“نیا پاکستان‘‘، چند سوال؟

بالا ٓخر دھند کچھ چھٹتی دکھائی دے رہی ہے لیکن جو کھیل اب ملکی سیاست میں بڑی ہوشیاری سے کھیلا جا رہا ہے اس نے کئی اہل ِ دانش کی آنکھوں پربھی غفلت کی پٹی باندھ دی ہے۔ ــ’’نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ ایک بہت خوش نما فریب ہے ،ہمارا بھی بڑا دل چاہا کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر ڈالیں اور اپنی بھولی بھالی قوم کی طرح عمران خان کی شخصیت کے قصیدے پڑھیں مگر کیا کیا جائے ان حقائق کا جو چلا چلا کر اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور جن سے نظریں چرانا اب ممکن نہیں رہا۔

 

تحریک انصاف کے بارے میں اکثر افراد بڑی خوشی سے تذکرہ کرتے ہیں کہ ’’ آگئی اور چھا گئی‘‘ ۔ایک محترم تجزیہ نگار نے تو اسے بائیں اور دائیں بازو والوں کا وہ حسین امتزاج قرار دیا جس کی اس قوم کو ان کے بقول ضرورت تھی لیکن حقیقت میں تحریک انصاف دائیں بازو والوں سے تو یکسر خالی ہے بلکہ وہ تو دائیں بازووالوں سے اس قدر خائف ہیں کہ دینی جماعتوں سے مئو قف کی کسی حد تک ہم آہنگی کے باوجود انہوں نے دینی جماعتوں سے فقط اس لئے اتحاد پسند نہیں کیا کہ اس سے ان کے بین الاقوامی تاثر پر برا اثر پڑے گا حالانکہ اگر یہ اتحاد وجود میں آجاتا تو پاکستانی قوم کے لئے اس سے بڑی اچھی خبر کوئی نہیں ہو سکتی تھی، اس صورت میں ملک موروثی سیاست اور دہشت گرد جماعتوں سے یقینا آزاد ہوجاتا۔ موجودہ صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کو کامیابی نصیب ہو جاتی ہے تو اسے ان ہی بدنام جماعتوں سے کہیں نہ کہیں حکومت بنانے کے لئے اتحاد کرنا پڑے گا اور اس وقت یہ تمام دعوے ریت کی دیوار کی طرح ڈھ جائیں گے جو کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

 

متحدہ قومی مو منٹ کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کا رویہ بہت مشکوک ہے۔ عمران خان کے سیکورٹی خدشات کے باعث کراچی تشریف نہ لانے کا فیصلہ قابلِ فہم تو اگرچہ نہیں ہے کیونکہ اسی کراچی میں جماعت اسلامی نے متحدہ کی غنڈہ گردی اور ہڑتال کے با وجود ایک بڑا جلسہ منعقد کر کے(جس میں جماعت کی قیادت متحدہ پر کھل کر گرجتی برستی رہی) اس بات کا ثبوت تو بہر حال فراہم کر دیا ہے کہ متحدہ کراچی کی ٹھیکے دار نہیں ہے، اگر عمران خان بھی اسی طرح کے چند جلسوں کا انعقاد کر کے متحدہ کو کراچی میں اپنی جماعت کی طاقت کا ثبوت دے دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔اس سے تحریک انصاف سے منسوب اس تاثر کی تو نفی ہو جاتی کہ تحریک انصاف نے متحدہ سے کوئی مفاہمت نہیں کی ہے بلکہ وہ کراچی کو متحدہ کے چنگل سے نجات دلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فقط یہ تاثر ہی کراچی کے مظلوم شہریوں کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہ ہوتا۔ محترم عمران خان اگر کراچی تشریف نہ بھی لاتے اور لاہور سے ہی کچھ بیانات جاری کر دیتے جن میں کراچی میں بد امنی کے خاتمے کا ذکر ہوتااور متحدہ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ ہوتا تب بھی کراچی کے عوام خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ جتنا وہ مسلم لیگ (ن) کی مدح سرائی کرتے ہیں اگر اس کا عشرعشیر بھی متحدہ کے لئے صرف کر دیتے تو کراچی کے عوام اس وقت اپنے مستقبل کے حوالے سے اندیشوں اور وسوسوں کا شکار نہ ہوتے۔ ہر صاحب نظر اس وقت بخوبی متحدہ اور تحریک انصاف کے مابین طے پانے والے خفیہ معاہدے یعنی ــ’’پنجاب تمہارا، کراچی ہماراــ‘‘ کو ملا حظہ کر سکتا ہے اور یہ کراچی کے لئے خدانخواستہ اگلے پانچ سال کے ایک بدترین بھیانک خواب کی ضمانت ہو سکتا ہے۔

