لیجیے بنگلہ دیش کے چار شہروں میں کارپوریشن میئرکے انتخابات میںسابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے 18جماعتی اتحاد نے معرکہ مار لیا ہے۔راجشاہی،کُھلنا، باریسال اور سلہٹ میں اس اتحاد کے نمائندے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں، جو برسراقتدار عوامی لیگ کے لئے سیاسی طور پر ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔جن حالات میں یہ بلدیاتی انتخابات انعقاد پذیر ہوئے ہیں ایسے میں عوامی لیگ کے مقابل کسی کا جیتنا آسان کام نہ تھا۔میونسپل کارپوریشن کے ان انتخابات میں حسینہ واجد کی ناکامی اور خالدہ ضیاء کی کامیابی کو ۲۰۱۴ میں ہونے والے قومی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور ان انتخابات کوعوامی لیگ اور حسینہ حکومت کے خلاف ’عوامی ریفرنڈم‘کا نام دیا جا رہا ہے۔ان انتخابات سے عوامی لیگ کی مقبولیت کی قلعی کھل گئی ہے۔چار بڑے شہروں میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد آئندہ انتخابات اور اس میں کامیابی کے حوالے سے حکمران جماعت جس اضطراب،بے چینی اور پریشانی کا شکار دکھائی دیتی ہے کسی غیرجانبدار مبصر کے لئے اس کا اندازہ لگانامشکل نہیں۔عوامی لیگ اپنی مقبولیت کی نچلی ترین سطح پرآگئی ہے۔اور اس مقام پر پہنچانے میں حسینہ حکومت اور اس کی اپنی پالیسیوں کا بنیادی دخل ہے۔عوامی لیگ حکومت ۱۴ جماعتی گرینڈالائنس پر مشتمل ہے۔جس میں جنرل حسن محمد ارشاد کی جاتیو پارٹی بھی شامل ہے۔بعض حلقے یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ عوامی لیگ کی اس گرتی ہوئی ساکھ کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں یہ اتحاد انتشار کا شکار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں بالخصوص اسلام پسندوں ،اور ان کی قیادت کو ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘‘کے ذریعے سنائی جانے والی سزائے موت اور عمرقید کی سزائیںصریحاً ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہیں جن میں عوام میں اضطراب پیدا کر دیا ہے اس کیفیت نے عوامی لیگ کو غیرمقبول بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیاہے۔داخلہ خارجہ محاذوں پر یہ ناکام ترین حکومت ہے۔بین الاقوامی معاملات ہوںیا اقتصادی امور،حکومت کی پالیسیاں ناکامی کا اشتہار بن چکی ہیں۔کسی دوسرے کو عوامی لیگ کے ساتھ دشمنی کی ضرورت نہیں اس کے لئے اس کی اپنی پالیسیاں کافی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب عوامی لیگ اور حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے ،اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے خلاف ظلم کا ہر حربہ مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیمیں بین الاقوامی ادارے اورمیڈیاان مظالم کی بات کر رہے ہیں اور ان مظالم کی فوٹیج تواتر سے میڈیا اورسوشل میڈیا میں آ رہی ہے۔مظالم کی یہ تصویریں دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسی درندگی ،ایسی وحشت کہ الاماں والحفیظ ،چنگیز اور ہلاکو نے بھی انسانیت پرکیا مظالم ڈھائے ہونگے لیکن موجودہ دور میں بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت کی سرپرستی میں نہتے عوام پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں انہوں نے چنگیز اور ہلاکو کے مظالم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ابھی مئی میں حفاظت اسلام کے ڈھاکہ میں ہونے والے اس مظاہرے کے شرکاجب آرام کر رہے تھے ان پرجس انداز میں چڑھائی کی گئی اور جس بہیمانہ انداز میں تین ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیلا اور قتل عام کیا گیا۔اس کی خبریں بین الاقوامی میڈیا بالخصوص سی این این اور الجزیرہ دے چکے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کا میڈیا پابندیوں کے باعث یہ خبریں نہ دے سکا۔
