’’میں جو کرسکتی تھی میں نے کیا عا صمہ!اٹھارہ سال تک خان صاحب کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’میں نے پارٹی کے لئے کتنی قربا نیاں دیں ؟ اپنی دہری شہریت چھوڑی حالانکہ اسی کی بنیاد پر میں نے پارٹی کی فنڈ ریزنگ کی۔
امریکی پاسپورٹ کی وجہ سے مجھے ہرجگہ جانے میں آ سانی رہتی تھی۔۔۔
یہ وہ الفاظ ہیں جوٹی وی پر بڑی کثرت سے نظر آ رہے ہیں۔۔۔
ٹہر ئیے قارئین ! پہلے آپ کویہ بتانا ہے کہ یہ مضمون الیکشن 2013کے فورا بعد لکھنا شروع کیا تھا مگر تیزی سے موضوع تبدیل ہونے بلکہ صورت حال ہی بدل گئی یعنی فوزیہ قصوری واپس اپنی جماعت کو لوٹ گئیں ۔۔۔
جی ہاں ! اپنی چار ماہ پہلے کی یاد داشت پر زور دیں تویاد آجا ئے گا کہ انتخابی نتائج کے بعد فوزیہ قصوری صاحبہ نے اپنی پارٹی کی اپنے خلاف ہونے والی ناانصا فیوںپر PTI سے مستعفی ہونے کااعلان کر دیا تھا ۔اس پر وہ ٹی وی انٹرویو میں روتی ہوئی نظر آ ئیں اور پھر تو جیسے میڈیا کو ایک کہا نی مل گئی ۔عورت کے آ نسو قیمتی بھی ہیں اور طاقت ور بھی ! فوری اثر نظر آتا ہے ۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر اس کی بھر پورگونج نظر آ ئی۔ اس حوالے سے سے یہ کالم شروع کیامگرمصروفیات کے باعث مکمل نہ ہوا اور بعد میں صورت حال تبدیل ہوگئی معافی تلافی کے بعد۔۔۔اب ان کا معلوم نہیں کہا ں ہیں وہ ؟؟؟ PTIکے اندر یا باہر؟ان کی آخری update عید کے دن ہیتھرو ائر پورٹ سے ملی تھی۔پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی خبریں معمول کا حصہ ہیں ۔شاید ڈاکٹرشیریں مزاری بھی آج کل پارٹی سے با ہر ہیں ۔۔۔
یہ ایک ایسی پارٹی کا تذ کرہ جو تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھی ہے ،نوجوانوں میں مقبولیت کی دعویدار ! بلند عزائم سے مالامال!پارٹی میں نیا کیاہے
یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟وہی اختیارات کی جنگ!ناقدری کا شکوہ! وہی نشستوں کی لڑا ئی!ٹکٹ نہ ملنے یا پسندیدہ جگہ کاٹکٹ نہ ملنے پر الزام
ترا شیاں! ہاں البتہ ووٹرز نئے ہیں جنہیں بآ سانی catchکیا گیا۔انتخابی مسائل اور خرابیوں پر جتنی بھی گفتگو ہو کم ہے ـمگر اس نا مکمل
بلاگ کو پایہ تکمیل پہنچانے اور گمشدہ موضوع کو چھیڑ نے کا محرک جو تصویر بنی وہ اس بلاگ کے ٹا ئیٹل سے 180کے زاویے پر ہے!