 

ایک قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں موجود وہ طبقات جو اسلامی حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے، اس وقت ببانگِ دہل عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں؟ کیا یہ بات کچھ مشکوک نہیں کہ بیک وقت دونوں طبقات یعنی عوام اور خواص میں عمران خان کی تائید کی جا رہی ہے حا لانکہ دونوں طبقات کی خواہشات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور خواص کے مفادات کا تحفظ در حقیقت عوام کا استحصال ہے۔ عوام سے معصومیت کی توقع کی جاسکتی ہے، خواص سے نہیں،پھر اس بات کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا بے لگام گھوڑے کی طرح آزاد الیکٹرانک میڈیا تحریک انصاف کے حق میں اتنا مہربان کیوں ہے ؟ جبکہ اس بات پر تمام عوامی طبقات بشمول سوشل میڈیا کا اتفاق ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی باگ دوڑ بین الا قوامی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے، اگر تحریک انصاف واقعی وطن سے مخلص ہے تو بین الاقوامی طا قتوں کو اس کی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مخالفت کرنے میں کیا امر مزاحم ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھیل وہی پرانا کھیلا جا رہا ہے مگر مہرے نئے ہیں؟غور کیجیے۔

فیس بک تبصرے

“نیا پاکستان‘‘، چند سوال؟“ پر 4 تبصرے

  1. مضمون نگار کا مذہبی ٹھیکیداروں کی چودہ سو سالہ تاریخِ ضرر رساں کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہُوئے غیر منصفانہ رجحان پوری تحریر میں عیاں ہے۔ دینی جماعتیں پہلے آپس میں تو اتحاد پیدا کریں پھر دوسروں سے اتحاد کی توقع کریں اور ایک دوسرے کے مقلدین پر کفر کے فتووں سے تو باز آئیں۔
    ضامن جعفری
    کینیڈا۔

  2. عمران خان دعوے دیانت اور قوی ترقی کے کرتا ہے لیکن ٹکٹ ایسے لوگوں کو بھی دیئے جو بدنامِ زمانہ ہیں تو پھر تبدیلی کیسی آئے گی

  3. جو مقبولیت آج عمران خان کو ملی ہے وو جماعت اسلامی کو بھی مل سکتی تھی اگر وہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور دوسری کرپٹ جماعتوںسے اتحاد کر کے ان کے گناہ اپنے سر نہ لیتی رہتی . دوسری بات اسس کالم سے متاثر ہو کر جماعت اسلامی کو پھر بھی کوئی ووٹ نہیں ملنا اس کا فائدہ بھی مسلم لیگ ن ہی لے جاے گی . اوپر دیے گیے ایک قاری کے تبصرے سے یہ ثابت بھی ہو گیا ہے .

  4. بر وقت اور درست تجزیہ ہے! ھقیقت یہ ہے کہ عمران خان ایک اور پائیڈ پا ئیپر ہے جس کے پیچھے پوری قوم دوڑ رہی ہے . اس سے پہلے الطاف حسین یہ کام کر چکا ہے نئی قیادت کا ڈرامہ کر کے! اور پوری قوم کو ایک بند گلی میں چھوڑ کر لندن میں عیش کر را ہے .تحریک انصاف میں کیا نیا ہے ؟ سب تو پرانے ہیں یا پھر گاتے بجاتے یوتھ جن کا کوئی وژن نہیں . اے اللۃ اس قوم پر رحم فر ما!

Leave a Reply