نوید سحر

ramees-squareعالم اسلام کے عظیم مفکرین سید ابولاعلٰی مودودیؒ اور سید محمد قطب شہید ؒ نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا کارنامہ اور عظیم کام یہ کیا کہ پیارے نبی ﷺ کی ملکوں، فرقوں، تعصبات اور ٹکڑوں میں بٹی امت کو “امت واحدہ ” بنا ڈالا۔۔۔ ان کی فکر سے متاثر دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں اقامت دین کی جدوجہد لے کر اٹھیں۔۔۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ “مسلمان امت،  جسد واحد کی مانند ہے اگر اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس کی شدت محسوس کرتا ہے”۔۔۔

 

حضور ﷺ کی اس حدیث کے مصداق امت کے ان محسنوں نے اسلامی تحریکوں کے کارکنان کو ایسا  “درس وفا” دیا ۔۔۔ کہ آج مصر میں اخوان المسلمون کے کارکنان کے قتل عام پر پورے عالم اسلام میں موجود اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے دل زخمی ہیں ، دنیا بھر میں اسلامی تحریک کا ہر فرد اخوان پر ہونے والے ظلم کی شدت اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے ، ہر مرد اور عورت کا چہرہ غمزدہ ہے ۔۔۔ بد امنی اور دہشت گردی کے شکار پاکستان میں اسلامی تحریک کے افراد دل گرفتہ ہیں ۔۔۔ بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے پچیس ہزار کارکنان نے جیلوں میں عید گزاری مگر وہ بھی اخوانیوں پر ہونے والے ظلم پر نوحہ کناں ہیں ۔۔۔ بھارتی فوج کے ظلم کا شکار مظلوم کشمیری بھی اخون کیلئے دعا گو ہیں۔۔۔ اسرائیل کے ظلم کے شکار فلسطینیوں کے دلوں پر بھی چرکے لگے ہیں ۔۔۔ امریکہ کے زیر تسلط افغان بھی اس ظلم پر سراپا احتجاج نظر آئے ۔۔۔  تیونس مراکش سوڈان ، امریکہ یورپ آسٹریلیا ، ملائشیا ،روس اور عرب میں بسنے والے اسلامی تحریک سے وابستہ افراد اسلامی اخوت کی مثال قائم کئے ہوئے ہیں ، ترکی اس ظلم کے خلاف عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔۔۔ اقبال نے کہا تھا ۔۔۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

 

سید مودودیؒ اور سید قطب شہیدؒ نے قرآن کے پیغام( ولتکن منکم امۃوسطا )، حضو ر کی حدیث (مسلمان امت جسد واحد ہے ) اور اقبال کے فلسفہ اخوت کے عین مطابق غلام فکر مسلمانوں میں “حریت” کی روح پھونکی اور” امت مسلمہ ” کے مٹتے تصور کو پھر سے زندہ کر دیا ۔۔۔ اسی فکر کی بنیاد پر دنیا بھر میں اسلامی تحریکیں اٹھیں اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی غلامی میں دینے کیلئے اعلائے کلمۃ الحق کی جدوجہد کا آغاز کیا ، ان تحریکوں نے دنیا کے تمام ازموں سوشل ازم ، سیکولر ازم اور کیپٹل ازم کی ناکامیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسلام کو دنیا کے امن اور فلاح کا واحد حل اور بہترین نظام کے طور پر پیش کیا ۔۔۔ اسلامی تحریکوں کی اس پرامن جمہوری جدوجہد کو مغرب نے “سیاسی اسلام “سے تعبیر کیا ۔ امریکہ کے بڑے تھنک ٹینکس بروکنگ انسٹی ٹیوٹ اور رینڈ کارپوریشن نے بارہا اپنی رپورٹس میں دنیا میں ابھرتے ہوئے” سیاسی اسلام “کو سیکولر ازم کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا ۔۔۔ امت کا تصور زندہ ہوا تو مصر کی “اخوان المسلمون” ،پاکستان کی “جماعت اسلامی” ، ترکی کی “سعادت” اور “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی” ، الجزائر کی “اسلامک فرنٹ” ملائشیا کی “پاس” فلسطین کی “حماس” ، تیونس کی “النہضہ” غرض دنیا بھر کی تمام اسلامی تحریکوں کے افراد دو قالب یک جان ہو گئے ، سب کا دکھ ایک ۔۔۔سب کا غم ایک ہوگیا ، سب کی خوشیاں ایک، سب کا مشن ایک بن ہوگیا اور سب کی منزل ایک اللہ کے نظام کو دنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد بن گئی ۔۔۔

