7بج کے 40منٹ کا وقت۔گاڑیوں سے جانے والے سب بچوں اُس وقت رستے میں ہی ہوتے ہیں۔ اس ماں نے بھی اپنے تین بچوں کو نہلا دھلا کر اسکول کی وین میں سوار کیا تھا۔بھلا وہ کیسے سوچ سکتی تھی کہ گھر سے نکلنے کے بس نصف گھنٹے بعد یہ کال آئے گی کہ ان تینوں کہ لاشیں آکر شناخت کر لیں۔ ایک دونہیں 18گھروں کے چراخ گل ہو گئے۔ T.Vاسکرین کے منظر ناقابل ِ برداشت والدین عزیز و اقارب خاندان کے بزرگ اس جلی ہوئی وین سے اپنے معصوم ننھے فرشتوں کی آخری نشانیاں تلاش کررہے تھے۔ وہ پیارے تو اب چلے گئے اور کس نے سوچا تھا کہ اب کی بار جو خداحافظ کیا ہے، وین میں بیٹھ کر جو ہاتھ ہلارہے ہیں جو ابّو کی گود سے وین میں سوار ہوا ہے۔ جس نے ماں کی آخری بوسہ لیا ہے، ماں نے جس کے کاندھے پر اسکول کا بستہ لٹکایا ہے، جس کوپانی کی بوتل بھر کے دی ہے، جلدی سے جس کے بیگ میں لنچ بکس ڈالا ہے، جو فرمائش کرکے نکلا ہے کہ” امی آج یہ پکا کر رکھئے گا” جس کو ماں نے روز کی طرح ایک ہی ہدایت دی ہے کہ اپنا خیال رکھنا ہے، لڑنا جھگڑنا نہیں ہے، یونیفارم گندا کر کے نہیں آنا، دیکھوں لنچ کرلینا بچا کر واپس نہیں لانا ہے، اچھا بیٹا خدا حافظ، امّی خداحافظ، ابھی تو سماعتوں سے ان آخری لفظوں کی باز گشت بھی محو نہ ہوئی ہوگی ، ابھی تو ماں نے پلٹ کر سکھ کا سانس لیا ہوگاکہ کیا ہنگامہ بپا ہوتا ہے ان نونہالوں کے اسکول جاتے وقت، ابھی تو وہ کھڑے ہوئے کپٹرے ، ناشتے کے برتن کچھ بھی سمیٹ نہ پائے تھے کہ بہت کچھ بگڑ گیا۔ سب کچھ بگڑ گیا۔ سب کچھ اُجڑ گیا۔ یہ پہلی بار تو نہیں ہوا ۔ اور۔آخری بار بھی نہیں۔
کتنی معمولی سی بات ہے اسکول وین کے سلنڈر پھٹ جاتے ہیں۔ کبھی اسٹیشن ماسٹرکی غفلت سے بچوں کی وین پھاٹک بند نہ ہونے کے سبب ٹرین کے نیچے آجاتی ہے۔ وین میں آگ بھی یوں لگتی ہے کہ وہ مکمل طور پر جل جاتی ہے۔ کوئی حفاظتی دروازہ کوئی کھڑکی نہیں ہوتی، نہ بچوں کو ایمرجنسی حالت میں نکا لنے یا بچنے کی کوئی تربیت۔ یہ تو اسکو ل وین ٹہری۔ یہاں تو فیکڑیوں میں آگ لگ جاتی ہے تو سینکڑوں لوگ عمارتی سامان کی طرح جل کر کوئلہ ہوجاتے ہیں۔ بس اک چار کالمی خبر لگتی ہے۔”نیوزبریک”کے لئے ایندھن فراہم ہوجاتا ہے۔ اخباری نمائندے، چینیلز کے نمائندے (جو اب ہنگامی حالات کی کواریج کر کے اتنے ماہر ہوگئے ہیں کہ غیر ہنگامی حالات میں انکی نوکریاں خطرے میں پڑ جائینگی)۔
جھٹ پٹ پہنچ کر ہرہر زاویے سے اپنے چینل کو بریف کرتے ہیں۔ کچھ دیر گہما گہمی ہوتی ہے یعنی ایک وقفہ آکے نیوز بریک تک۔ کیونکہ اب تو ایک ہنگامہ پر موقوف ہے گھر کی رونق۔ کچھ دیر رقت آمیز مناظر ٹی وی اسکیرینز کی زینت بنتے ہیں۔ وجوہات عموماََ ایک جیسی ہوتی ہیں اور بہت معصوم سی ہوتی ہیں کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔ پھر ریسکیوں کا عملہ ایدھی اور چھیپا کے رزادار پہنچ جاتے لاشیں اور زخمی ہسپتال پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ پھر صدر مملکت اور وزیراعظم تعزیتی بیان جاری کردیتے ہیں اپنے گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں اہلِ خانہ سے دلی ہمددی کا اظہار کرتے ہیں، پیاروں کی جدائی کو برداشت کرنے کی دُعا کرتے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھ کر متعلقہ حکام سے حادثہ کی رپورٹ طلب کرلی جاتی ہے۔ غم زدہ خاندانوں کو تعاون کی یقین دھانی کرائی جاتی ہے(یہ تو غمزدہ خاند ان ہی بتا سکتے ہے کہ کتنا تعاون اور کس سے حاصل ہوتا ہے انہیں آج تک فیکڑی کے متاثرین کو معاوضہ نہ مل سگا)۔
پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جو رپورٹیں ہر ماہ شائع ہوتی ہیں، اس سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہم کس معاشرے کے شہری ہیں ۔18معصوم بچے اور اساتذہ ۔ اتنا اندوھنا ک واقع کسی اور ملک میں رونما ہوتا تو کچھ دیر کے لئے کاروبار مملکت ٹہر جاتی۔ اعلیٰ سطی حکام متعلقہ وزراء ، افسران وہاں پہنچ جاتے۔ کتنے لوگ اپنی ذمہ داریوں سے استعفی دے دیتے۔ مجرموں اور حادثے کے ذمہ داران کو عبرتنا ک سزائیں دی جاتیں۔
یہ ہمارا معاشرہ ہے۔ مسلمانوں کا معاشرہ۔ مسلمان کی تو جان اس طرح مقدس ہے، محترم ہے جس طرح ذی الحج کا مہینہ، مکہ کا شہراور خانہ کعبہ کی حرمت۔ لیکن دنیا کہ نقشے پر ایک اسلامی جمہوریہ میں یہ جان اتنی غیر مقدس ، غیر محترم اور ارزاں ہے کہ صرف سال بھر کہ اعداد وشمار ایک شہر کراچی کے ہی لے لئے جائیں تو مرنے والوں کے اعدادو شمار وہ ہونگے جو جنگوں میں ہلاکتوں کے اعدادوشمار ہوتے تھے۔
معاشرے کا اجتماعی نظم اور حکومت جیسے ادارے قائم ہی اسی لئے ہوتے ہیں کہ عوام کی جان، مال اور آبرو کوتحفظ فراہم کریں۔ ان واقعات کے مجرموں کو اگر ایک بار عبرتناک سزا مل جاتی تو کبھی یہ واقعات رونما نہ ہوسکتے ۔نہ صرف نظام بگڑ گیا بلکہ حکومتی مناصب پر فائز شخصیت ہی ان واقعات کی اصل مجرم اور ہر طرح کے قاتلوں کی سر پرست اور پشتیبان ہیں۔جہاں محافظ قاتلوں کو تحفظ فراہم کریں اور لوگ کہیں کہ جرائم کو ختم کرنا ہو تو تھانوں کو ختم کردیاجائے اور شھادتیں موجود ہوں کہ جہاں نیا تھانہ قائم ہوتا ہے وہاں مجرموں کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ اور دکھ تو یہ ہے کہ موجودہ نظام نہ صرف مجرموں کی پرورش کرتاہے بلکہ انہیں معزز بناتا ہے۔ معاشرے کے بڑے مجرم اور لیڈر اپنے جرائم کے حساب سے مناصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ کرپٹ ہے وہ اتنا ہی بااختیار ہو اپنے محکمے میں۔
جب تک اس سماج میں مجرموں کو تحفظ ملتا رہے گا۔وہ سزا سے بچتے رہیں گے۔ یہ واقعات روز اسی طرح اخبارات کی زینت بنتے رہیں گے۔کیا اس اندوھناک اور المنا ک واقع کو ٹیسٹ کیس نہیں بنایا جاسکتا کہ ناقص گیس سلنڈر تیار کرنے اور انکی چیکنگ میں کوتاہی کہ ذمہ داروں کو عبرتنا ک سزائیں دی جائیں۔ ہم اس نئی حکومت سے پھر نظام ِ عدل کی توقع وابستہ کیے لیتے ہیں کہ بقول اقبال
آرزو راز در دل خود زندہ دار
تانگر دد مشتِ خاکِ تو مزار
( آرزو کا چراخ کم سے کم دل میں جلائے رکھو، اس آرزوکو دل سے لگانے دو آگر یہ بھی ختم ہوگئی تو یہ مٹھی بھر مٹی کے پتلے چلتی پھرتی قبریں بن جائینگے گی)۔
فیس بک تبصرے