فراعین مصر کی شقی القلبی کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کہیں پڑھا تھا کہ جنگ یوم کپور کے موقع پر انور سادات نے شاید قوم سے خطاب کے دوران جوش خطابت میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ ہم فراعین مصر کے جانشیوں کو آل موسیٰ سے مقابلہ درپیش ہے” اور پھر وہی ہوا جو فرعونوں اور انکے حواریوں کا مقدر رہا ہے۔ ذلت آمیز شکست۔
1949ء میں امام حسن البنّا کی شہادت سے سید قطب کی شہادت تک اور زیب الغزالی سے مہدی عاکف تک انہی فرعونوں کی طرف سے مسلط کردہ قید و بند کی صعوبتیں بھی فرعونوں کے اقتدار کے تسلسل کو قائم نہ رکھ پائے اور بالآخر 2011ء میں حُسنی مبارک سے نجاب کے بعد حسن البنّا کی اخوان المسلمون اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی۔ حُسنی مبارک کی باقیات فراعین مصر کے جانشیوں کو اسلام پسندوں کا اقتدار ایک سال سے زیادہ گوارہ نہ ہوسکا۔ اخوان کے خلاف فوج، سکیولر انتہاپسندوں کا ایکا ہی نہیں تھا بلکہ سلفی النور پارٹی بھی اخوان کی پشت پر خنجر گھونپنے سے باز نہی آئی۔
آج جبکہ اسلام پسند مصر کے طول و عرض میں ایک بار پھر انہی فرعونوں سے بیزاری کا اعلان کررہے ہیں، فراعین مصر کی شقی القلبی اپنے عروج پر ہے۔ 8 جولائی کی صبح نماز فجر کے دوران مصری فوج کی جانب سے نہتے پُرامن مظاہرین ہر کیے گئے حملے میں تقریبا 51 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ مظاہرین ریپبلکن گارڈز آفیسرز کلب کے باہر احتجاج کررہے تھے جہاں غالب گمان ہے کہ مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مُرسی کو نظربند رکھا گیا ہے۔
مجزرة الحرس الجمهوري (ریپبلکن گارڈز قتلِ عام) کی تصاویر
ان اکیاون شہدا میں اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ “فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی” کے ترجمان اخبار “الحریۃ و العدالۃ” کے فوٹوگرافر 26 سالہ احمد سمیر عصّم بھی شامل ہیں۔ انہیں سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا۔ اپنی شہادت سے کچھ ہی پل پہلے سمیر ایک عمارت کی چھت پر تعیّنات فوجی کی نہتّے مظاہرین پر کی جانے والی فائرنگ کو فلم بند کررہے تھے۔ اسی دوران فوجی اچانک انکی طرف گھوما اور انہیں گولی مار دی۔
احمد سمیر کی اپنی شہادت سے قبل بنائی گئی ویڈیو کے آخری تیس سیکنڈ۔۔۔
احمد سمیر کی اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بنائی گئی بیس منٹ کی ویڈیو میں عبادت میں مصروف نمازیوں پر پیچھے سے کی جانے والی فائرنگ اور پھر خود انکی شہادت کے مناظر اس بات کی دلیل ہے کہ اقتدار پر چور دروازے سے قابض ہوجانے والے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سرزمین مصر آج پھر اپنے سپوتوں کے لہو سے گُل رنگ ہے۔ لیکن کامیابی تو حق کا ہی مقدر ہے کہ ” دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو(القرآن)”۔ پچاس سال پہلے سید قطب کی شہادت پر نعیم صدیقی نے جو نظم کہی تھی وہ آج بھی حسبِ حال ہے۔
ہر ایک دور وقت کا خود اپنا اک یزید ہے
ہرایک دور کا حسین بیگناہ شہید ہے
جدہر جدہر گرا ہے خوں، یہی رہِ امید ہے
پھر ایک کارواں لُٹا
صلیب جبر گڑگئی، وہ چوب دار آگئے
صداقتِ حسیں! ترے، وہ جاں نثار آگئے
بہت سے لا اِلہ خواں، کناردار آگئے
پھر ایک کارواں لُٹا
فراعنہ کی سرزمیں، ہمیشہ خوں بہ جام ہے
ہمیشہ خوں بہ جام ہے، وہ پھربھی تشنہ کام ہے
یہ اک جہانِ بے سکوں! جسے سکوں حرام ہے
پھر ایک کارواں لُٹا
یہ انقلاب دیو ہے، لہو کی بھینٹ مانگتا
یہ خود ہی مدعی بھی ہے، یہ خود ہی صاحب قضا
یہ قافلے کاراہزن! یہ قافلے کارہنما
پھر ایک کارواں لُٹا
کئی صدی کےدشت میں! یہ راستی کا کارواں
ادب کا فن کا، علم کا، یہ زندگی کا کارواں
رہِ خودی کے راہرو! رہِ نبی کا کارواں
پھر ایک کارواں لُٹا
ابھی توایسے کارواں کئی ہزار آئیں گے
اٹھیں گے چہار سمت سے وہ بار بار آئیں گے
وہ بن کے ابرِ خوں فشان، بہ ریگ زارآئیں گے
پھر ایک کارواں لُٹا
بچو بچو کہ یک بیک، دمِ حساب آئے گا
جو راج ظلم کیش ہے وہ راج ڈول جائےگا
گرے کا تاج فرق سے، یہ تخت ڈگمگائے گا
پھر ایک کارواں لُٹا
پاکستان میں جو سنجیدہ عقلمند لبرلز ہیں وہ دبی دبی زبان میں فوج کے اس شب خون کی مذمت کر رہے ہیں تاہم بدبو دار اور ملیچھ لبرلز خوشی سے بے حال ہیں۔