حیا کے رنگ

women-illustration’’ شا ذیہ !جلدی کرو، دیر ہو رہی ہے!‘‘ سمن بے چینی سے بولی۔ وہ دو نو ں یو نیورسٹی سے وا پسی پر ملحقہ شا پنگ سنٹر سے خریدا ری میں مصرو ف تھیں ۔اپنی مر ضی کی چیز لینے کے جنو ن نے عو رت کی ذمہ دا ریو ں کو کتنا بڑھا دیا ہے؟ سمن شا پنگ سے الر جک ہے مگر دوست کی وجہ سے آنا پڑا ۔
وہ بے زا ری سے کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی کہ کا نو ں میں تکرا ر کی آوا ز پڑی۔ سا منے وا لی دکا ن میں میا ں بیوی اپنی پانچ چھ سا لہ بچی کے لیے ریڈی میڈ لباس خرید رہے تھے جو وجہ بحث بنا ہوا تھا ۔ سمن نے اس مسئلے میں کچھ دلچسپی محسو س کر تے ہو ئے اس ڈریس کو دیکھا جو ما ں خرید نا چا ہ رہی تھی جبکہ با پ رد کر رہا تھا ۔ وہ فو را با ت کی تہہ تک پہنچ گئی ۔ وجہ لباس کی قیمت نہیں بلکہ اس کی بے لباسی تھی جو باپ اپنی بیٹی کے لیے نا منا سب سمجھ رہا تھا اور ما ں ؟ سمن الجھن کا شکا ر ہو گئی کہ ما ں جو نقا ب میں ملبو س ہے اس کی پسند یہ لبا س کیو ں ؟ اس نے اچٹتی ہو ئی نظر دکا ن پر ڈا لی وہ اس قسم کے ڈریس سے بھری ہو ئی تھی ۔

 

اتنے میں شا ذیہ فا رغ ہو گئی اور سمن کا ہا تھ پکڑ کر دکان سے با ہر آ گئی۔ وہ بھی اس مسئلے سے آ گا ہ ہو چکی تھی ا ور سمن کے استفسا ر پر بو ل پڑی ’’ بھئی ما ں بے چا ری خود ایسا ڈریس پہن نہیں سکتی !!اپنی بیٹی کو پہنا کر حسرت پو ری کر رہی ہے!!!‘‘
شاذیہ نے با ت کو چٹکیو ں میں اڑا تے ہو ئے قہقہہ لگا تے ہو ئے کہامگر سمن کی سو چو ں کو کنا را مل گیا بس پھر تو اس کی پر تجسس طبیعت نے تحقیق کا ایک نیا مو ضو ع چن لیا۔اس نے ہر دو ما ں بیٹیو ں کے حلیو ں کا جا ئزہ لینا شرو ع کر دیا تو اس کو اندا زہ ہوا کہ شا ذیہ نے مذا ق ہی مذاق میں بڑی حقیقت بیا ن کر دی تھی ۔ کیا ہما ری تہذیب بدل رہی ہے؟ تفکر کی ایک لہر اس کو پریشا ن کر گئی جب اس نے معا شرے کے ہر طبقے،شہر کے ہر گوشے میں یہ ہی صو رت حا ل دیکھی۔

 

بیل کی آوا ز پر سمن گیٹ پر گئی ۔ ’’ با جی ! امّی کہہ رہی ہیں برف دے دیں۔۔۔‘‘یہ دس سا لہ نا دیہ تھی جو پڑو س کے خا لی پلا ٹ پر بنی جھگی میں اپنے خا ندا ن کے سا تھ رہتی تھی۔ سمن اس کو تکتی رہ گئی! بد رنگ جینز اور اوپر ننھا سا بلا ئوز! اندر سے میلی کچیلی کمر جھلک رہی تھی۔ نا دیہ کی آواز پر سمن چونک پڑی اور اس کو برف دینے لگی۔ یہ تھا پہلا دھچکہ ! پھر تو جیسے اس کے اندیشو ں کی تصد یق ہو تی چلی گئی۔

 

اپنے پرا جیکٹ کی تکمیل کے لیے اس کو شہر کے ایک معروف اسکول کی گر لز برا نچ میں پورا دن گذا رنے کا مو قع ملا۔ دینی تعلیم کو جدید انداز میں دینا اس اسکول کا طرّہ امتیا ز اور دین و دنیا کو ختم کر کے ایک عملی مسلما ن تیاّر کر نے کا دعویٰ !۔ شہر کے ہر علا قے میں ان کی دس سے زیا دہ برا نچیں اور ان میں دا خلہ کا سخت معیار لو گو ں کے ان پر اعتما د کامظہر ہیں ۔ سمن کے لیے یہ مو قع نہایت خو شی کا باعث تھا مگر اس مو قع پر اس نے ایک عجیب مشا ہدہ بھی کیا! تما م طالبا ت تو سر ڈھکے ہو ئے تھیں جبکہ اسٹا ف بشمول اسا تذہ ڈھیلے ڈھا لے اندازمیں ڈو پٹے گلے میں ڈا لے ہو ئے تھیں۔