 

آج امت مسلمہ اور اسلامی اخوت کا یہی تصور باطل قوتوں ، مسلم اور غیر مسلم آمروں، ڈکٹیٹروں، بادشاہوں اور سامراجی نظام کیلئے درد سر بن چکاہے ۔۔۔ وہ اس عالمی اسلامی بیداری سے خوفزدہ ہیں ۔۔۔اس لئے کہ اسلامی تحریکوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے پاس انسانیت کی بھلائی کا حل موجود ہے ۔۔۔ ان کے پاس پرامن ،تعلیم و تہذیب یافتہ اور تربیت شدہ کارکنان کی کھیپ موجود ہے ۔۔۔ ان کے پاس معتدل مزاج اور جرات مند موقف اپنانے والی قیادت موجود ہے اور اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے کی اہلیت رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں ۔۔۔ان تمام باتوں کا ثبوت اخوان نے اپنے دو ماہ سے جاری دھرنے سے دیا اور دنیا میں پرامن احتجاج کی حیرت انگیز مثال قائم کی ۔۔۔ لبرلز،  فاشسٹ ثابت ہوئے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے ثابت کیا کہ وہ سب سے زیادہ ٹالریٹ ہیں ۔۔ ۔ اخوان پر یہ ظلم پہلی بار نہیں ہوا بلکہ گزشتہ چھیاسٹھ سالوں میں چار بار اخوان کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن ہو چکا ہے ۔۔۔سینکڑوں قائدین کو پھانسیاں دی گئی اور گولیاں ماری گئیں ، ہزاروں مرد و خواتین نے سالہا سال جیلوں میں صعوبتیں برداشت کیں ۔۔۔ جلا وطن ہو ئے ۔۔۔ جائدادیں اور مال و متاع کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ ایک بار پھر نیل کی سر زمین کو اخوان کے مقدس خون سے سرخ کر دیا گیا ۔۔۔  اخوان نے ہر مرتبہ صبر و استقامت کی لازوال مثال قائم کی اور عزیمت کے کوہ گراں ثابت ہوئے۔۔۔ اخوان کے اس جرات مندانہ ایمانی کردار نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے دلوں میں حرارت پیدا کی ہے ۔۔۔ اور اب شرق و غرب میں اسلامی تحریک کا ہر کارکن اخوان سے متاثر ہے اور اپنے اندر ولولہ عزم وہمت اور حوصلہ پاتا ہے ۔۔۔ مصر کی سڑکوں پر بہنے والا اخوانیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ، یہ خون جو کو چہ و بازار میں بہہ نکلا ہے ،یہ خون دنیا بھر کے انصاف پسندوں اور انسانیت کا نعرہ لگانے والوں کے ضمیر کو جھنجھوڑے گا ۔ یہ خون چی گویرا ،ماوزے تنگ اور نیلسن منڈیلاؤں سے مرعوب مسلمانوں پرحسن البنا شہید ، شیخ احمد یٰسین شہید اور سید علی گیلانی کی عظمت آشکار کرے گا ، یہ خون عالم اسلام کو متحد کرے گا اور ہر ظالم و جابر کا تختہ الٹے گا ،،، یہ خون اب پورے عالم عرب میں انقلاب کا پیش خیمہ بن چکا ہے ۔۔۔ یہ خون “امید” کا استعارہ اور” سحر” کی نوید بن چکا ہے۔۔۔ جو بات اقبال نے کبھی عثمانیوں کے بارے میں کہی تھی آج اخوان پر صادق آتی ہے ۔۔۔۔
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا ،تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply