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کی خواتین کیلئے پیغام امن وآتشی کی نوید سناتاہے کیونکہ یہ حجاب اب مسلمان عورت کی آزادی کی علامت بن کر ابھرا ہے ۔ یہ ہمارا فخر، ہمارا وقار، ہمارا افتخاراورہماری زینت بن گیاہے اور سب سے بڑی بات کہ اس کا حکم اس آسمانی کتاب میں موجود ہے جسے قرآن کہتے ہیں اور اس حکم کو اختیار کر کے ایک مسلم عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور یہ پاکیزہ معاشرے کی علامت کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب، ثقافت روایات کا علمبردار بھی ہے۔
آج آزادی نسواں کی تحریک نے نہ صرف خاندانی نظام کو تباہ وبربا دکردیاہے۔بلکہ اسے مادہ پرستی اور اخلاق وکردار کے زوال کی طرف دھکیل دیاہے۔ عورت جسکو چھپا کر رکھنے کا حکم دیاگیاہے اسے دفتروں اور بازاروں کی زینت بنادیاگیاہے۔ٹی وی چینل سے لے کر میڈیا کا کوئی پروگرام، ٹاک شو، اشتہار، عورت کے بغیر ادھوراہے ۔عورت کو خریدو فروخت کا ذریعہ بنانے والی تہذیب میڈیا کے ذریعے باحیا خواتین کو بھی ایسے ایسے طریقے سکھارہے ہیں کہ وہ مادہ پرستی اور فیشن پرستی کی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش مصروف ہیں۔اخلاق سوز مناظر، حیاء سوز پروگرامات، ایسے ایسے ڈائیلاگ کے الحفیظ اورالایمان تہذیبی یلغار اور مادہ پرستی کی اس دوڑ میں مسلم معاشرے سے اس کی پہچان کو چھین لیاہے۔عورت جس کو مصلحتوں کی بناء پر اسلام نے حجابِ شرعی میں رکھاہے ا س میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم ازکم وہ سینہ نور ایمانی سے روشن رہے جس کی گود میں مسلمان بچہ پروان چڑھنا ہے ۔کم ازکم اس گھر میں وہ خالص اسلامی فضا رہے جس میں مسلمان نسل نے اپنی ابتدائی منزلیں طے کرنی ہے اور حیا کا پرچار اسلامی معاشرے اورتہذیب کی بنیادوں میں شامل ہے۔
2013ء کے 4ستمبر یعنی حجاب کے دن کو مناتے ہوئے ہمیں اخوان المسلمون ،شام،بنگلہ دیش ،پاکستان اور پوری دنیا کی ان تمام باحجاب خواتین کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اپنے حجاب کیلئے اور اسلام کے اس شعار کے لئے کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔اس وقت اخوان المسلمون کی مجاہد بہنیں جو کہ استقامت کی تصویر بنی اپنے بھائیوں ،اپنے بیٹوں،اپنے بچوں اوراپنے باپوں کے ساتھ اڑھائی مہینے سے جمہوریت کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتی ،اپنے خون کو بہاتی ،اپنے بھائیوں اور بیٹوںکو قربان کرتی اوران کی شہادتوں پر سجدہ شکر کرتی نظر آرہی ہے ۔حجاب کے اسی اسلامی شعار کو انہوں نے اپنے چہروں پر سجایاہواہے ۔
یہ سب اسی تہذیب اور اسی مسلم معاشرے کے قیام کی عملی جدوجہد ہے جس کا حکم اﷲ رب العالمین نے ہم مسلم خواتین کو دیاہے ۔ آج ہم ان کی اس استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں اور ۴ ستمبر کے دن کو میدان رابعہ کی ان بہنوں کے نام کرتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کی آبیاری کیلئے اپنا خون بہایااور بیش قیمت قربانی دی۔رابعہ کا لفظ یعنی چار اور یہ 4ستمبر یوم حجاب ہے ۔یہ اس انقلاب کی نوید ہے جو مسلم دنیا اور امت مسلمہ کے اتحاد کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔اور یہ دنیا اﷲ کے نور سے جگمگائے گی کیونکہ اﷲ کے نور کو پھیلنا ہے اور کفر اس دنیا سے تلملاتا ہوارخصت ہو جائے گا۔
حیاء کی تہذیب ہماری پہچان ہے اسے عام کرناہوگا ،معاشرے کی ہیت کو اسلامی قوانین اور قانون الہی کے مطابق ڈالنا ہو گا۔اور نبی اکرم ﷺ نے جو حقوق مسلم معاشر ے میں رہنے والی عورت کو ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہرعورت کو دئیے ہیں اسکی آگاہی پوری دنیا کی عورتوں کو دینی ہو گی۔ عورت کو اﷲ تعالٰی نے فطری طور پر شرم وحیاء کا پیکر بنایاہے ۔ اسے حجاب کے بیش قیمت تحفے سے نوازاہے ۔بے حجابی کے جو منفی اثرات معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں اور ہماری نسل کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل رہے ہیں اس سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔کیونکہ رب کائنات نے قرآن کا جونظام پیش کیاہے اور اﷲ کے نبیﷺ نے مدینہ کی اسلامی ریاست میں اس نظام کو نافذ کرکے دکھایا، ہمیں اسی نظام کی ضرورت ہے ۔اسی سیاست کی ، اسی نظام حکمرانی کی ضرورت ہے ۔
اور آج امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل قرآن کے عملی نظام میں محفوظ ہے ۔
بقول علامہ اقبال:۔
اک زندہ حقیت میرے سینہ میں ہے مستور
کیا سمجھے گاوہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبا ن ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
بالکل ٹھیک کہا ۤ پ نے! اگر مکمل دین اپنا یا جا ئے تو معاشرہ سکون اور عافیت میں خؤد بخود ۤ جا ئے گا۔ ایک بے پر دگی کتنے جرائم کا سب بنتی ہے ۔ اس کے لئے انڈیا کی مثال سب سے بڑی ہے۔