 

اسا تذہ تو طلباء کے لیے مشعل را ہ ہو تے ہیں کس طرح ایک مختلف مظا ہرہ پیش کر کے قا بل عمل نمو نہ پیش کر سکتے ہیں؟ سمن ایک خلش لیے یہا ں سے روا نہ ہو ئی تھی ، اور پھر بہت جلد اس کو اپنے خد شا ت درست محسوس ہوئے جس پر اس کو افسوس ہی ہوا امیج کے بگڑنے کا!
وہ ایک دعوت ولیمہ تھی۔ سمن اپنی فیملی کے سا تھ شریک تھی جبکہ دلہا کے قریبی اعزہ میں مذکو رہ اسکول کے اسٹا ف اور طا لبا ت کی ایک کثیر تعداد بھی مو جو د تھی۔ اس مو قع پر با لکل الٹ صو رت حا ل تھی ! یعنی اسٹا ف تو مہذب اور با وقار انداز میںحجاب کی پا بندیو ں کے مطا بق ڈریس اپ ہوئی تھیں اور طا لبا ت با ل کھو لے ، ڈوپٹے ایک طرف لٹکا ئے عا میا نہ سے اسٹا ئل میں میرا اور وینا بنی کھڑی تھیں ! یہ ایک شاکنگ منظر تھا سمن کے لیے!

 

سب سے زیا دہ افسوس تواس کو اس محفل میں جا کر ہوا جہا ں قرآن و سنّت پڑھی اور پڑھا ئی جا رہی تھی ۔ وہا ں بھی دو نسلو ں کے لبا س میں دو تہذیبوں کی جھلک وا ضح تھی۔ ما ئیں اور بزرگ خوا تین تو پر دے میں ملفو ف جبکہ ان کی بچیا ں ہا لی وڈ کی ادا کا را ئوں کے پا رٹی ڈریس میں ! کچھ نے اسکارف بھی لیے ہو ئے مگر نیچے وہی جینز!

 

اس حوا لے سے جن دنو ں سمن پر قنو طیت سی طا ری تھی اس کی ملا قات سا رہ سے ہو ئی ۔ سا رہ اسکی کلا س فیلو تا بندہ کی کزن تھی جو چند ہفتو ں کے لیے امریکہ سے آئی ہو ئی تھی ۔ اس پر نظر پڑتے ہی سمن کو کچھ مختلف سا محسو س ہوا اور پھر غور کرنے پر اپنے اور اس کے درمیا ن فرق وا ضح ہوا ۔ سا رہ اگر چہ مغربی لبا س میں تھی مگر مکمل اور سا تر ، با حجا ب قطعا شر عی اور لبا س کے تقا ضو ں کے عین مطا بق! میرا لبا س ؟ سمن پر گھڑو ں پا نی پڑگیا۔ کہنے کو شلوا ر قمیض مگر کسی طر ح بھی سا تر نہیں!

 

سمن کو حیرت ہو ئی کہ اس کو اپنے لبا س کے غیر سا تر ہو نے کا احسا س کیو ں نہ ہوا ؟ اس کا جوا ب بھی سا رہ کی گفتگو میں مو جو د تھا ’’جتنی ما ڈلز اور ادا کا را ئیں ہو تی ہیں وہ اپنے بچو ں کے اندر سے فطری حیا کو ختم کر نے کے لیے ان کو بچپن سے ہی عریا ں رکھتی ہیں آ خر کا ر انہیں ۔۔۔‘‘  سمن کوصا بن کا اشتہا ر یا د آ گیا ’’آخر ہما را چہرہ ہی سب کچھ ہے! ‘‘ ماڈل فخر سے کہتی ہے !ظا ہر ہے کہ با ت تو اس سے نیچے ہی جا چکی ہے!! اور مستقل ایک منظر آپ کے احسا س کو مر دہ ہی کر دیتا ہے اسی لیے ہمیں اپنے لبا س میں کو ئی قباحت نہیں نظر آ تی ۔ سمن نے جب اس نقطہ نظر سے دیکھا تو فیشن کی نقّا لی میں باحیا خوا تین بھی سا تر لبا س کوغیر سا تر بنا تی نظر آ ئیں!