BNPڈھاکہ کے صدر صادق حسین کاکہنا ہے کہ ہماری اطلاعات اور تحقیقات کے مطابق 6مئی کے قتل عام میں 2ہزار سے زائد افراد کو سیکورٹی فورسز نے انصاف اور قانون سے ماورا ہلاک کیا۔اسی طرح حفاظت اسلام کی مرکزی کمیٹی کی رپورٹ میں 6مئی کوکی جانے والی اس کارروائی میں ڈھاکہ کی بجلی بندکرکے اندھیرے میں کارروائی کی گئی ۔ذرائع ابلاغ کا داخلہ ممنوع تھا لوگوں کو حصار میں لیا گیا اور باہر نہیںنکلنے دیاگیا۔یہ ساری کارروائی نصف شب کے بعد کی گئی۔بے گناہ معصوم علماء اور شہریوں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیااور فجر سے قبل ان لاشوں کو ٹرکوں میں بھرکر نامعلوم مقام پر روانہ کر دیا گیا۔وزیر خارجہ اورکابینہ کے ارکان نے اس قسم کے کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے انکار کر دیا۔بعد میں اتنا کہا گیا کہ 11ہزار لوگ جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔پھر یہ مانا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21ہو سکتی ہے۔
ڈھاکہ کے سرکاری قبرستان کے گورگن عبدالجلیل کی ویڈیو الجزیرہ نے جاری کر دی ہے اس کا کہنا ہے کہ 6مئی کویہاں بڑی تعداد میں ایسے افراد کی تدفین کی گئی جن کے جسموں پر گولیوں کے نشانات تھے ۔اور یہ تدفین رات کے وقت خاموشی کے ساتھ کی گئی۔ویڈیو میں اجتماعی قبریں بھی دکھائی گئی ہیں ۔گلوبل کریمینل جسٹس امریکہ کے ایمبیسیڈر راپ کا کہناہے کہ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم ٹریبونل میں چلائے جانے والے مقدمات بارے امریکی حکومت کے تحفظات ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں شفاف کارروائی ہونی چاہئیے ۔عوام الناس عوامی انصاف چاہتے ہیں ۔پوری کارروائی اور گواہوں کے بیانات کسی دبائو کے بغیر ہونے چاہئیں ۔مولانا دلاور حسین سعیدی،ابوالکلام آزاداورمحمد قمرالزمان کی سزائے موت بارے کیے گئے سوال بارے کہا کہ اس کیلئے ٹھوس شواہد کا ہونا ضروری ہے۔ نیز استغاثہ صفائی اور گواہوںکواپنا مؤقف بیان کرنے کا پورا موقع ملنا چاہئیے۔
برطانیہ کے لارڈ اویبری (Lord avebary)اور کارلائل (Lord Corlail)نے اقوام متحدہ کے جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن کی توجہ دلائی ہے کہ بنگلہ دیش میں برسرعام انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا اور یہ مطالبہ کیا کہ فوری طور پر بنگلہ دیش میں ہونے والی اس کاروائی کو جانچنے کے لئے کمیشن کی ٹیم جائے اور ان کو ان لوگوں سے ملنے کی اجازت دی جائے جن کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
بنگلہ دیش کی پروانڈیا حکومت کے یہ اقدامات ہی اس کو ڈبونے کے لئے کافی ہیں ۔جس عوامی غیظ و غضب کا اظہارعوام نے ان بلدیاتی انتخابات میں کیا ہے۔۲۰۱۴ کے پیش آمدہ انتخابات کا ٹریلرقرار دیا جا سکتا ہے حکومتی اتحاد اور اس کے بیرونی سرپرستوں کوبھی اندازہ ہو رہا ہے کہ حسینہ حکومت کے اقدامات نے اسے نامقبول بنانے میں بنیادی اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔حسینہ حکومت کو ان واقعات سے سبق لینا چاہئیے لیکن ایسے لگتا ہے کہ نہ تو وہ خود اور نہ اس کے سرپرست سبق لینے کے لئے تیار ہیں جب تشدد، ظلم، ناانصافی ، انسانی حقوق کی پامالی حکومتی سطح پر ہونے لگے تو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے حکومتی عزائم کو ناکام بنادیتے ہیں۔ اگراب بھی حکومت سبق حاصل نہیں کرتی اور ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رکھتی ہے تو اسے یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئیے کہ آئندہ قومی انتخابات میں اس کی شکست میں کوئی کسرنہیں رہ گئی ہے اور اس ضمن میں اس کے سرپرست بھی اس کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے ویسے بھی انہوں نے حسینہ حکومت سے جو کام لینا تھاوہ لے لیا۔انہیں شاید اب ان کی ضرورت بھی نہیں رہی۔تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ کوئی اس سے سبق حاصل نہیں کرتا۔
فیس بک تبصرے