’’عاشی!!‘‘
’’ہوں!‘‘
’’ یہ زندگی کتنی خوبصورت ہو جاتی ہے ناں! جب آپ کو اپنی کھوئی ہوئی متاع مل جائے تو۔ کوئی ایسی چیز ۔۔۔ جو کہ آپ کے وجود کا حصہ ہونا چاہئے تھی ‘‘
’’ہاں! واقعی! یہ تو ہے مگر بھئی خیریت تو ہے ناں؟آج تو بڑا رومینٹک موڈ لگ رہا ہے جناب کا۔ کہو تو کیفے ٹیریا کا رخ ہوجائے اور وہاں تمہاری طرف سے کچھ ہوجائے؟آخر اس اچھے موڈ کا کوئی تو فائدہ اٹھایا جائے۔ویسے آج بڑے عرصے بعد تمہیں کچھ نارمل باتیں کرتے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔‘‘
عائشہ جویریہ کی بات کہیں سے کہیں لے گئی تھی۔مگر اس کا ایک اثریہ ضرور ہوا کہ جتنی سنجیدگی سے جویریہ نے اپنی پوری ہمت مجتمع کر کے یہ بات کہی تھی ، عائشہ کے ایک چٹکلے نے اس میں مٹھاس بھر دیا اور یوں جویریہ کے چہرے پہ مسکراہٹ کے پھول کھل اٹھے۔ جویریہ اور عائشہ ایک ہی میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ تھیں ۔تیسرے سال میں ہونے کی وجہ سے ان کی کلاسز کا آغاز تاخیر سے ہوتا تھا، لہٰذا ان کا صبح کا وقت کالج لان میں ہی گزرتا تھا۔اس وقت بھی وہ اپنے کالج کے لان میں بیٹھی تھیں۔ آج موسم ابر آلود تھا ۔صبح سے ہی بادل برسنے کے لیے آسمان پر ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ ہوا میں ہلکی سی خنک تھی اور لان میں چلنے والی فرحت بخش ہوا اپنے ساتھ گلاب کے پھولوں کی مہک اپنے شانوں پر اڑائے ان کی سانسوں کو معطر کر رہی تھی اور آس پاس کے درختوںپر موجود کوئل کی کوک دلفریب نغمہ الآپ رہی تھیں۔
’’کیا ہے عاشی!! میں سنجیدہ ہوں اور تمہیں مذاق سے فرصت نہیں۔ کبھی تو سنجیدہ ہو جا یا کرو ۔ اب میں تم سے۔۔۔ اچھا اچھا غلطی ہوگئی، اللہ توبہ، لو اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوں۔ اب نہیں کروں گی پلیز!!!۔‘‘
جویریہ مزید کچھ کہتی کہ عائشہ نے فوراََ بات کاٹ کر اس کو ہر دفعہ کی طرح پھر رام کر لیا۔عائشہ کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ وہ کسی کو بھی آسانی سے منا لیتی تھی، اس لیے کلاس کی تمام طالبات نے اسے متفقہ طور پر اپنی کلاس کا سی آر منتخب کر لیا تھا۔ ٹیچر سے کوئی بات منوانی ہوتی تو یہ کام عائشہ کے لیے چٹکی بجانے سے زیادہ سہل ثابت ہوتا۔ اس سب کے پیچھے عائشہ کی پر کشش شخصیت کا بڑا عمل دخل تھا۔ یہی وجی تھی کہ وہ بہت جلد کالج میں’’ انجمن حلقٔہ یاراں‘‘ کی نمائندہ مشہور ہوگئی تھی ، یوں لگتا تھا کہ وہ دوسروں کے دکھ درد اور خوشی و مسرت کی باتیں سننے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے۔ یہی خوبیاں جویریہ کو بھی نظر آئیں اوراس نے اپنا غم ہلکا کرنے کے لیے عائشہ کا سہارا لیا تھا۔
’’ عاشی!!۔۔ آ ج میں بہت خوش ہوں ۔۔۔۔ آج وہ میرے ساتھ ہے تو گویا زندگی میں اب کچھ نہیں بچا جو میری شخصیت کو ممتاز کردے۔ اس کے ساتھ نے میرے وقار میں بے پناہ اضافہ کردیاہے۔میں نے اس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا، مگر تم نے اس کے وجود کا جو نقشہ کھینچا تھا اس نے مجھے بالآخر سوچنے پر مجبور کر دیا بلکہ یوں کہو کہ تم نے مجھے اس کو اپنانے کے لیے زینہ فراہم کر دیا۔‘‘
جویریہ مسلسل درخت پر بیٹھی ایک کوئل کو دیکھتے ہوئے اپنی کہے جا رہی تھی۔ کوئل اس وقت درخت کی کمزور ٹہنیوں سے چھوٹے چھوٹے تنکے جمع کر کے گھونسلے میں جوڑ رہی تھی۔ جویریہ کا کئی روز سے معمول تھا کہ وہ لان میں بیٹھ کر اس کوئل کو تکتی رہتی جو کہ اپنے گھونسلے کی از سر نو تعمیر میں لگی ہوئی تھی۔ گھونسلے پر گز شتہ دنوں کسی کوے نے حملہ کر دیا تھاجس سے اس کے ایک حصہ میں سراخ ہو گیا تھا۔ کوئل روز تنکے جمع کرکے لاتی اور سراخ کو بھرتی۔ اس دوران وہ اپنے بچوں کو بڑی محبت سے گھونسلے کے قدرے محفوظ حصہ میں بٹھا کر رکھتی اور جیسے ہی کوئی بچہ شرارتاََحرکت کرتا ، کوئل کی کوک میں اضافہ ہو جاتا۔ گویا وہ سمجھا رہی ہوتی کہ’’ ایسا نہ کرو ، گر پڑو گے نالائقو۔۔۔‘‘
آج بھی عائشہ سے باتیں کرتے ہوئے جویریہ مسلسل اس گھونسلے کا مشاہدہ کر رہی تھی۔
’’ عاشی! اس کوئل کو دیکھو۔۔۔ ‘‘
’’کہاں؟؟‘‘
’’یہ سامنے درخت پر۔۔۔!‘‘
’’کیوں کیا ہوا اس کو؟‘‘عائشہ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جویریہ سے پوچھاتھا۔
’’تمہیں نہیں سمجھ آیا ناں؟ تم نہیں دیکھ سکتیں۔۔۔ جو اس وقت میں دیکھ رہی ہوں۔ دیکھو تو ذرا غور سے۔۔۔ کوئل اپنے گھونسلے میں ہونے والے سراخ کو بھرنے کے لیے تنکے جمع کر رہی ہے اور سراخ کو بھر رہی ہے۔ یہ اس کا روز کا معمول ہے۔ دیکھو تو۔۔۔ ایک پرندے کو بھی کتنی محنت کرنی پڑتی ہے،اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے۔ ۔ اپنی چار دیواری کی نگرانی کے لیے ۔۔۔اپنے آشیانے کو مضبوط کرنے کے لیے۔ ۔۔ اپنے وجود کو تحفظ بخشنے کے لئے۔۔ بالکل ایسے ہی عاشی!! ہاں ۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی ۔۔۔ میں نے بھی انتھک محنت کے بعد اپنی گمشدہ متاع کو پایا ہے ۔میں نے اسے حاصل کیا ہے۔‘‘
عائشہ مسلسل جویریہ کی باتیں سن رہی تھی ۔عائشہ کی چھٹی حس اتنی بیدار تھی کہ وہ دور سے ہی اندازہ لگا لیتی تھی کہ سامنے والے کے دل میں اس وقت کیا کچھ چل رہا ہے۔پھر اس کی جادوئی شخصیت کے لیے دل میں چھپی بات باہر نکلوانا کوئی مشکل نہ تھا، جبکہ یہاں تو معاملہ بھی جویریہ کا تھا، جو کالج میں اس کی سب سے پکی ہم جھولی تھی۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتیںتھیں۔ دونوں گویا ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ بعض اوقات تو ان کی دیگر سہیلیوں کویوں محسوس ہوتا کہ ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے نا گزیر ہے اور دونوں کو کبھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ عائشہ ، جویریہ کی باتیں اس قدر محو ہو کر سن رہی تھی گویا جویریہ اپنی نہیں ، عائشہ کی باتیں اسے بتا رہی ہو۔
’’ گھر والوں نے بڑی رکاوٹ ڈالی ہوگی۔۔۔ جب انہیں تمہاری پسند کے بارے میں پتہ چلا ہوگا؟‘‘ عائشہ نے پہلی دفعہ گفتگو میں حصہ لیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ جویریہ اپنا دل ہلکا کرلے ۔ جب انسان کوئی حتمی فیصلہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے نتائج سامنے آنے کے بعد وہ اس کے بارے مین دوسروں کی رائے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی معاملہ جویریہ کے ساتھ بھی تھا۔