 

تبدیلی تو بس آگہی کی منتظر ہو تی ہے ! سمن کی جستجو ختم ہو ئی تو اس کا لبا س بھی بدلنے لگا ۔ سب سے پہلا وا سطہ تو دکا ندا ر سے ہوا ۔ کپڑا با ریک نہ ہو! اس کے بعد ٹیلر سے معرکہ تھا! لبا س کی وضع قطع اور اسٹا ئل پر اس نے اتنی بحث کی کہ سمن کا دل کھٹّا ہو گیا ، اس نے سو چا کہ اب وہ اپنا ایک سوٹ خود سیے گی اور جب ایک ما ڈل سا منے ہو گا تو اس کے مطا بق تیار کر نا ٹیلر کی مہا رت کاچیلنج ہو گاجس سے وہ انکا ر نہ کر سکے گا!! مگر کیا میرا لبا س ایک اجنبی مرد کے ہا تھو ں میں آنا حیا کے تقا ضو ں کے مطا بق ہے ؟ سمن کی پیشا نی عرق آلو د ہو گئی اور پھر ٹیلر کابا ب ہی بند ہو گیا۔

 

سمن کے گھر اور ارد گرد کا ما حو ل اس کی تبدیلی پر معترض ہو نے کے بجا ئے مطنئن تھا اور یہ بات سمن کے لیے بھی باعث شکر تھی لیکن جب تبدیلیو ں کے چرا غ ماحول کی ظلمتو ں کو دور کرنے لگتے ہیں تو شیطا ن اپنے وار کی نا کا می پر ہتھیا ر بدل کر سا منے آ جا تا ہے۔اور میڈیا پر یہ بحث چل نکلی کہ پر دہ تو دل کا ہو نا چا ہیئے اس کی تا ئید میں نہ جا نے کتنے مفکرین ،ما ہر نفسیا ت اور نہ جا نے کتنے اور کیسے دلا ئل سا منے لا ئے گئے ، ثبو ت کے طورپر وہ منا ظر جن میں پر دہ جرم کی معا ونت کر تا نظر آئے۔

 

خودسمن کو بھی ایسے کئی واقعا ت یا د آ ئے۔ تفریح گا ہو ں پر، تعلیمی ادا رو ں میں اور زندگی کے ہر گو شے میں !اس سلسلے میں ایک خصوصی واقعہ یا د داشت کی پلیٹ میں بڑا نما یا ں تھا ! وہ کسی ڈا کٹر کی انتظا ر گا ہ میں بیٹھی تھی اور ایک با پر دہ خاتو ن نے وہا ں رکھی آرا ئشی اشیا ء میں سے کچھ اٹھا کر اپنے پرس میں ڈا ل لیں ۔ اس وقت تو اس کو ہنسی آ ئی تھی مگر اب یہ منظر اس کو شر مندہ کر رہاتھا۔لیکن نہیں ! وہ کیو ں شر مندہ ہو ! حیا تو ایما ن کا حصہ ہے اور جب کو ئی فرد گنا ہ کر رہا ہو تووہ مو من تو نہیں ہو تا نا!پھر محض اس کا سا تر لبا س بھی اس کو مو من نہیں بنا سکتا! حیا تو ہر وقت ، ہر جگہ، ہر کسی کے لیے!

 

ان ہی دنو ں شا کرہ آنٹی کی بیٹی کی شا د ی کی تقریب آ پہنچی۔وہا ں پہنچتے ہی اس کی نظر انجم آنٹی پر پڑی ! وہ خو شی سے ان کی طرف لپکی۔ وہ سمن کے ابوّ کے جو نئیر کو لیگ شیخ نا صرکی بیوی تھیں ۔ سمن کے وا لدین انکی عملی اسلا می طرز زندگی سے بہت متا ئثرتھے! انجم آنٹی نے اس کو گلے لگا لیا اور خیرو عا فیت دریا فت کر نے لگیں ۔ بیس سا ل پہلے وہ پڑو سی رہ چکے تھے اب تو اتنا وقت گزرگیا تھا ۔ انگلیا ں پکڑ کر چلنے وا لے بچے خود وا لدین بن چکے تھے۔

 

