انسانیت کی تلاش میں۔۔۔

syrian-chemical-attackلکھنے والے نوحہ لکھ رہے ہیں،

ان کلیوں کا نوحہ جنھیں گندھک اور شورے کے تیزابوں سے جلایا گیا۔

سنو، کیا کلیوں کو مارنے کے لئے تیزابوں اور چونے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے؟ کلیاں تو ہاتھ کی ذرا سی سختی سے بکھر جایا کرتی ہیں۔

مگر میں دیکھتی ہوں کہ یہاں سے وہاں تک سفید چادروں میں لپٹے اور ادھرادھر کفن کے انتظار میں بکھرے ننھے جسموں کو کیمیائی ہتھیاروں سے جھلسایا گیا۔

 

اسی لئے لکھنے والے نوحہ لکھ رہے ہیں، اور رونے والے اہ و زاریاں کر رہے ہیں۔

اور میں یہاں شیشے اور کنکریٹ سے بنی ان فلک شگاف عمارتوں کے باہر بیٹھی آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی ہوں۔

یہ لوگ جو سیاہ ڈنر سوٹوں، لامبی سفید عباؤں اور کلف لگی ، کڑکڑاتی شلوار قمیصوں میں ملبوس ہیں۔ قیمتی عینکیں لگاے،ہاتھوں میں لیپ ٹاپس اور بغلوں مین فائلیں دباے، رعونت زدہ چہروں کے ساتھ آ جا رہے ہیں۔ سنا ہے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ کیسے جیا جایے ، کسے جینے دیا جاۓ، کیسے جینے دیا جاے، اور کب تک جینے دیا جاۓ۔یہ سارے اصول و ضوابط یہی طے کیا کرتے ہیں۔

 

ان ایوانوں میں تقریریں کر کے، ان دفاتر میں بے حد مصروف رہ کر، اور عالیشان کمروں میں غیر رسمی گفتگوؤں کے دوران زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کو برتنے کے طریقے وضع کیے جاتے ہیں۔ وہ سارے طریقے جن کا مقصود اپنا اقتدار قائم رکھنا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے باقی سارے اصولوں کی حیثیت محض راستے، حکمت عملی یا لایحہ عمل کی سی ہو جاتی ہے۔

 

جس طرح ایمانداری(محض) ایک بہترین حکمت عملی ہے، اسی طرح سچائی ، عدل و انصاف، مساوات،ایفاے عہد ، امانت داری سب اضافی قدریں ہیں۔ ہر خطّے کے لیے، ہر رنگ ، نسل، عقیدے کے انسانوں کے لئے، یہ حکمت عملی، یہ قدریں اور معیارات جدا جدا ہیں۔

 

ان عمارتوں سے باہر کی دنیا میں پھیلے ہوے انسانوں کے ذہنوں میں کئی سوالات اٹھتے ہیں۔کئی باتیں ہیں جو وہ جاننا چاہتےہیں۔ مثلا، جمہوریت کے سارے سبق پڑھانے کے بعد جب ہم اپنے ملکوں کو اس کے ذریعے سنوارنا چاہتے ہیں تو ہمارے یہ خیرخواہ امروں اور شاہوں کی پشت پناہی کیوں کرنے لگتے ہیں؟

 

ساری دنیا کے انسانوں کو احتجاج اور مظاہروں کا حق دیے جانے کے بعد بے شمار پر امن مظاہرین کو جن میں معصوم بچے، نازک لڑکیاں، پر جوش نوجوان اور کمزور اور بیمار بوڑھے شامل تھے ، آتشیں ہتھیاروں سے کیوں بھونا گیا اور ٹینکوں تلے کیوں کچلا گیا؟

 

لاکھوں انسانوں کے منتخب حکمران کو سلاخوں کے بیچھے دھکیل کر ایک جابر آمر کو پروانہ آزادی کیوں تھمایا گیا؟

 

مصر کے منتخب حکمران نے ایسے کیا ظلم توڑے کہ محض سال بھر میںچند مظاہروں کے بعد اسے اقتدار سے گھسیٹ کر اتار دیا گیا، اور شام کے آمر نے کون سے ایسے اصلاحی اور ترقیاتی اقدامات کیے کہ ساری قوم کے اس کے خلاف اٹھ جانے کے باوجود اس کھنڈر بن جانے والے ملک پر اسے ظل الہی بنا کر مسلط رکھا جا رہا ہے؟

 

کیمیائی ہتھیاروں کے محض شبے میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے شام میں ننھے بچوں کے کیمیائی مادوں سے جلے لاشے دیکھ لینے کے بعد بھی کیوں اپنی فائلوں میں سر چھپا رہے ہیں؟

 

وہ جنہوں نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرایا تھا، کیوں عالمی امن کے ٹھیکے دار بن کر ملکوں کو آیٹمی صلاحیت کے استعمال کی اجازت دینے یا نہ دینے پر غور و فکر کر رہے ہیں؟

وہ جو اپنے ملکوں میں کسی فرد کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتے کیوں دوسرے ملکوں کے ہر معاملے میں مداخلت کیا کرتے ہیں؟

 

