مصنّف: ڈاکٹر ضیاءالدین خان
جیو چینل پر ایک مداری نے وختا ڈالا ہوا ہے۔ روز مذہب کی تجارت کر کے رمضان کو رسواکرتا ہے۔ گھنٹوں ڈگڈگی بجاتا ہے۔ جھولی سے اناپ شناپ نکالتا ہے اور ترسے ہوئے لوگوں پر پھینک دیتا ہے۔ پھر لوٹ مار کا تماشہ دیکھتا ہے۔ رمضان جیسے مبارک مہینے کو مسخروں، بھانڈوں، مداریوں، گویوں، اداکاروں اور کاسہ برداروں کے حوالے کر کے جیو ٹی وی نے اپنی خدمت کی ہو تو، کی ہو، اسلام یا عوام کی کوئی خدمت نہیں کی۔ اس کی پیروی میں دیگر خربوزے بھی وہی رنگ پکڑ گئے۔ سارے چینل آنکھ بند کر کے مکھی پہ مکھی نگلے جا رہے ہیں۔ سولہ روزے ہونے کو آئے مجال ہے جو ایک ڈھنگ کا عالم نظر آیا ہو، یاکوئی معقول پروگرام دیکھنے کو ملا ہو۔ مذہب کے نام پر روایت اور دین کے نام خرافات بانٹنے کا سلسلہ ہر جگہ جاری ہے۔ نہ ایمان۔ نہ عقیدہ۔ نہ کعبہ۔ نہ کلیسا۔ نہ امام۔ نہ مقتدی۔ نہ رمضان۔ نہ امان۔ سارے فُقرے، بھوکے ننگے، چھٹل کارتوس، بڑے عمامے، کھوکھلے سر، چینلوں پر آنے کے شائق، رونمائی کے مارے ہوئے منافق، ستر برس میں سترہ برس کے دکھائی دینے کے شوقین، حلق سے قاف نکالنے اور حلق تک افطاری ٹھونسنے والے شکم پرور، دین کو مداری کی مرضی سے موڑنے توڑنے اور جوڑنے والے کاریگر، پیسے لے کر فتوے دینے والے چھابڑی بردار، سب چینلوں پر جمع ہیں جبکہ اصل علماءمساجد اور مدارس میں عبادت اور تدریس میں مصروف ہیں۔ چینلوں پر ڈسکو مولویوں کا شوقین بریگیڈ اپنا اور دین کا مذاق اڑاتا ہے۔ کسی بت کافر کے پہلو میں بیٹھ کر حریص نگاہوں سے اسے تکتے ہوئے اونگے بونگے سوالات کے اوندھے سیدھے جواب دیتا ہے۔ دل کہیں، دماغ کہیں، نگاہیں کہیں، اشارے کہیں ، عوام انہیں دیکھتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، استہزا کرتے ہیں۔ اینکر اور دیگر شرکاءچھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور مولوی ہیں کہ کھیسیں نکال نکال کر خوش ہوتے ہیں۔ حلیے، لہجے اور بودے بوسیدہ احمقانہ دلائل سن کر لوگ بیزار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مداری کی ڈور سے بندھے زبان کے اشارے پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔
لوگ ایسے ہی تو دین سے بیزار نہیں ہوتے اس میں بہت کچھ ان چینلوں اور ہوس کے مارے مولویوں کا بھی فتور ہے۔ چینل مالکان سے پوچھیں تو جھٹ ریٹنگ کا گھونگٹ اوڑھ لیتے ہیں۔ کیا کریں جی عوام کو یہی پسند ہے۔ ارے بھئی آپ خود رائے عامہ بدلنے والا عامل قرار دیتے ہیں۔ خلق خدا کی رائے اور ذہن بدلنے کے لیے ہر کس و ناکس کے ایجنڈے پر چلتے ہیں۔ آپ کس مرض کی دوا ہیں؟ پسند کو بدلیں عوام کو زیادہ دلچسپ ،بہتر اور معیاری پروگرام دیں۔ کچھ تخلیقی ایج کو بیدار کریں۔ آخر دنیا بھر میں عیسائیت کو ماننے والے کیسے کیسے پروگرام بناتے ہیں۔ کس کس بہانے اپنا مذہب بیچ میں لاتے ہیں ۔ چلو ان سے نہ سیکھو ہندو سے سیکھ لو، سالا ڈرامے میں بھی دیوی دیوتا کا تڑکا لگا دیتا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے میں بھی مندر لے آتا ہے۔ عاشقی معشوقی میں بھی بھجن ڈال دیتا ہے پھر بھی ریٹنگ ضروری ہے تو رنڈی کا ناچ سب سے زیادہ ریٹنگ دے گا، پھر وہ دکھاؤ اس میں شرم کیوں؟ غیرت اور حیاءکو بیچنا ہے تو پورا بیچو۔ پردے کی آڑ میں دکان کھول کر دھوتی سے پنکھا کیوں جھلتے ہو؟ اور یہ ریٹنگ بھی ایک ڈھکوسلا ہے اشتہاری کمپنیوں کا پھیلایا ہواجال۔ جنہیں یہ عقل نہیں کہ اگر کوئی شو غیر مستند اور گھٹیا ہو تو اس کے ساتھ چلنے والے اشتہارات بھی گھٹیا قرار پاتے ہیں۔ وہ شو کے بوجھ تلے ڈوب جاتے ہیں ۔ اس کے ناکردہ گناہوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں کیونکہ وہ بھی شو کا حصہ سمجھے جاتے ہیں پھر دیکھنے والے شو کے اشتہارات بھی مسترد کر دیتے ہیں۔ ربیکا بلیک امریکہ کی ایک ٹین ایج لڑکی ہے، نام بلیک ہے مگر ہے گوری۔ 14مارچ سے 16جون2011ءتک اس کا گایا ہوا گانا ”فرائیڈے“ 167 ملین لوگوں نے یوٹیوب پر دیکھا لیکن یہ گانا اس سال کے بدترین گانوں میں شمار ہوا۔ زیادہ لوگوں کے دیکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ گانا اچھا تھا آج بھی نوجوان لوگ کسی گانے کا مذاق اڑائیں تو فرائیڈے کا حوالہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ون ڈائریکشن بینڈ برطانیہ کا معروف بینڈ گروپ ہے جس میں وہیں پیدا ہونے والا ایک پاکستانی زنخازین بھی شامل ہے یہ بیند ٹین ایج لڑکیوں میں مقبول ہوا پھر کئی ملین لوگوں نے اس کے گانے سنے لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بینڈ برطانیہ کے بدترین بینڈ میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح فلموں کا معاملہ ہے۔ پرانی فلموں میں بن حر، گریٹ اسکیپ، برج آف ریور کوائی، ڈرٹی ڈزن، میکناز گولڈ، دی گڈوی بید دی ارلی، تھری ہنڈ ریڈ، ٹیکن، کلیش آف دی ٹائٹن اور ٹرمینیٹر جیسی عظیم فلمیں آمدنی کے لحاظ سے بلین ڈالر کلب میں شامل نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معیار میں ایونجرز، اواٹار، بیٹ مین، ٹائی ٹینک اور ڈارک نائٹ رائیڈر جیسی فلموں سے کم ہیں۔ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا میرے بھائی اس کے لیے اللہ نے آپ کو سال کے گیارہ مہینے دے رکھے ہیں یہ ایک مہینہ اپنی اور قوم کی عاقبت سدھارنے کے لیے وقف کریں۔ اس ماہ دو چار دمڑی کم بھی کما لیں گے تو آپ کے خزانوں میںکمی نہیں آئے گی لیکن جوکروں کے ہاتھوں دین کو رسوا نہ کریں کمانے کے لیے آپ کے پاس درجنوں موضوعات ہیں دین کو مت بیچیں۔ رمضان کو عبادت، مغفرت اور رحمت کے لیے رہنے دیں اس کا سودا مت کریں۔ قبر میں جوکر کام آئے گا نہ اس کے بلائے بیہودہ مہمان، اپنا چورن بیچنے کے اور بھی طریقے ہیں۔
حضور! کوئی اورڈھنگ کا کام کر لیں بولنے کی لذت میں مبتلا اس مداری کو دین کا ٹھیکیدار مت بنائیں۔ یہ شخص سب کچھ کر سکتا ہے سوائے دینی فہم اور عقل سلیم کے۔ مذہب کی غلط سلط تعبیر کر کے کبھی فلم کا تڑکا لگاتا ہے کبھی بے سرے گلوکار کا۔ بار بار لانڈھی، کورنگی اور ملیر سے بلوائی گئی ترسی ہوئی مخلوق پر پیکٹ اچھالتا ہے جیسے کوئی نو، دولتیا چندی کی رات پلاسٹک کی تھیلی میں بریانی کے پیکٹ اچھالے اور خود کو مضافات کے دیوتا سے کم نہ سمجھے۔ احمق مولوی اس کی باتوں پر ربڑ کے ببوے کی طرح گردن ہلاتے ہیں۔ آپ نے کسی کار میں پچھلے شیشے کے ساتھ دھرا ببوا دیکھا ہے؟ کار چلتی ہے تو کیسے گردن ہلاتا ہے؟ بس یہی حال ان مولویوں کا ہے۔ باقی رہے تماش بین تو ایک سوٹ کے لیے دھینگا مشتی، ایک سائیکل کے لیے کپڑے پھاڑنے پر اتارو مجمع عقل انسانی تو کیا عقل حیوانی سے بھی محروم لگتاہے ۔ یہ مداری مزے لے لے کر سب دیکھتا ہے۔ دنیا کو دکھاتا ہے۔ پھر چھانٹ چھانٹ کر اچھے تحفے جوان خواتین کو بانٹتا ہے۔ یار یہ سب کرو مگر رمضان میں تو نہ کرو اور رمضان کے نام پر نہ کرو۔ کسی گلی محلے۔ چوک چوراہے میں اپنا منجن بیچو۔
