فوجی آپریشن کے ذریعے انتہا پسندوں کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے انتہا پسندی کی وجوہات کو بھی جاننا چاہئے، جن علاقوں سے انتہا پسندی پھوٹتی ہے ان علاقوں میں موجود مسائل کا ادراک کرنا چاہیے۔ وزیرستان ایک پسماندہ علاقہ ہے اس علاقے کی پسماندگی کو خوشحالی میں بدلنا ہوگا ، اس علاقے کے کم عمر نوجوان ، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں ،نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنا دیا جائے اور انہیں روزگار فراہم کر دیا جائے تو انتہا پسندی خود بخود ختم ہو جائے گی ۔ ۔۔
انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے بہت سے دانشور یہ خوشنما اور پر امن تجاویز پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔ظاہر ہے کہ ا س کے تجویزکنندہ دانشور بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل عمل ہے ، اس کے اثرات فوری نظر نہیں آئیں گے، البتہ دیر پا ضرور ہونگے۔
آیئے اب اگر ہم اس تجویز کا جائزہ لیں جو بظاہر بڑی درست اور مکمل محسوس ہوتی ہے، تو معلوم ہوگا کہ ایسے تجزئے اور تبصرے مطالعہ کی شدید کمی ، تاریخ سے ناواقفیت اور حقائق کا درست ادراک نہ ہونے کے باعث جاری ہوتے ہیں اور قوم سر ہلا ہلا کر ان پر یقین کر رہی ہوتی ہے۔
کیونکہ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے کہ انتہا پسندی ، تعلیم کی کمی اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جنم لیتی ہے تو پھر انتہا پسندی کا منبع القاعدہ کیا ہے؟آج کی دنیا میں القائدہ کو سب سے بڑی انتہاپسند تنظیم مانا جاتا ہے ۔ مگر اس سے و ابستہ افراد کا مسئلہ تو کبھی بھی تعلیم کی کمی یا معاشی بدحالی نہیں رہا ۔القائدہ ارکان تو انتہائی تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بلکہ وہ تو امریکہ ویورپ کی اعلٰی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں ،اورمعاشی طور پر آسودہ حال۔اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ معاملہ تعلیم یافتہ ہونا اور برسر روزگار ہونا نہیں بلکہ اس سے کچھ اور آگے کا ہے ۔ اسی طرح جہاد افغانستان کا معاملہ بھی ہے ۔ آج تبصرے اور تجزیے کرنے والوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ جہاد وغیرہ کم پڑھے لکھوں یا مدرسے کے طلبہ کا کا م ہوتا ہے ، وہ لوگ ہی اس کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ معاشرے کی اکثریت بھی اسی کو حقیقت مانتی ہے کہ جہاد افغانستان میں مدرسوں کا بنیادی کردار ہے ۔ یہ رائے اور ذہنیت کہ جہاد کو مدرسے سے نتھی کر دیا جائے ، تاریخ سے ناواقفیت اور مطالعہ و شعور کی شدیدکمی کی عکاسی کرتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ روس کیخلاف جہاد کا آغاز جب ہوا تو سب سے پہلی مزاحمت جو خود افغانوں نے کی وہ کابل یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے تھی نہ کہ کسی مدرسے کی جانب سے ۔ کابل یونیورسٹی میں انجیئنرنگ کے طالبعلم گلبدین حکمت یار روس کے خلاف مزاحمت کی سب سے مضبوط دیوار بنے او ر اب بھی امریکہ کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔۔۔ وادی پنج شیر کا شیر کہلانے والے انجیئر احمد شاہ مسعود ہوں یا پر وفیسر برہان الدین ربانی ا ور عبدالرسل سیاف ۔ ۔۔جہاد افغانستان کے تمام ہیروز ،سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں سے وابستہ تھے ۔ جہاد افغانستان میں شرکت کیلئے دنیا بھر سے جو لوگ آئے تھے وہ بھی کوئی مدرسوں کے نہیں بلکہ اسلامی تحریکوں سے وابستہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ افراد تھے ۔ اسی طرح پاکستان سے بھی جہاد افغانستان میں سب سے مضبوط اور موثر نما ئندگی ، یہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی رہی، نہ کے مدرسوں کی ۔ جامعہ کراچی ،پنجاب یونیورسٹی ، پشاور یونیورسٹی ، انجینئرنگ یونیورسٹی ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کا لج غرض ایک لمبی فہرست ہے ان تعلیمی داروں کی جن کے ہزاروں طلبہ روس کیخلاف جہاد افغانستان میں شریک ہوئے اور سینکڑوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دیا اور یہی صورتحال جہاد کشمیر کے حوالے سے ہمیں نظر آتی ہے ۔ کشمیر میں اپنی جان نچھاور کرنے والا شہر لاہور کا پہلا شہید ،ایف سی کالج میں ایم اے انگلش کا طالبعلم تھا اور دوسرا سائنس کالج میں ایم اے اکنامکس کا۔
مدرسوں کے سرخیل مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق تو ان دونوں جہادوں سے گیارہ سال تک دامن بچاتے ہی رہے ہیں ۔ مدرسہ تو اب انوالو ہوا ہے جب طالبان وجود میں آئے۔اور افغان حکومت ان کے حوالے کی گئی۔(یہ بھی واضح رہے کہ مدرسے بھی صرف وہ جو دیوبند اور اہل حدیث فکر سے مطابقت رکھتے ہیں) گو کہ اب طالبان کے فرنٹ محاذ پر رہنے کی وجہ سے مدرسوں کے طلبا اکثریت میں ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم یافتہ نوجوان بھی کم نہیںہیں ۔ تو جناب وزیرستان میں تعلیم عام کرنے اور روزگار فراہم کرنے سے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں کمی کیسے آئے گی ؟ واقعہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکی ڈرون کا نشانہ بننے والوں میں جہادیوں میں مقبول عام ترانوں کے خالق ، انجینئر احسن عزیز بھی شامل تھے ،جواپنی اعلیٰ ڈگری اور مظفر آباد کا خوشحال گھرانہ چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کیساتھ وزیرستان میں مقیم تھے اور اسی طرح کراچی سے سرکاری ہسپتال کی ملازمت چھوڑ کر بیوی سمیت وزیرستان آباد ہونے والے ڈاکٹر ارشد وحید بھی ڈرون کا شکار ہوئے۔ تعلیم اور روزگار تو ان کا مسئلہ نہ تھا ۔اور تو اور۔۔۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے وسط میں واقع لال مسجد کے سانحہ میں عزم واستقامت کی آہنی دیوار بن کر جان دینے والے غازی عبدالرشید بھی ۔۔۔قائد اعظم یونیورسٹی کے فار غ التحصیل تھے۔
جو دانشور ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر ٹی وی اسکرینوں میں نمودار ہوتے ہیں اور تجزیے پیش کرتے ہیں کہ تعلیم عام کر دو ، روزگار فر اہم کر دو ــ، ــــانتہاپسندی اورـــ دہشت گردی ختم ہو جائے گی ، وہ کسی بھول میں ہیں ۔ مطالعہ کی شدید کمی تاریخ سے ناواقفیت اور حقائق کا درست ادراک نہ ہونے کے باعث یہ تبصرے جاری ہوتے ہیں اور قوم سر ہلا ہلا کر ان پر یقین کر رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ بقول اقبال
سبب کچھ اور ہے اس کا ۔۔۔تو جس کو خود سمجھتا ہے!
فیس بک تبصرے