بلڈی سویلینز کے ٹیکسوں سے بینکس، بنگلوز، اپارٹمنٹس، اور ملکیتیں بنانے والی شاندار ، جدید ہتھیاروں سے لیس افواج کے کریڈٹ پر عوام پر حکومت کرنے اور “عوامی بغاوتوں” کو کچلنے کی کامیاب مہمات کے سوا اور کیا ہے؟

 

اور کچھ سوال ان بین لاقوامی خیر اندیشوں سے ہیں، جن کے مختلف نام ہیں۔ اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، انسانی حقوق کی تنظیمیں، این جی اوز، اور سچ کی ابلاغ و اشاعت کے دعویدار ذرائع ابلاغ۔

 

ان کے سامنے شام میں معصوم بچے کیمیائی ہتھیاروں سے مارے جاتے ہیں، مصر میں پر امن مظاہرین کا بہیمانہ قتل عام ہوتا ہے، برما میں ایک مذہب کے پیروکار ہونےکے جرم میں بے شمار انسانو کو ذبح کیا جاتا ہے،بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کو جھوٹے جنگی جرائم کے الزام میں پھانسیاں دی جاتی ہیں، بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے، کشمیر میں ظلم و جبر کے خلاف اعلان علم آزادی بلند کیے جانے پر انسانیت سوز مظالم ڈھاے جاتے ہیں۔ اور یہ سارے خیر اندیش، جو انسانی و مذہبی اقدار و روایات کے ایک ایک باغی کے غم میں گھلتے ہیں اور اس کے انسانی حقوق کے لئے سینہ سپر ہو جاتے ہیں، یہ سب دیکھنے کے بعد اپنے بے حد ضروری کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

 

ہم کہتے ہیں، یہ “شرمناک تضادات ” ہیں، وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ آپ “جذباتی” ہو رہے ہیں۔

 

اور انسان اور انسانیت تڑپتی ، سسکتی دم توڑتی جاتی ہے۔

 

مجھے معلوم ہے میں آدرشی ہوں۔ دیوانے کا خواب دیکھتی ہوں۔ ایک ایسی دنیا کا خواب جہاں انسان اپنے اپنے عقیدوں، نظریوں اور فلسفوں کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔ ہوش و خرد کی دنیا سے وابستہ لوگوں کے لئے یہ ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔ تصوراتی دنیا میں رہنے والی ایک نا سمجھ عورت کی پریشان خیالی۔

 

مگر یہ تو بتاؤ کیا اتنا بھی ممکن نہیں کہ انسان اپنے جھگڑوں کو انسانوں کی طرح نمٹا لیا کرے؟

 

کیاکیمیائی  ہتھیاروں سے جھلسائے بغیر، انسانوں کو آہنی ٹینکوں تلے کچلے، ذبح کیا، اور زندہ جلاے بغیر مسلے حل نہیں کیے جا سکتے؟

 

بہت سے انسانوں کو زندہ رہنے کے کم سے کم حق سے محروم کیے بغیر یہ اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتے؟

اور کیا عقیدوں،نظریوں اور فلسفوں کا اختلاف اتنا ہی سنگین ہوتا ہے، کہ اپنے جیسے مجبور و بس انسانوں کو یوں بے دردی سے مرتا دیکھ کر بھی کسی کے ضمیر کی نیند نہیں ٹوٹتی؟ یا ضمیر نام کی شے اب انسانوں میں کمیاب ہو گئی ہے؟

 

لکھنے والے نوحہ لکھ رہے ہیں اور میں یہاں ان فلک شگاف عمارتوں کے باہر اس سنگی بنچ پر بیٹھی، ان مصروف لوگوں کی چلت پھرت دیکھ رہی ہوں۔ شاید میرے دماغ میں خلل واقع ہو گیا ہے ۔ کیونکہ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ان سیاہ سوٹوں، سفید عباؤں اور کلف زدہ شلوار قمیصوں میں انسان نہیں، بلکہ لومڑیاں، بھیڑیے، لکڑ بھگے اور گدھ چھپے ہوئے ہیں۔ اور میں یہاں اس سنگی بنچ پر خوفزدہ بیٹھی انسانیت کے غم میں سسک رہی ہوں۔

فیس بک تبصرے

انسانیت کی تلاش میں۔۔۔“ پر 3 تبصرے

  1. this is not only your feelings but everybody has similar emotions! Going to b mad

  2. انسانیت نے ازل سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جد و جہد کی ہے اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ آج بھی انسانیت ان درندوں کے خالاف بر سرِ پیکار ہے ۔ اپنے آپ کو انسانیت کا محافظ کہنے والوں کے ہاتھوں انسانیت تار تار ہے لیکن اُن کا کیا کیا جائے جو ان خونخوار بھڑیوں کو ترقی یافتہ قوم کہتے ہیں ۔انسانی کشش کے علاوہ بھی میرا قاہرہ سے خاص لگاؤ ہے۔ میری نانی ۔ میری والدہ میری بڑی بہن میری بیوی سب قاہرہ میں پیدا ہوئیں ۔ میری بہن کے علاوہ باقی سب نے تعلیم بھی قاہرہ میں حاصل کی۔

  3. جویریه صا حبه آپ کا شکریه که آپ کے قلم کی نوک نےاربوں دلوں کو چھوا هے اور وه دل نو حه خواں هیں

Leave a Reply