آپ دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہو؟ کہ پاکستانی ایسے ہیں؟ سموسے کے پیکٹ پر جانوروں کی طرح ٹوٹتے ہیں؟ رمضان کا احترام اس طرح پامال کرتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ چینلوں کی بنائی مذہبی دنیا اور حقیقی دین کی دنیا میں زمین کا آسمان کا فرق ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں تقسیم بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تقسیم انتہا کو پہنچ جائے تو تصادم جنم لیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو چینل دین کی غلط سلط تعبیریں کرتے ہیں یا ناقص کم فہم اور معاشرے کا کچرا جمع کر کے انہیں دین کا ماہر دکھاتے ہیں انہوں نے بھی مذہبی کشیدگی بڑھانے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ لیکن یاد رہے اسلام کوئی یتیم یسیر مذہب نہیں کہ جس کا جو چاہے کر لے۔ کعبہ کو صنم خانے سے بھی پاسبان مل جاتے ہیں۔ اسلام کا حلیہ بگاڑنے والے چینلوں کو اس دن کا خوف کرنا چاہیئے جب خلق خدا ان کے احتساب پر اتر آئے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کر کے فرد جر م عائد کر دے۔ کیا وہ لوگوں کو اس راستے پر لانا چاہتے ہیں۔ جس پر چل کر متحدہ نے ان سب کے منہ میں لگام دے رکھی ہے؟ عجیب بات ہے کہ جس ملک میں پولیس سے پیزا آتاہو وہاں پرائیویٹ اسکول کے لیے فیس نہیں، سرکاری اسکول میں تعلیم نہیں ا ور استادوں میں شفقت نہیں، غریب کا بچہ جائے تو کہاں جائے؟ بھیڑیں چرائے؟ جہاں ایک ٹی وی شو پر کروڑوں خرچ ہوتے ہوں وہاں ریلوے کے لیے ڈیزل نہیں، تنخواہ کے لیے پیسے نہیں، انجن کے لیے پرزے نہیں، غریب کا بچہ سفر کرے تو کیسے کرے؟ اونٹ پر؟ جس ملک کا صدر دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہونے کے لیے ہر جائز ناجائز جتن کرتا ہو وہاں تیس فیصد آبادی کی آمدنی دو ڈالر، روز سے بھی کم ہے۔ غریب آدمی کیا کھائے؟ گھاس؟
اس ملک میں انقلاب اغوا ہو گیا۔ جمہوریت بانجھ ہو گئی ، مذہب شاپنگ مال اور ٹی وی چینلوں پہ بکنے لگا۔ اٹھائی گیر لیڈر بن گئے۔ مداری ٹی وی پہ چھا گئے۔ غنڈے پولیس میں بھرتی ہوگئے، چور چوکیدار کہلانے لگے اور ریاست انسان بیچنے لگی۔ دور غلاماں سے دور غلاماں تک ہم نے کوئی سفر نہیں کیا۔ بھوکے۔ ننگے۔ فکر کے بوجھ تلے۔ ذلتوں کے مارے لوگوں کو ایسے چکا چوند ٹی وی شوز سے بہلانے کی روایت نئی نہیں۔ قدیم روم میں بھی یہی کچھ ہوتا تھا۔ انسانوں اور جانوروں کی کشتی، غلاموں کی جنگیں، بہتا خون، ہتھیاروں کی جھنکار، کراہوں سے لبریز فضا، لوگ سارے غم بھول جاتے اور نعرے لگاتے گھر جاتے۔ پھر خالی پیٹ سو جاتے۔ تب سے اب تک کچھ نہیں بدلا، نیت بھی وہی، منزل بھی وہی، سوچ بھی وہی اور عمل بھی وہی۔ بس ایک طریقہ بدل گیاہے اکھاڑے کی جگہ مداریوں، زنانوں، ہیجڑوں، طوائفوں، بازاری جملوں اور نسوانیت سے بھرے مٹکٹے لڑکوں نے لے لی ہے۔ جو چمکتی سکرین پر ”ہم چوما دیگرے نیست“ کی تفسیر بنے پھرتے ہیں۔ اول جلول حلیے میں اول فول بکتے ہیں اور سارے سامع سنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی صورت میں آزمائش کا ایک نیا در کھول دیا ہے۔ افسوس کہ رمضان کو اس بار بھی امان نہ ملی۔ ہر سال کی طرح یہ سال بھی رمضان کے لیے امتحان ثابت ہوا۔ اب رحمتوں کا مہینہ منہ چھپائے پھرتا ہے۔ مغفرت کے در، دعاؤں کے انتظار میں چوپٹ کھلے رہتے ہیں اور ایمان والے ٹی وی کے آگے بیٹھے حسرت بھری نگاہوں سے ستارہ کی لان کے پیکٹ اچھلتے دیکھتے ہیں۔ جوسر اور گرائنڈر پر نظریں گاڑے رہتے ہیں۔ نار جہنم سے نجات کا عشرہ ٹی وی شوز کے پاسز کی تلاش میں گزرے گا۔ لچوں لفنگوں کی ذو معنی باتوں پر کانوں کی لویں سرخ کرنے کی بے تابی نے دعائے نیم شبی کی جگہ لے لی اور تہجد کی جگہ ترکی کامجہول اور عریاں ڈرامہ رت جگا کرائے گا۔ لوگوں نے گنجا سلطان دیکھنے کے لیے جنت کی کنجیاں واپس لوٹا دیں کیا خسارے کا سوداہے! ہاے انسان، ہاے انسان۔
بشکریہ: روزنامہ امّت
باقی باتیں ایک طرف
لیکن یہ جملہ “۔ ۔ ۔ بار بار لانڈھی، کورنگی اور ملیر سے بلوائی گئی ترسی ہوئی مخلوق پر پیکٹ اچھالتا ہے – – – ”
اس جملے میں سے علاقے کے نام حذف کردیں-
شکریہ
جناب ڈاکٹر ضیاءالدین خان نے ایمان کے اس ڈاکو کے خلاف جو کچھ لکھا ہے وہ سچ اور حق ہے۔
ya madari hay jo paison k liy din mazhab cannel libas sub badalta rahta hay.kbi baralwi hazrat k sat hota hay to kbi sheya hazrat k sat.is ka koe deen mazhab nahi hay jahan paisa ho wahan bagta hay. matric pass hay or doctor sat likta hay yaqeen na ay to PMA say varefication karwalain….
First I saw the clips of the program in which madari condemn dr.zia on writing against him , then I read this column . column is nothing in front of tongue of this madari. GEO is on open theme agenda and he is most supportive of it. It must b clean from our society.
اس کی تائید میں اپنی غزل کے دو اشعار لکھ سکتا ہوں…
مداریوں کا دیس ہے بہت تماش بیں یہاں
ہیں عزّتوں کے تاجور ذلیل اورکمیں یہاں
یہاں پر عزّت و ہنر کا مرتبہ ہے کچھ دِگر
کمینے پارسا ہیں اور ہیں پارسا کمیں یہاں
صفدؔر
اللہ پاک ہدایت دے اور اگر ہدایت مقدّر نہیں تو دین کا تماشا بنانے والوں کو تماشہ بنادے… اٰمین!
معذرت میری کم علمی کی کہ ابھی آپ کی پوسٹ پڑھی ، دل سے لکھا گیا سب کچھ لیکن سوال ذہن میں اُبھرا کہ کوئی یہ تو بتائے
کیا صرف وہی شخص ہماری قوم کا ایک گندا انڈا تھا ؟ کیا صرف اس نے ہی سارے رمضان لہو و لعب کا بازار گرم کیے رکھا ؟ کیا وہی ایک شخص تھا جس نے ہمارے روزے خراب کیے ؟ رمضان المبارک کی پاک راتوں کو ناپاک کرنے کا مجرم کیا وہی تھا ؟ کیا اس کا کوئی بھی قول وفعل جو اس دوران سب کے سامنے عیاں تھا وہ قابل ِ گردن زنی تھا؟ کیا اُس کی جھولی ایک کھوٹے سکے کی بھی اہل نہیں تھی ؟ کیا اس کے لب سے نکلنے والا پاک کلام سب دھوکا اور منافقت پر منبی تھا ؟ اگر ان تمام سوالوں کے جواب ہاں میں ہیں تو اب تک کیوں وہ زمین کے اوپر ہے ؟ اسے چھوڑ کر ہم سب کیوں گناہ گار ہو رہے ہیں ؟ اگر ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں ہمارے پاس تو ہم کیوں اپنی دُنیا اور اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں ؟ اس کی جزا اور سزا بڑی عدالت کے سپرد کیوں نہیں کر دیتے ؟