بنو مخزوم کے تاج کا سب سے روشن ہیرا،جو کسی بھی میدان جنگ کی آبرو ہوا کرتا تھا، فتح جس کے منہ زور گھوڑے کے
قدم چومنے کو اپنی سعادت سمجھتی،جس کے نیزے کے ایک اشارے پر جوان اپنے کشادہ سینے سنانوں پر بچھادینے پر بازی لے جاتے۔کہ جس کے پاس درہم ودینار کا نہیں اپنے فتح کئے ہوئے علاقوں اور قلعوں کا حساب ہوا کرتا تھا۔وہ ایسا تھا کہ جو اپنی زندگی میں ہی ایک فسانہ بن چکا تھاوہ جب میدانِ جنگ میں اپنے شانے سے برچھا کھینچتا تو صفوں کی صفیں درہم برہم ہو جاتیں، اور مصلّے سے گھوڑے کی پیٹھ تک کوئی اس کا ثانی نہ تھا۔
ایک ایسا بے مثال بہادر کہ جس کی یلغار کو روکنے کیلئے دشمن یوں متحد ہوئے کہ عورتوں نے اپنا زیور،بوڑھوں نے قدیم خزانے اور بچوں نے اپنے کھلونے تک بیچ ڈالے۔لیکن اس کی یلغار کے آگے بند نہ باندھا جا سکا۔اور اس کی یلغار کو روکا بھی کیسے جا سکتا کہ جسے سیّدالمجاہدین امام الانبیاءنبی خاتم المرسلین جنابِ رسول اللہ ﷺ نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھا۔تاریخ جنہیں حضرت خالد بن ولید ؓ کے نام سے جانتی ہے۔
بستر مرگ پر لیٹے ہوئے یہ شیر دل مجاہداپنے قریب بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے۔” میں نے ان گنت جنگوں میں حصہ لیا۔ کئی بار اپنے آپ کو ایسے خطروں میں ڈالا کہ جان بچانا مشکل نظر آتا تھا لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔ میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں تلوار‘ تیر یا نیزے کے زخم کا نشان نہ ہو۔ لیکن افسوس ! موت نے مجھے بستر پر آدبوچا۔ میدان کار زار میں شہادت نصیب نہ ہوئی۔“کوئی زندگی سے زیادہ جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے مر نہیں سکتا اگر میدان جہاد میں موت ہوتی تو آج خالد بن ولید ؓیوں بستر مرگ پر ایڑیاں نہ رگڑ رہا ہوتا۔
یہ عظیم المرتبت مجاہد کہ جس کے گھوڑے کے سموں نے روم و ایران کی سلطنت کو تاخت و تا راج کیا ۔ عین حالت جنگ میں جب لوہا لوہے سے اور نیزہ نیزے سے ٹکرا رہا تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراع ؓنے ان کے آہن میں ڈھلے بازو پر ہاتھ رکھ کر وہ پیغام خلافت سنایا کہ جس میں امین الامّت ابو عبیدہ بن الجراع ؓ کو یرموک میں موجود عساکر اسلام کا سپہ سالار مقرّر کیا گیا تھا۔اور پھر وہ جو شکست سے نا آشنا تھا اپنے گھوڑے سے اترا اور قبلہ رو ہو کر سر بسجود ہو گیااور جب سجدے سے سر اٹھایا تو نئے سپہ سالار کو سوگوار آواز میں یہ کہتے سنا کہ خد اشاہد ہے میں نے کبھی بھی اس منصب کی خواہش نہیں کی لیکن مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہیں ابھی یہ فرمان پہنچاؤں اور اس کے ساتھ ہی نئے سپہ سالار کی آنکھیں بھیگ گئیں۔خالد بن ولیدؓ نے نیزہ زمین میں گاڑا اورفرمایا امین الامّت آنسو پونچھ ڈالئے خالدؓ اتنا کم ظرف نہیں کہ اس سوتے پھریرے کے کندھوں سے اتر جانے کے ملال میں جہاد کیلئے اٹھی تلوار کو نیام میں ڈال لے خالد ؓ یہ لڑائی نبی آخری الزماںﷺ کے جھنڈے کی آبرو کیلئے لڑ رہا ہے عمر بن خطاب ؓ کی خوشنودی کیلئے نہیں مجھے حکم دیجئے کہ لشکر کے کس بازو پر ایک عام سپاہی کی طرح جنگ کروں۔جن قوموں کو ڈوبنا نہ ہو وہ سیف اللہ ؓ ہی کی طرح ڈسپلن کو اپنی زندگی میں عام کرتی ہیں۔
اور حضرت بی بی زینب ؓوہ عظیم خاتون ہیں جنہوں نے یزید کے بھرے دربار میں دلیرانہ طور پر اس کی یزیدیت اور بربریت کو شدید مذمت کا نشانہ بنایا۔ حضرت بی بی زینب ؓ کا یزید کے دربار میں یہ اہم خطبہ تاریخ کا اہم ترین حوالہ بن چکا ہے۔
سیدہ زینب ؓاور حضرت خالد بن ولید ؓ دونوں ہی جلیل القدر شخصیات ہیں۔ ایک نے یزید کے دربار میں کھڑے ہوکر اعلائے کلمۃ اللہ بلند کیا تو دوسرے نے اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام قائم کرنے کیلئِے روم اور ایران جیسی عظیم الشان سلطنتوں کو اپنے گھوڑے کےسموں تلے روند ڈالا۔
ان کے مزاروں کو نشانہ بنانا کسی بڑے کھیل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس بات میں وزن ہے کہ فرقہ ورانہ فسادات کرانے کیلئِے یہ ڈرامہ رچایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں یہ خلیج مزید گہری ہوگی۔دشمن ہمیں شیعہ ، سنی اور دیوبندی، بریلوی میں تقسیم کروا کے پہلے ہی سے ٹکڑوں مین بٹی امّت مسلمہ کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
ہے کوئی ایسا حکمران جو اس سازش کو سمجھے اور آگے بڑھ کو دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنا دے
اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اتفاق پیدا فرمائے آمین
ثم اٰمین
ummat ke behisi dakhain k usay koi parwah hee nahee! wo waisay bhee Tareekh sy peecha churana chahtee ha!