جاگنگ ٹریک پرتیزی سے چلتے ہوئے کئی شناسا اور اجنبی چہرے نگاہوں سے گذر رہے تھے۔ ابھی تیسراچکر پورا بھی نہ ہوا کہ وہ بری طرح ہانپ گیا ،عکس نے مڑتے ہوئے کنکھیوں سے پیچھے دیکھا،گذشتہ پندرہ منٹ سے جس کے قدموں کی چاپ اپنے دل و دماغ پر محسوس کر رہا تھا۔ پسینہ اس کے مساموں سے بہہ نکلا۔
’’ میرا تعاقب! خدا جانے حقیقت ہے ہا واہمہ۔۔۔‘‘ قریبی سنگی بنچ پر بیٹھنے کا ارادہ کیاتو جگہ کہاں تھی؟ گہرے گہرے سانس لیتا ہوا تالاب کے کنارے ٹک گیا۔ ٹھہرا ہوا پانی ! اس کا چہرہ منعکس کرنے لگا،وہ جلدی سے پیچھے ہو ا۔ننھے منے بچوں کا شور اس کے اندر اترنے لگا۔ مگر جلد ہی قلفی اور غبارے والے پارک میں داخل ہوئے تو بچوں کا رخ ادھر کو ہوا۔
اچانک فوارہ چلنے سے تالاب کی پر سکون سطح تلاطم بپا ہوگیا۔ مصنوعی پھواراس کے اطراف میں گھاس پر قطرہ قطرہ گرنے لگی۔ ٹھنڈک کا احساس ہر شے پر حاوی آگیا اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کوئی اس کے مقابل آکھڑا ہوا ہے۔ نظر انداز کرکے گذرنا چاھا کہ مانوس آواز نے روک لیا۔عکس ٹھٹھک گیا۔
’’ سنیں ‘‘ ’’ سنائیں ‘‘ اس کی شگفتگی لوٹ آئی۔
’’ اداس یاپریشان ہو ؟ ‘‘ ’’ اوں ہوں ‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ غمگین ، الجھے ہوئے۔۔۔ ‘‘ ’’ کس بات پر بھلا ؟ ‘‘ ابرو ایک لمحے کو سکڑے اور پھرپھیل گئے۔
’’ لگ رہا ہے کچھ کچھ ایسا ‘‘ ’’ محض تھکن ہے دو چار روز میں اتر جائے گی ‘‘ اس نے شانے اچکائے اور کہنیاں گھاس پر ٹکا دیں۔رفتہ رفتہ عکس اس سے بات کرنے آمادہ نظر آنے لگا۔
’’ ایک بات پوچھوں ؟ ‘‘ اجنبی کی سرسراتی آواز ابھری اور پھر وہ گردو پیش پر نظر ڈال کر اس کی جانب جھکا۔
’’ ضرور ‘‘ عکس کادل اچھل کر حلق میں آگیا (نہ جانے کیا سوال کر بیٹھے)
’’ ہارنے والے۔۔۔کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ لہجہ ملائم آواز مدھم مگر الفاظ کسقدر نوک دار تھے۔ اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑگئی مگر پھر خود کوسنبھال لیا۔ ’’ اوہ ‘‘ اس کا قہقہہ جو بلند ہوا تو فضائوں میں ارتعاش پیدا کر گیا،آنکھوں سے پانی کی صورت اتر آیا۔
’’ بہت کچھ کر سکتے ے ے ہیں ، بلکہ سب کچھ کرسکتے ے ے ہیں ‘‘
’’ تو پھر یہ آنسو؟؟ ‘‘ اجنبی نے عجیب بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو درختوں کے سرسراتے پتوں کو دیکھتا رہا۔
’’ ہارنے والے گریہ کرتے ہیں ‘‘ اجنبی بلا کا سفاک تھا۔
’’ یہ شکست نہیں ،بائیکاٹ ہے کھلی دھاندلی کے خلاف ‘‘
’’ جب سارے منصوبہ ساز یکسو ہوں راہ روکنے پر! محافظ گھر کے مکینوں کو دھوکا دیں! قوم کی آنکھیں کوئلوں کو دیکھنے، برتنے کی عادی ہوں کہ ہیروں کی پہچان ہی نہ رہے، زمانہ چال چل جائے۔۔۔‘‘ دھیمے سے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’ پھر تمہارے تھنک ٹینک ایک کیوں نہ ہوئے؟ چال کا توڑ، دھوکہ کا پول۔۔۔‘‘ بحث طول پکڑ رہی تھی، ’’کاش یہ خاموش ہوجائے ‘‘ اس نے چاہا۔مگر چاہنے اور ہونے میں فرق کا نام حقیقت ہے۔
’’ یہ مباحثے، اخباری کالم اور سوشل میڈیا کچھ مختلف کہانی سنارہے ہیں ‘‘
’’ عزم نونشست میں کل کیا گذری؟؟ بس اسی قدر بھروسہ ہے قیادت پر؟؟‘‘ عکس جیسے گہری نیند سے بیدار ہوا۔