جی ہاں ! پچھلے دنوں امیر جماعت اسلامی کراچی اور ساتھ ہی پانچ دیگر ذمہ داران کے اپنے عہدوں سے فارغ ہونے کی خبر آئی تو میڈیا کے تو جیسے سوکھے دھا نوں پا نی برس گیا ہو! ۔ اسے اگلے دن بریکنگ نیوز بنانے کی آرزو لئے اینکرز اور دیگر افرادنے اپنے اپنے طور پر پیکج بھی تیار کئے اور شاید کچھ نے پیش بھی کیا ہو ۔( اس معا ملے میں ہماری بے خبری ہے کیونکہ ٹی وی سے آج کل کم کم ملاقات ہوتی ہے ۔ بوجہ لوڈ شیڈنگ کے اوقات اور ہمارے شیڈول میں عدم مطابقت !! )
اب ہو ناتو یہ چاہئیے تھا کہ جماعت اسلامی کے فارغ شدہ ذمہ داران ایک دھواں دارپریس کانفرنس کر کے اس حکم کو چیلنج کرتے ،نتیجتاً سوشل میڈیا پر ان کے حمایتی ایک طوفان کھڑا کر دیتے اور خود فارغ شدہ افرادفوزیہ قصوری سے کے عشر عشیر جذبا تی نہ ہوتے ہوئے بھی زخم خوردہ تھے! ٹھیس لگی ہوئی تھی۔ان کے منہ سے نکلنے والی آہ بھی اتنی گونج پیدا کر سکتی تھی کہ پارٹی ہل کر رہ جاتی۔۔۔مگر حسرت رہی اور ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ اگلے ہی دن نئے عبوری ذمہ داران کی حلف برداری کی خبر آگئی۔ اور ساتھ ہی وہ تصویر جس میں سبکدوش ہونے والے افراد نئے ذمہ داران کو نہ صرف گلے لگا رہے ہیں بلکہ مل کر کا م کر نے کی نوید بھی دے رہے ہیں ۔ یہ تصویر ہمارے معاشرے میں کتنی اجنبی ہے نا ! کراچی کی با ت کی جا ئے تو یہاں تو پارٹی سے اختلاف کا سیدھا مطلب موت ہے۔۔۔اگر اس بوری بند جماعت کا ذکر چھوڑبھی دیں تو بقیہ دیگر جماعتوں میں بھی یہ صورت حال تو بہر حال نظر نہیں آ تی۔۔۔یہ تو ایک بہادر اور مضبوط پارٹی کا ہی دل و جگر ہو سکتا ہے!
جی ہاں ! ایک عظیم الشان روایات رکھنے والی جماعت جس میں ایک گھنٹے کے لئے بھی کوئی آ ئینی عہدہ خالی نہیں چھوڑاجا سکتا ! پارٹی کےدستور کی کوئی شق violate نہیں ہوپا تی ۔ہاں دستور کے مطا بق ہی اس کا فیصلہ ہو تا ہے۔ کئے ہوئے عہد کی پاسداری میں تنقید اور مخالفت دونوں گھونٹ پی لئے جاتے ہیں ماتھے پر بل ڈا لے بغیر!جبھی تو یہ تصویر کچھ کی آ نکھوں میں خوشی اور اطمینان کے آنسو لارہی ہے تو اکثر یت کو ہکا بکا کر رہی ہے ! بہتر سال پہلے بہتر افراد اور بہتر ہی روپوں سے شروع ہونے والی جماعت جس کے قائد سید ابو الا علٰی مودودی ؒ ہیں کتنی توانا اور جاندار ہے ! خوشنما روایات کی حا مل اور کیوں نہ ہو اللہ اور رسول ﷺ کے فرمان کے مطا بق جو چل رہی ہے۔!اگر صحابہؓ کی باز پرس ہوسکتی ہے اصول توڑنے پر تو پھر اس ایجنڈے پر کام کر نے والی پارٹیاں کیوں نہ اس سنت پر بھی عمل کریں ؟
احتساب اندر سے ہوتا ہے تو باہر سے انگلیاں نہیں اٹھ پا تیں حالانکہ جماعت کے مخا لفین توہمیشہ سے انگلیاں بلند رکھتے ہیں آئوٹ کر کے میدان سے با ہر کر نے کے لئے مگر کیا ہو کہ اس کی نوبت ہی نہیں آ تی ۔ ہاں ! اب انہیں چا ہئیے کہ اعتراف کر لیں کہ جماعت سے زیادہ جمہوری کوئی اور پا رٹی نہیں !جن کے حوصلے بلند ہوں ان کا ہی رتبہ اونچا ہوتا ہے خواہ ووٹ حاصل کریں یا نہ کریں!
کیا خیال ہے اپنے بلاگ کا نام یہ کر دوں فوزیہ آپا کے آ نسو اور محنتی صاحب کا معا نقہ!
ان دونوں تصاویر میں جو فرق ہے صاف ظاہر ہے!
وہی جو گو لڈ اور کسی دوسری معمولی دھات میں ہوتا ہے!
جماعت اسلامی کی تنظیمی روایات اتنی شاندار ہیں کہ اس ملک میں کوئی دوسری جماعت اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
میرا خیال تھا کہ آپ محنتی صاحب کی وہ والی تصویر لگائیں گے جس میں وہ عبوری امیر کراچی نظام الدین میمن کو مسکرا کر گلے لگارہے ہیں ۔