ڈاکٹر محمد مرسی کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر مصر کی افواج نے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے سبب انہیں معزول کر کے گرفتار کرلیا۔ ان کے ساتھ ہی میڈیا رپورٹس کے مطابق اخوان المسلون کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو بھی گرفتار کر کے اسی جیل میں بند کر دیا گیا جہاں پر مصر کے عوام پر بد ترین آمریت مسلط کرنے والے سابق صدر حسنی مبار ک کو رکھا گیا تھا۔ جیل کے باہر جیسے حسنی مبارک کے چلے جانے سے عوام خوشی سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے اسی سے ملتے جلتے ردعمل کا اظہار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر مرسی کے جانے پر بھی کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کے تجزیہ کار اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔ مغرب اور مغرب کے ہم پیالہ دانشور اخوان المسلون پر ناتجربہ کاری ، غلط حکمت عملی ، پارٹی پالیسیوں کا حکومت پر اثر انداز ہونا، معیشت کا عدم استحکام اور خارجہ پالیسی کی ناکامی وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔ جب کہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے رہنما سارا ملبہ امریکا اور اسرائیل پر ڈال کر بری ذمہ ہو رہے ہیں۔ بات کوئی بھی ہو، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس انقلاب در انقلاب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور اسلام کو جمہوری اور دستوری انداز میں نافذ کرنے کے راستے مزید مشکل اور فکری طور پر مبہم ہو گئے ہیں۔
اخوان المسلون دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے۔ ایک طویل عرصے تک اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے کارکنوں نے اپنے عزم اور حوصلے سے حکومت قائم کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ سب مزاحمتیں صبر اور جہد مسلسل سے بالآخر دم توڑ دیتی ہیں۔ اخوان کے کارکنوں پر جو ظلم و ستم جیلوں کے اندر اور باہر ڈھائے گئے ہیں وہ انسانی ذہن میں پنپنے والے خیالات کو انسانی دنیا سے نکال کردرندوں کی آماجگاہ میں لے جانے کے لیے کافی ہیں۔ اخوان نے نا صرف مصر کے حالات کو بدلنے میں خاطر خواہ حصہ ڈالا بلکہ پورے عالم عرب میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے اپنے پیغام کو ہر درد دل رکھنے والے فرد تک پہنچایا۔ ان کے طریقہ کار کی بنیاد شروع سے دعوت اور خدمت رہی ۔ البتہ ماضی میں جب جبر سہتے سہتے حد ہو گئی تو اخوان کے کچھ نوجوانوں نے طاقت کے ذریعے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن تنظیم کے مثالی نظم و ضبط نے انہیں واپس دعوتی اور دستوری جدوجہد پر آمادہ کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باب مکمل بند ہو گیا جب ہی تو مصر کے عوام نے اپنی آزاد رائے کا وزن اخوان کے پلڑے میں ڈالا۔
یہاں ایک دفعہ پھر غور و فکر کرنے والے اسلام پسندوں کو یہ مرحلہ درپیش ہے کہ آخر کیا سقم رہ گیا تھا اخوان کی تحریک میں کہ انہیں ایک سال میں ہی مسترد کر دیا گیا۔ کیا بنیادی طور پر یہ بات ہی غلط ہے کہ جمہوریت کے راستے اسلام آ ہی نہیں سکتا؟ یا فوج کی مدد کے بغیر اسلامی انقلاب جڑ نہیں پکڑتا۔ الجزائر کی فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مصر کی فوج نے اس شبہ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ دراصل مسلم ممالک کی افواج ہیں۔ جن کا سارا ناک و نقشہ مغرب نے اپنی ضرورتوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا ہے۔یا اگر اسلام پسند ملک کے اندر کے اداروں کو قابو کر بھی لیتے ہیں تو بیرونی حملہ آوروں سے مزاحمت کیسے کریں گے؟ طالبان کا عروج و زوال اس کی مثال ہے۔ ایک اور نظریہ بھی مسلم ممالک میں مقبول ہے کہ حکومت سازی کے لئے جہدو جہد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حکمران تو عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ اچھے اعمال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اچھے حکمران عطا کر دیتے ہیں۔ بر صغیر میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگ اس ساری چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہمارا نقطہ نظر کوئی بھی ہو، ہم سب مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں یا کسی ایک تنظیم کی ناکامی اسلام کی ناکامی نہیں ہے۔ یہ وہاں کے لوگوں اور لائحہ عمل کی ناکامی تو ہو سکتی ہے لیکن اسلام کو تو بہرحال پوری دنیا میں پھیلنا ہے۔ اسلام کے نفاذ کے جتنے راستے بیان کیے جاتے ہیں چاہے وہ طاقت کےحصول کے بعد میدان جہاد سے متعلق ہوں یا محض دعوتی اسلوب تک ہی بات ختم ہو جاتی ہو،سیکولر طاقتوں کے ساتھ مفاہمت ہو یا مذہبی جماعتوں کا گٹھ جوڑ ہو ان سب کا تھوڑا بہت تجربہ پچھلی دو دہائیوں میں تقریبا ہو چکا ہے۔ ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور کہاں کہاں کمزوری رہ گئی ہے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے حالات کے مطابق کیا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے یہ آج کی تحریک اسلامی کے لیے اہم سوال ہے۔
محترم بھائی! یہ باتیں سنتے اور کرتے تو ہمیں صدیاں بیت گئیں ہیں. لیکن اس کا حل کیا ہے؟ آپ نے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت پر تو زور دیا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی حل بھی پیش کرتے….