آپ کے نام۔۔۔

human-evolutionجو خدا کا انکار کرتے ہیں وہ درحقیقت خالق و مالک حقیقی کا انکار کر کے انسان کی خدائی کا اعلان کر دیتے ہیں، یعنی زندگی اور کائنات کو برتنے کے اصول و ضوابط اور do’s and dont’s کےتعین کا اختیار “الہام” سے لے کر انسانی فکر کو دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح مذہب کا انکار درحقیقت الہامی مذہب کا انکار کر کے اس کی جگہ انسانی مذہب کی بنا ڈالنا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ انسان خود بہت محدود صلاحیتو ں کا مالک ہے، اس لئے انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی بنتا ہے ، اس میں نقص رہ جاتا ہے۔
اس سوچ کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کوئی چیز بھی مستقل نہیں بلکہ تغییر پذیر ہے۔ انسانی افکار ، رویّے، مذاھب،تہذیبیں سب ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں۔۔۔ اور یہ تغییر اتنا ہمہ گیر اور اتنا اثر انگیز ہے کہ اس کے زیر اثر طے شدہ اصول و ضوابط بھی زمان و مکان کے ساتھ اور مختلف حالات اور مختلف انسانی گروہوں کے لئے بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح اور چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانیت نام کی بھی جو چیز ہے اس کے سارے لوازم اور اصولوں کی حیثیت اضافی ہو جاتی ہے۔۔
لہٰذا اب انسان جہان جو ” لائحہ عمل ” “بہتر” اور “مفید” سمجھے گا وہی اختیار کرے گا۔

 

اس ساری سوچ کے نتیجے میں ہماری یہ زمین فساد سے بھر گئی ہے۔ انتشار، تقسیم، نہ انصافی، ظلم، نفرتیں۔۔۔۔کیا کیا نہیں ہے جو اس شجر خبیثہ سے حاصل نہیں ہوا۔۔۔۔۔
مگر دکھ یہ ہے کہ جو “الہام” کے محافظ ہیں، جن کے پاس آفاقیت ، ہمہ گیری، کا پیغام ہے، جو ارتقا اور تغییر کے “linear” نہیں بلکہ “circular” سفر کے قائل ہیں، جن کے پاس انسانی نقایص سے پاک اور زمان و مکان کی حدوں سے بلند اور کاملیت اور جامعیت کی حدوں کو چھوتے اصول و ضوابط موجود ہیں، وہ بھی ساری دنیا کے انسانوں کو ایک لڑی میں پرونے میں کامیاب نظر نہیں اتے۔ بلکہ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ اس کے لئے تیّار بھی نہیں ہیں۔

 

وہ کلمہ مشترک جو اس زمین کے انسانوں کو مفاد مشترک کے لئے ایک جگہ جمع کر سکے، یا کم از کم تقسیم در تقسیم کے تباہ کر دینے والے عمل سے بچا لے۔۔۔ خود ان کے اپنے درمیان بھی کمیاب ہو گیا ہے۔
مانتے ہیں، کہ تقسیم نہ گزیر ہے، شر اور خیر کی، صحیح اور غلط کی، مگر، الہام کی دعوت تو “او” سے شروع ہوتی ہے۔۔۔
دور جانے کا عمل انکار کرنے والے کرتے ہیں، دعوت والوں کا کام تو “پکار” کر بلانا ہے۔۔۔
اپنے قدموں کو جہاں کھڑے ہیں وہاں مضبوطی سے جما کر دوسرے کو دامے درمے سخنے اپنی طرف لانا۔۔۔
مگر افسوس کہ ہم۔۔۔ دھکیلنے یا کم از کم اعراض برتنے پر زیادہ مایل نظر اتے ہیں۔
اور یوں انتشار اور تقسیم کی یہ صورت کم ہوتی نظر نہیں اتی۔
ابھی انسان کو بہت کچھ بھگتنا ہے، راحتوں کے دن ابھی بہت دور ہیں۔۔۔

فیس بک تبصرے

آپ کے نام۔۔۔“ پر 2 تبصرے

  1. Start is good! welcome on Qalamkarwan!. your composition is thought provoking

  2. Nicely written, idea is innovative but must be more focussed.

Leave a Reply