ظہر کا وقت ہوتے ہی قبلے کا تعین کرتے ہوئے کرسیوں کے پیچھے نا ہموار سطح پر سفری جاء نمازبچھا کر نماز کی نیت با ندھ لی۔پچھلے ۵؍۶ گھنٹے سے اس مختصر سی جگہ پر ہم سب بیٹھے تھے۔ جی ہاں ! یہ ۱۱؍مئی تھی یعنی پولنگ ڈے !ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب لگا کیمپ تھاجس کے ذمہ داران صبح سات بجے اطاعت نظم کے تحت پہنچے ہوئے تھے۔ان میں جوش و خروش بھی تھا اور جیت کی امید بھی! ان میں بہت سے ایسے تھے جو آج پہلی دفعہ گھر سے نکلے تھے،بہت سی ایسی خواتین جو طبی لحاظ سے بیڈپر تھیں وہ بھی اس فیصلہ کن گھڑیوں میںپیچھے نہ تھیں ۔ ان سب کو دیکھ کرہم حوصلوں سے لبریز تھے۔ نماز میں بھی ہم ان ہی جذ بات سے پر تھے،دلوں میں خد شات بھی تھے اور وسوسے بھی! اور کیوں نہ ہوتے؟
صبح آٹھ بجے سے پولنگ کے منتظر تھے ۔ ووٹرز تو دھڑا دھڑ آ رہے تھے مگر پولنگ اسٹیشن پر پڑا تالا تھا کہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہا تھا!بار با ر پوچھنے پر بھی کوئی حوصلہ افزا جواب نہ مل رہا تھا۔ فون کے ذریعے دوسرے ساتھیوں سے رابطے کیے تو معلوم ہو ا کہ سب جگہ یہ ہی صورت حال ہے! وجہ یہ ہے کہ جہاں سے جیت کا امکان نہیں تھا وہاں پولنگ عملہ اور سامان بھیجا ہی نہیں گیا ہے۔اسی انتظار میں ساڑھے گیارہ بج گئے۔اس دوران کئی افراد دوبارہ بھی آ کر واپس ہو رہے تھے مگر ہنوز مندی تھی۔مرد و خواتین لمبی لمبی لائینیں لگائے کھڑے تھے۔ بہت سے لوگ گاڑیوں میں اور بہت سے سایہ دار جگہوں پر چٹائی لگائے بیٹھے تھے۔لوگوں کا ضبط جواب دینے لگا تھا۔اس وقت بہن یاسمین اپنا ووٹ ڈالنے آ ئیں توصورت حال پر بہت برانگیختہ ہوئیں ۔ان کے استفسارپر لوگ مہمیز ہوئے اور میڈیاسے رابطے کر نے لگے۔ گیٹ پر بیٹھی پولیس نے بھی ایکشن لیا تو نہ جانے کہاں سے رینجرز آ گئی مگر عدم مداخلت کا بھاشن یاد آ نے پر فورا پلٹ گئی۔
اس موقع پر جب لوگ گیٹ پر تکرار میں موجود تھے ایک سرخ گاڑی نمودار ہوئی او ر اس میں سے یک آ دمی دو تھیلے لیے اترا جس کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔ لوگ اس کی زبان دانی پر مزیدبھڑک اٹھے اور وہ جلدی سے گیٹ کے اندر داخل ہو گیا۔ پولنگ کا آغاز بارہ بجے تک نہ ہو رہا تھا اور جواب یہ ملا کہ سامان غلط آ گیا ہے ۔پھر فورا ہی وہ ہی مذ کورہ آ دمی (نہ جانے اس کا status کیا تھا؟)باہر جانے کے لئے نکلا کہ درست سامان لانے جارہاہے تو افرادنے اس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک خاتون تو پیچھے لپکیں کہ یہ جہاں جائے گا ہم اسے نہیں چھوڑیں گے!اس موقع پر ہم خواتین نے صورت حال پرالیکشن کمیشن کو بھیجنے کے لئے ایک محضر نامہ تیار کیا اور دستخط کروانے لگے۔
لوگوں کا جوش و خروش دید نی تھااور وہ بڑھ چڑھ کر اپنا نام اور تفصیلات لکھ رہے تھے مگر مخالفت بھی نظر آ رہی تھی۔ اس موقع پرپولنگ شروع ہونے کا اعلان ہونے پر ہم نے اپنے پولنگ ایجنٹس کو دعائوں اور ہدایات کے ساتھ اندر روانہ کیا۔ اور خود نماز کی نیت باندھ لی۔ نماز کے دوران ہی ہمیں اپنے نام کی پکار سنائی دینے لگی تھی کیونکہ اس کیمپ کی ذمہ داری ہماری تھی۔۔ جلدی سے سلام پھیر کر متوجہ ہوئے تو بات سن کرہونق سے ہوگئے۔بائیکاٹ کی بات ہی ایسی تھی! اب مر حلہ تھا بوتھ کے اندر داخل ہو کر اپنے پولنگ ایجنٹس کو با حفاظت با ہرنکالنا! وہاں پہنچے تو بڑی گہما گہمی تھی ۔ہمیں پتہ چلا کہ ابھی صرف سات ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں مگر بیلٹ باکس بھر چکاہے!