حیا، شرف انسانیت

world-hijab-dayنانی جان اپنے زمانے کے واقعات بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کرتیں ،تین عشرے قبل وہ رحلت کر گئیں۔ انکے ساتھ گزرا ہوا میرا وقت ماضی کی خوشگوار یادوں میں سے ہے۔۔۔ جب ہم بچے دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے اور یوں لگتا جیسے وہ قبل از مسیح کے واقعات سنا رہی ہوں ۔۔۔ جیسے آج کے بچوں کے لئے ہمارے بچپن کی باتیں انہونی ہوتی ہیں ۔۔۔

 

نانی جان کی گفتگو میں لفظ “زنان خانہ ” اور “مردان خانہ ” سن کر ہم محظوظ ہوتے تھے۔۔۔  اسکی وضاحت وہ یوں کرتی تھیں کہ اس وقت بڑے بڑے گھر ہوتے تھے اور عورتوں ،مردوں کی مخلوط بیٹھک کا کوئی تصور نہیں تھا۔۔۔ مردوں کے ڈرائنگ رومز الگ ہوتے تھے جو گھر کے بیرونی حصوں میں ہوتے تھے جنکے دروازے الگ ہوتے تھے اور خواتین کی بیٹھک گھر کے اندرونی حصوں میں ۔۔۔ الا یہ کہ اگر ایک گھر میں کئی بھائی بہنوں کی اولادیں بھی رہتی ہوں تو انکے مابین آزادانہ اختلاط یا گھومنے پھرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور اگر آپس میں ان اولادوں میں رشتوں ناطوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ماں باپ کڑی نگرانی کرنے لگتے کہ شادی سے قبل ایک کے قریب نہ آ پائیں۔ ایک بات توبہت عیاں تھی ان سب باتوں میں وہ یہ کہ اسوقت خاندانی نظام انتہائ مضبوط ،اہل سربراہ کی نگرانی اور اولاد انتہائ فرمانبردار ہوتی تھی ۔۔۔

 

پھر وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلتا جلا گیا۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد اس نصف صدی میں اقدار و روایات بہت تیزی سے تبدیل ہوئیں۔۔۔  نئی اصطلاحات ایجاد ہوئیں، مسلم سوسائٹی کو مغربی سانچوں میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔ مادہ پرستی کو فیشن کے طور پہ قبول کر لیا گیا۔۔۔ ہر وہ پختہ یا نیم پختہ تخیل جو مغرب سے آیا اسے زیر بحث لانا  ” روشن خیالی”  کا لازمہ سمجھا گیا حتی کہ فہم و تدبر کے بغیر اس پر سمعنا و اطعنا کہا گیا۔ آزادی کے باوجود ذہنی غلامی باقی رہ گئي جس جس چیز کو اسلام دشمنوں نے اعتراض کی نگاہ سے دیکھا مسلمانون کو بھی اس پہ شرم آنے لگی چاہے وہ جہاد ہو یا تعدد ازواج کا مسئلہ یا مسئلہ غلامی اور اسلام یا حجاب اور آرٹ و ثقافت کا میدان۔۔۔ یہی وہ دور ہے تاریخ کا جب “پردے ” کو متنازعہ بنایا گیا۔۔۔ “حیا ” اسلام میں ایک پسندیدہ صفت نہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے کا شعار ہے۔ ایک مسلمان ہمیشہ با حیا ہوتا ہے اسی لئے گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے حیا آرہی ہے۔

 

اب اگر سوال محض اتنا ہو کہ اسلام میں عورت کی آزادی کی حد کیا مقرر ہے؟؟؟ تو اسکا جواب کچھ بھی مشکل نہیں یا سوال یہ پیداہو کہ عورت چہرہ کھولے یا نہ کھولے تو یہ فقہا کی تعبیرات کی روشنی میں کوئی اختلافی مسئلہ ہی نہیں کیونکہ دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں لیکن معاملہ چہرہ کھولنے اور سر ڈھانپنے سے بہت آگے ہے۔ یورپ نے تو ہمارے خاندانی نظام۔۔۔ حرم۔۔۔ پردہ۔۔۔  نقاب ۔۔۔ ہر چیز کونفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ انکے دانشوروں اورلکھاریوں نے مسلمانو ں کے ان شعار کی نہایت نفرت انگیز تعبیریں کیں اور گویا یہ سب اسلام کے عیوب کی فہرست میں سرفہرست جگہ پا گئے۔حقیقت میں تو ہم بھی غالب قوم کے خوشنما تمدن سے مرعوب تھے اور مغرب میں خواتین کی زیب و آرائش اور سماجی سرگرمیوں کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی یہ تمنا پیداہوئی کہ اگر ہماری سوسائٹی بھی مخلوط ہو اور خواتین ایسی تمدن اختیار کریں تو ہم بھی ترقی کی دوڑ میں انکے شانہ بشانہ چل سکیں گے آزادی نسواں اور مساوات مردوزن اسی دورکی روشن خیال اصطلاحات ہیں۔

 

