اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے
انصاف کا کوئی در نہیں کھلتا کسی امن عالم کے ٹھیکیدار کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی۔دنیا کو جنگ وجدل کے حوالے کر دینے والےعالمی امن کے ٹھیکیدار اور دنیا کو انصاف کا پیغام دینے والے بے انصافی کے پیامبرشایداس بات سے بے خبر ہیں کہ دنیا میں وہی معاشرے زندہ رہتے ہیں جہاں ہر ایک کو بلاتفریق انصاف ملے۔ ناانصافی معاشروں کو تباہی کے گہرے غار میں دھکیل دیتی ہے۔اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر کفر کی حکومت تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن ظلم کی نہیں۔
جب ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم ہو بستیاں اور بازار لہو لہان ہوں ۔ماؤں کو سکول جانے والے بچوں کی خیریت سے واپسی کا یقین نہ ہو۔اور کام پر جانے والے پانچ معصوم بچوں کا باپ شام کو سفید کفن اوڑھے گھر لوٹے۔جہاں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے خود انصاف کیلئے مارے مارے پھریں وہاں انسان کس سے انصاف کی امید کرے۔
اس معصوم بچی کی تصویر اور اس کی انکھوں میں جلتی بجھتی امید و یاس کی روشنی دیکھ کر مجھے تاریخ کے جھروکوں سے ایک حکمران یاد آرہا ہے۔
عین حالت جنگ میں جب ہر روز سینکڑوں شہ سوار موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ہر لشکر اپنی فتح کیلئے دوسرے کو تہ تیغ کر دینے کیلئے کمر بستہ تھا۔ایک عیسائی عورت روتی پیٹتی ہوئی سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ماحول اور دھول اڑاتے لشکروں کے درمیان اس کا لخت جگر کہیں کھو گیا ہے۔یہ بات بجا کی فریاد کرنے والی دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ ایک ماں تھی اور یہ فرزند ہی اس کی کل متاع تھی۔
عین حالت جنگ میں جب ہر روز سینکڑوں شہ سوار موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ہر لشکر اپنی فتح کیلئے دوسرے کو تہ تیغ کر دینے کیلئے کمر بستہ تھا۔ایک عیسائی عورت روتی پیٹتی ہوئی سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ماحول اور دھول اڑاتے لشکروں کے درمیان اس کا لخت جگر کہیں کھو گیا ہے۔یہ بات بجا کی فریاد کرنے والی دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ ایک ماں تھی اور یہ فرزند ہی اس کی کل متاع تھی۔
سبز آنکھوں والے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اردگرد کی تمام آبادیوں کا احاطہ کرلیا جائے اور اس عورت کا بچہ تلاش کر کے لایا جائے۔
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ایک پہر بھی نہیں گزرا تھا کہ مغرب سے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہونے والوں میں شامل اس خاتون کا لخت جگر تلاش کر لیا گیا۔
عورت خوشی سے دیوانہ وار آگے بڑھی اور سلطان کے آگے سجدہ ریز ہوگئی۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان کی آواز فضاء میں گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا گیا۔اب تم اپنے لوگوں میں واپس لوٹ جاؤ۔
وہ عظیم الشان حکمران جسے دنیا “سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ” کے نام سے جانتی ہے یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ
“معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے”
ہے کوئی ایسا شخص جو ہمارے حکمرانوں کو یہ بات بتا دے۔
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ایک پہر بھی نہیں گزرا تھا کہ مغرب سے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہونے والوں میں شامل اس خاتون کا لخت جگر تلاش کر لیا گیا۔
عورت خوشی سے دیوانہ وار آگے بڑھی اور سلطان کے آگے سجدہ ریز ہوگئی۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان کی آواز فضاء میں گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا گیا۔اب تم اپنے لوگوں میں واپس لوٹ جاؤ۔
وہ عظیم الشان حکمران جسے دنیا “سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ” کے نام سے جانتی ہے یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ
“معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے”
ہے کوئی ایسا شخص جو ہمارے حکمرانوں کو یہ بات بتا دے۔
فیس بک تبصرے