اس کے باوجودبائیکاٹ کا لفظ سن کر ہمارے پولنگ ایجنٹس کافی پریشان ہوئے۔ انہیں اتنے طویل انتظار کے بعد اب تو اپنی ذمہ داری نبھانے کا موقع ملا تھاجس کے لئے انہوں نے کافی تیاری کی تھی۔ خیر اطاعت نظم کا بہترین مظاہرہ نظر آ یا۔ کچھ ہمارے ووٹرز جو اتنی ردو کد کے بعد بیلٹ پیپر حاصل کر چکے تھے اپنا ووٹ ڈالنے پر بضد تھے۔ خیرہم بائیکاٹ لکھ کر اپنے تما م ایجنٹس کے ساتھ باہر نکلے توکانوں میں جملہ پڑا کہ دھماکہ ہونے والا ہے ۔ بھاگم بھاگ کیمپ تک پہنچے تو مردانہ نظم کی طرف سے پیغام آیا کہ جلدی سے کیمپ چھوڑ دیں ۔پولنگ اسٹیشن سے ملحقہ متحدہ کا سیکٹر آفس گویا ایک اسلحہ خانہ ہے جہاں سے کسی خیر کی توقع عبث ہے!جلدی جلدی سامان سمیٹا ۔ پولنگ کے عملے کے لئے کھانا آچکاتھا ۔بریانی کی تھیلیاں تمام لوگوں کو دیں اور گھر کی طرف روانہ کیا۔ زیادہ تر افراد قریب کے تھے لہذا پیدل ہی روانہ ہو گئے۔
گھر پہنچے تو فون اور SMSکا تانتا بندھ گیا ۔کچھ افراد کو لنچ کے بعد جوائن کر نا تھا وہ اب نئی صورت حال کے حوالے سے ہماری ہدایت کے منتظر تھے۔ احساس ذمہ داری کی انتہا ملاحظہ ہو ! اﷲتو سب کا اجر محفوظ کرنے والاہے! وہ جو صبح سے مٹی پھانک رہے تھے اور وہ جو گھروں میں منتظر تھے! کوئی بھی اس سے محروم نہیں ہو گا ان شاء اﷲ!کچھ فون بیرون ملک سے بھی آئے جو اس فیصلے کا سبب بنے والے حالات پر پریشان تھے۔ وہ افرادجو اس پورے انتخابی عمل میں دل و جان سے ہمارے ساتھ تھے اس فیصلے پر بے چینی کا شکار تھے۔ اس موقع پر سورۃفتح کا پس منظراورہر آیت کا ترجمہ یاد آ رہاتھا ۔ ہم تو بس فتح کی خوشخبری پڑھ کرجھوم اٹھتے ہیں۔اس سے پہلے ہونے والی صلح حدیبیہ پر صحابہ کتنے پریشان ہوئے تھے۔ذرا ان کی کیفیات یاد کریں ! مومنین کے دل اسی طرح بے یقینی کی منزل سے گزرتے ہیں ۔ سورہ احزاب کا تر جمہ دیکھیں تو لگتا ہے آ ج ہی کے دن کے لئے نازل ہوا ہے! کیا منظرکشی ہے ؟ کلیجے منہ کو آ رہے تھے۔۔۔۔۔اﷲکا شکر ہے اپنی قیادت کے فیصلے پر بے انتہا اطمینان تھا اور دوسروں کو بھی مطمئن کر نے کی کوشش جو عمر اور فہم میں کم ہونے کی وجہ سے حد درجہ دل گرفتہ تھے! لیکن ہمارا بھی دل چاہ رہاتھا کہ ہم بھی کسی سے حوصلہ حاصل کر سکیں اور یہ تمنا بھی بہت جلد پوری ہوگئی جب ڈاکٹر رخسانہ نے تمام کارکنان سے آن لائن خطاب کیا۔ ان کی تجویز کردہ سورۃالحج کی آیات تو جیسے ہرسوال کا جواب دے رہی تھیں ۔ اس کا ہر نکتہ ہمارے لئے SWOT ANALYSISبن رہا تھا۔
http://goo.gl/et15q
انتخابات کو گزرے ہفتہ ہو چکا ہے۔شفافیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جن کے بارے میں گمان تھا کہ یہ خونی ثابت ہونگے ۔لوگ مطمئن ہیں کہ خون خرابہ نہ ہوا مگر کیاواقعی ایسا ہی ہوا ؟ یہ تو جماعت کے قائدین کی بصیرت تھی جس نے خون کی ندی بہانے کا ناپاک ارادہ بر وقت فیصلہ کر کے ناکام بنا دیا۔اور حالات اس کی درستگی ثابت کر رہے ہیں ۔ حق کبھی ناکام نہیں ہوتا! کم ظرف اوردنیاوی پیمانوں سے تولنے والے یقینا اسے ناکام کہیں گے؟ مگر باطل اتنا چالاک ہے کہ اسے اندازہ ہے کہ وہ کہاں سے چوٹ کھا سکتا ہے! لہذا اسے ناکام ثابت کرنے پر پورا زور صر ف ہورہا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ اپنی بات یہاں پر ختم کر تے ہیں! ہم سمیت ہزاروں بلکہ شاید لا کھوں اپنا حق ووٹ استعمال نہ کر سکے ۔ یہ تھی اس آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حقیقت! اگلی بات کسی دوسر ے بلاگ کے تحت ہوگی!
فیس بک تبصرے