اگر بات اتنی سی ہے کہ  عورت چہرہ چھپائے کہ نہ چھپائے تو بعض آئمہ نے منہ کھولنے کی اجازت دی ہے عورت گھر سے باہر نکلے یا نہ نکلے ۔۔۔ یہ مسئلہ کبھی اسلامی سوسائٹی کا مسئلہ تھا ہی نہیں کیونکہ واضح احکام ہیں کہ ضرورت کےلئے عورتیں باہر جا سکتی ہیں ملازمت کر سکتی ہیں، اپنی صلاحیتوں سے سماج کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں، طب ہویا تعلیم یا تجارت کس شعبہ میں خواتین کے داخلے کو اسلام نے ناپسند کیا ہے؟؟؟ اسلامی تاریخ میں عورتوں نے میدان جنگ میں سپاہیوں کو پانی پلایا اور زخمیوں کی مرہم پٹی تک کی۔ اسلام کسی مادی ترقی کا مخالف نہیں البتہ وہ ایک “پاکیزہ ” اور صالح تمدن کی تعمیر چاہتاہے اسی لئیے اسلام اور مغرب کے تمدنی اصولوں اور نظام معاشرت میں اصولی اختلاف ہے۔ دونوں کے دائرہ عمل الگ الگ ہیں۔ آزادانہ اختلاط کی گنجائش نہیں۔ انسانی تہذیب کا آغاز اسوقت ہوا جب اسکے اندر شرم و حیا کا جذبہ بیدار ہوا اور آدم و حوا خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھانپنے لگے یہی معراج آدمیت ہے اور صفت حیا ہی اسے تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے۔

فیس بک تبصرے

حیا، شرف انسانیت“ پر 3 تبصرے

  1. نانی جان نے جو کہا بالکل درست کہا ۔ ہمارے بزرگوں نے ایک عمدہ نظام قائم کر رکھا تھا جس میں نقب لگانے کی کوششیں پاکستان بننے سے قبل ہی شروع ہو چکی تھیں ۔ میری منگنی 1965ء میں سگی خالہ کی بیٹی سے ہوئی ۔ شادی سوا دو سال بعد ہوئی ۔ اس دوران میرا خالہ کے ہاں جانا بند رہا اور میری منگیتر بھی ہمارے ہاں نہ آئی نہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ منگنی سے قبل کوئی پردہ نہ تھا ۔ ہماری والدہ ہم دو بھائی بھی کمرے میں بیٹھے ہوں تو کسی نا کسی بہانے چکر لگاتی تھیں ۔ میرا یقین ہے کہ ہم نے جو نیکی کمائی ہے وہ ہماری والدہ کی تربیت کا نتیجہ ہے

  2. اللہ کرے حجاب کا وہ خوبصورت دور جو سنت کے مطابق ہو پھر سے پلٹ آ ئے!

  3. میری شادی میرے تا یا ابو کی بیٹی سے ہوئي، تا یا جان جب فوت ہوئے تو اس وقت ان کی بیٹی کی عمر تقریبا 5 سال تھی، اس کے بعد میرے والد نے میری تا یا زاد بہن کو پہلی کلاس سے بارویں جماعت تک پڑھایا اور وہ سب کچھ دیا جو میری سگی بہنوں کو دیا، تعلیم ، کپڑے، جیب خرچ ، کھانا پینا سب کچھ، کیوں کہ وہ یتیم تھی، تو اس کو زیادہ اہمیت دی اور وہ ہمارےساتھ کی گھر میں پلی بھڑی، پھر اس کی عمر شادی کے قریب ہوئی تو اس کے لیے رشتے آنے لگے اور میرے والد صاحب نہیں چاہتے تھے کے وہ کسی اور گھر میں جائے کیوں کہ اس کا اس دنیا میں نا تو کوئی سگا بھائی تھا، نا بہت سارا پیار دینے والا باپ
    ماں باپ کا پیار اپنا ہوتا ہے، اور کسی اور کا پالنا اور ہوتا ہے، وہ ایک قسم کی تنھا تھی اس دنیا میں
    پھر میری بھی زندگی اسی گھر میں گزری تھی، تو میرے باپ نے اس کو میرے لیے چنا ، بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ، جب وہ میرے ساتھ شادی کی بات چیت مکمل ہو چکی تھی اور ہاں کر چکی تھی تو، اس دن کے بعد، گھر والے ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھا کرتے تھے، کیوں کہ ہم ایک گھر میں رہتے تھے تو زیادہ دوری اختیار نہیں کر سکتے تھے، اس لیے گھر والوں نے جلد شادی کروا دی اور آج میں اس شادی سے بہت خوش ہوں، خدا مجھے میری بیوی کو خوش رکھنے کی توفیق دے اس لیےکہ کہیں اس کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ اکیلی ہے اور مجھ سے علہدہ ہو کر وہ جائی گی کہاں، کہیں یہ سوچ اس کو نا آ‏ئے، اس لیے میں اس کا بہت خیال رکھتا ہے،

    شادی کرنا ثواب ہے، اور یتم کی کفالت کرنا کتنا بڑا ثواب ہے یہ تو آپ رسول محمد )ص) کی حدیث پڑہیں گے تو جان سکیں گے۔
    اللہ اپ کا حامی و ناصر ہو۔

Leave a Reply