’’ ہاں عاشی! انسان کو کبھی اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بڑوں سے بھی لڑ جانا پڑتا ہے۔ میرے لئے گھر والوں کو منانا بہت مشکل تھا۔عاشی جب انسان کوصرف اپنے بارے میں جواب دینا ہے ۔۔ جب انسان کو اپنی ہی قبر کی مٹی نصیب ہونی ہے تو ۔۔تو پھر اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق زندگی گزارنے ۔۔اپنی زندگی کے فیصلے خودکرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟کیوں ایسے موقع پر ہم لوگوں کی نظروں میں اجنبی محسوس ہوتے ہیں۔۔۔؟ کیوں ہمارے ارد گرد رکاوٹوں کی دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں۔۔۔؟کیوں پھر لوگ اپنی مرضی کو بغاوت کو نا م دیتے ہیں۔۔۔؟؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سب لوگ جو آپ سے محبت کرتے ہیں ، آپ پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر تیار ہوتے ہیں، جب ان کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کر دیا جائے یا کس کو اپنے وجود کا حصہ بنالینے کی بات کردی جائے تو اس معاشرے میں اپنی ناک کٹ جانے کے خوف سے وہ آپ کی مرضی اور خوشی کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔لیکن عاشی ! جب ارادہ پکا ہو اور بات منوانے کا جنون آپ پر سوار ہو جائے ناں ۔۔۔ توسب کچھ بہت آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ جویریہ! واقعی تم بہت خوش قسمت ہو کہ تم نے اپنی پسند کو حاصل کر لیا ہے۔ میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتی ہوں ۔۔ تم توجانتی ہو ۔۔ جو جنگ تم جیت چکی ہو۔۔ اس جبگ کے بہت سارے سپاہی اپنے اپنے محاذ پر بر سرِ پیکار ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سپاہی تمہاری طرح حوصلہ اور صبر سے کام لیں تو سب کی منزل یقینی ہے۔‘‘عائشہ نے جویریہ کی بات کی تائید کی۔
’’ تمہیں تو یاد ہو گا عاشی! جب میں پہلی بار اس کے ساتھ کالج آئی تھی تو سب مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کسی نے ایسی حرکت بھی تو نہیں کی تھی۔۔‘‘’’ لیکن تم یقین کرو عاشی!! اس کی موجودگی میں مجھے اپنے آپ پر فخر ہو رہا تھا۔ مجھے ذرا بھی شرمندگی کا احساس نہیں ہوا۔اس کا وجود میری عزت و وقار میں بے پناہ اضافہ کر رہا تھا۔‘‘ ’’ واقعی عاشی! میری پسند ، میری چاہت اور میری آرزو میرے پاس ہے ۔۔آج میرا حجاب میرے ساتھ ہے۔۔ آج میں باحجاب ہوں ۔۔با پردہ ہوں اور آج میں حیا کے پاکیزہ احساس سے آشنا ہوں۔ جس خدا نے مجھے تحفظ بخشا ہے۔۔ دعا کرتی ہوں کہ وہ یہ متاع گمشدہ ہماری تمام ساتھیوں کو بھی عطا کرے ۔۔۔ اور اسے ان سب کا مقدر بنا دے اور وہ بھی میری اور تمہاری طرح حیا کی اس جنگ میں فتح یاب ٹہریں۔‘‘
ھجاب واقعی ایک لڑکی کے لئے حفاظت اور طاقت ک ابا عث بنتا ہے.