اتنی تازہ ترین معلومات! کہیں وہ خفیہ کا آدمی تو نہیں۔۔۔کل کی نشست! اسے جھرجھری آگئی۔ جو افراد الیکشن سے جس قدرلاتعلق تھے تنقید و طنز میں طاق ہوگئے۔ پیسہ نہ وقت، صلاحیتیں نہ گھر کچھ بھی نہ پیش کیا مگربد گمانی، بدلحاظی میں پیش پیش رہے۔ الیکشن فنڈ واپسی کا مطالبہ! اس کا بس نہ چل رہا تھا کہ ان آنکھوں کو نظارہ کرادے کہ امیر نے کیسے نہ صرف اپنی گھریلو زندگی تحریک پر قربان کردی ہے؟ کس طرح قوم کے لئے آسائش و آرام تج دیاہے؟ اگر جیت جاتے تو بانس پر چڑھادیتے! اپنی وفاداریوں کا صلہ چاہتے، موقع پرست عناصر! کل بھی اس کی آنکھیں نم ہوئی آج بھی ضبط کا یارا نہ رہا۔ بلا تفریق رنگ ونسل آزمائش کی گھڑی میں قوم کی خدمت ، رہنمائی اور دل سوزی کا صلہ بھلا کوئی یوں بھی دیتا ہے۔ پلکوں سے ستارے ٹوٹ کر گرتے رہے۔
’’ بس میرے دوست ، اب اور نہیں ‘‘اجنبی کاہاتھ اس کے شانے پرجم گیا۔تلخ وتند محاسبہ کے بعد دلسوزی پر عکس چونکا۔
’’ پھر کیا سوچا؟ ‘‘ اس نے کندھے پر گرفت کی سختی محسوس کی۔ ’’ تبدیلی کے بارے میں ‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’ کیسی تبدیلی؟؟‘‘ عکس نے الجھن سے پوچھا۔ ’’ پارٹی تبدیلی ‘‘ اس نے پراسرار انداز اختیار کرلیا۔
’’ ہرگز نہیں ، تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟‘‘ عکس خونخوار نگاہوں سے گھورنے لگا۔
’’ تو یہ پژمزدگی۔۔۔یہ تنہائی ‘‘ اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
’’ تم۔۔۔ ہو کون؟؟ ‘‘ اس نے اجنبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیدھا سوال کیا۔مگر اس نے کوئی نوٹس ہی نہ لیا۔
’’مجھے غلط نہ سمجھو۔۔۔ یہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے، یہ برتری کے دعوے، مباحثوں کی گرمی، سرکاری اور بیرونی پشت پناہی تمہارے ارادوں کے آگے کچھ بھی نہیں ‘‘
’’ ورنہ منظم دھاندلی کے سہارے جیتنے والے جشن بپا نہ کرتے۔۔۔ ‘‘
’’عنقریب میڈیا کے جادو گروں کا سحر ٹوٹ جائے گا۔‘‘
’’ رجوع الی ﷲ ،رب العالمین کے آگے لغزشوں پر گڑگڑانا، خستہ کاوشوں کوپیش کرنا آج کاایجنڈاہے ‘‘
’’ لمحہ موجود کا فسوں توڑ ڈالو مگر اپنے حوصلوں کو ٹوٹنے نہ دو، اٹھو اور آگے بڑھو۔‘‘ وہ رکے بغیر بولتا چلا گیا۔
’’ من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی ‘‘ ارد گرد شام کے دھندلکے رات کی سیاہی میں بدل رہے تھے، مگر اسکے اندر طلوع سحر کا سماں بندھ گیا۔چہرہ پر اطمینان کی جھلک نمایاں تھی۔کسی فیصلہ پر پہنچنے کا اطمینان!
’’ میں نے پہچانا نہیں ابھی تک ‘‘ عکس کاتجسس برقرار تھا۔
’’ بے حد نزدیک بلکہ میرا وجود تمہارے دم سے ہے ‘‘ اجنبی اور عکس باہم ایک ہوگئے۔
اس نے پودوں کے پائپ سے لوگوں کووضو کرتے دیکھ کر خالق و مالک کی کبریائی کے لئے ہاتھ کانوں تک اٹھا لئے۔
ما شائ اللہ بہت ہی اعلٰی تحریر! ہارنے والے کیا کرسکتے ہیں ؟ در حقیقت وہی کچھ کر رہے ہیں باقی تو بس اپنے سکرپت کو فالو کر رہے ہیں .مایوسی اور نا امیدی کو ہمت اور عزم نومیں بدلتا یہ بلاگ وقت کی بہت ضرورت ہے! شاید اس سے ان کھسر پھسر کر نے والوں کو افاقہ ہوجن کا الیکشن کے بعد سارا وقت افسوس میں ہی گزر رہا ہے.