انجم آنٹی نے ڈگمگا کر چلتی ایک بچی کو فخر سے گودمیں اٹھا لیا’’ یہ میری پو تی ہے!!‘‘ اور سمن ایک ٹک اس بچی کو دیکھنے لگی جو تقریبا ٌ بے لبا س تھی ۔ ابھی وہ سکتے سے با ہر نہ آ ئی تھی کہ ایک بیس ،با ئیس سا لہ لڑکی آ کھڑی ہو ئی،صحتمند، بو ٹا سا قد،پیا ری سی شکل جس کا تعارف کرا نے کی نوبت ہی نہ پڑی ! وہ ثنا ء تھی ! انجم آنٹی کی سب سے چھو ٹی بیٹی ! چند سا ل قبل کسی تعلیمی ادا رے میں ملا قا ت ہو ئی تھی اس وقت تو نقاب میں تھی !؟ بر قعہ تو شا ید اب بھی پہنا ہو مگر چو نکہ مر دوں کا علیحدہ انتظا م تھا لہذا اتارکر الگ رکھا ہواہوگا ! اصل بات تو ثنا کے حلیے کی تھی۔ ما ڈل گرل کے لبا س میں ملبوس یہ وہ بچی تو نہ تھی جوسمن کے حا فظے میں تھی! فرا ک پر بھی ڈو پٹہ ضرو ر پہنتی تھی، اور اب ؟ ڈو پٹہ ایر ہو سٹس کے اسٹائل میںسر پر تھا۔فرا ک نما کمر پرسے تنگ لباس ، چو ڑی دار پا جا مہ سے سڈو ل ٹا نگیں نما یا ں تھیں ۔چھہ انچ کی ہا ئی ہیل اور اتنے ہی لمبے آویزے جو ہل ہل کر اپنی طرف دیکھنے پر مجبو ر کر رہے تھے،ہر قدم پر جسم کے نشیب و فرا ز وا ضح ہو رہے تھے۔ سمن تو اسکی طرف دوسری نظر ڈا ل ہی نہ سکی۔ اب وہ دل ہی دل میں اپنے وا لدین سے مخاطب تھی ’’ کیا یہ ہی وہ اسلا می ما ڈل ہے جس پر آپ لوگ بہت رشک کرتے تھے۔۔۔اب آنٹی تو یہ لباس پہن نہیں سکتیں تو بیٹی کو پہنا دیکھ کرخوش ہوں گی۔۔۔‘‘ شاذیہ کی باز گشت گونجی اور سمن مسکرا دی تلخی سے!

 

اس ملا قا ت کے بعد سمن پورے دن ڈسٹرب رہی!! مگر پھرایک نئے عزم کے سا تھ اٹھ کھڑی ہو ئی ’’ کسی کی بے عملی میرے لیے جوا ز نہیں بن سکتی!‘‘یہ ہی تو فرق ہے سمن کی نظر اور ایک سطحی نظر میں ! اب وہ کمر بستہ ہو گئی ہے حیا کے نفا ذ پر ! حیا جو زندگی ہے!!!

فیس بک تبصرے

حیا کے رنگ“ پر 7 تبصرے

  1. Bohat hi dichasp ha

  2. میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میری والدہ محترمہ اپنی وفات تک کسی نامحرم مرد سے آنکھ اُٹھا کر یا بلاجھجھک بات نہ کر سکیں ۔ سر پر دوپٹہ کسی کے سامنے دوہرا لپیٹ کر اور گھر میں بھی درست طریقہ سے لیتیں سوائے جب بالوں میں کنگھی کر رہی ہوتیں ۔ میں تو بچپن سے اسی کو حیاء سمجھا

  3. Baki sab to theek ha mger aap ny masoom bachon per be-libaasi ka ilzaam lga ker bura kia k choty bachon ko koi us nzer sy nhi dekhta jis sy ap ny dekha. Chotay bachon ki dressing aur blrkion men dressing ka fark un ki age ki wja sy bhi ho skta ha

    • mara khayal ha k Sumbul waly waqaey k baad ap is baat sy agree ho jaen g k bachon ko bhe alg nahee kia jasakta is mujrum society ma. un ke dressing bhee aham ha baqii tmam factors k saath! Allah aisay waqet na dikhae

  4. یہ ایک اہم بات ہے کہ بچوں کو ہم بچپن سے جیسی تربیت دیتے ہیں ان کے لئے اس کے مطابق اگلی زندگی گزارنا سہل ھو جاتا ہے، ورنہ معاشرے کے دہرے معیارات ان کو الجھاے رکھتے ہیں. حیا در حقیقت لباس کے کسی مخصوص ڈیزائن کا نام نہیں بلکہ اس بنیادی جذبے اور انداز فکر کا نام ہے جو انسان کو خود غلط اور صحیح کی طرف رہنماے دیتا ہے. اور اسی اسی جذبے اور سوچ کو بچوں میں پروان چڑھانے کا کام والدین کی ذمہ داری ہے.

  5. کسی کی بے عملی میرے لیے جوا ز نہیں بن سکتی
    بہت خوبسورت پیغام

  6. NYC k ap ne tailor ka tazkerrah kia k aik na mehram mere libas ko hath lagye ga sahi keh rehi hai ap …..or maieen bachoo ko aide dress kyun phena rehi hai …

Leave a Reply