اور ایک بار پھر کراچی کے عوام کا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا۔ ملک بھر کے عوام بڑے جوش و جذبے سے اپنی تقدیر بدلنے نکلے تھے۔ انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ مفاد پرستوں، دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور گزشدتہ پانچ سال تک عوام کی گردن پر سوار رہنے والے دھوکے بازوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے باہر کردینگے۔ اور پورے ملک میں ایسا ہوا بھی ماسوائے کراچی کے۔ کراچی میں تاریخ کی بد ترین دھاندلی کی گئی۔پورے پورے پولنگ سٹیشنز کو یرغمال بنالیا گیا۔ کئی مقامات پر پولنگ کے عملے کو اغواہ کرلیا گیا۔ دراصل بھتہ اور ٹھپہ مافیا نے اس دفعہ یہ محسوس کرلیا تھا کہ اگر کہیں بھی ڈھیل دکھائی گئی تو پھر بھاگنے کا بھی راستہ نہیں ملے گااس لیے تاریخ کی بد ترین دھاندلی کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ کو چرا لیا گیا۔ حالات یہ بتا رہے تھے کہ اس دفعہ کراچی سے ایم کیو ایم بمشکل چار پانچ سیٹیں جیت سکے گی۔ عوام کا رجحان پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جانب تھا۔ دوسری طرف دہشت گردوں کو اندازہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے ، اس لیے پہلے تو انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح الیکشن کو آگے بڑھایا جائے، اس میں ناکامی کے بعد مظلومیت کا ڈرامہ کھیلا گیا اور خود اپنے ہی بند دفاتر کے باہر دھماکے کروائے گئے۔ان دھماکوں کے ذریعے ایک جانب تو مظلومیت کا رونا رویا گیا دوسری جانب سیکولر اور مذہبی طبقے کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دہشت گردی کا نشانہ صرف سیکولر جماعتیں ہیں ( حالانکہ گذشتہ بارہ برسوں میں سینکڑوں علمائے کرام کو شہید کیا جاچکا ہے، مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد پر کود کش حملے کیے جاچکے ہیں،جماعت اسلامیاور جے یو آئی کی ریلیوں اور جلسوں پر بھی دستی بموں سے حملے کیے گئے جب کہ جے یو آئی کی کارنر میٹنگ میں خود کش دھماکہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ کراچی میں انتخابی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار جماعت اسلامی رہی جس کے متعدد دفاتر جلا دیئے گئے)۔ ان دھماکوں کے بعد پی پی پی ، اے این پی اور ایم کیو ایم نے ایک غیر اعلانیہ اتحاد قائم کرلیا اور مشترکہ پریس کانفرنسز کے ذریعے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دہائی دی گئی ۔ اقوام متحدہ سے اپیل کے دو روز بعد ہی نگران حکومت سندھ کی جانب سے بلائی جانے والے آل پارٹیز کانفرنس میں سترہ جماعتوں نے کراچی میں فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا ۔ ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی نے حیرت انگیز طور پر اس می مخالفت کی۔ یہ بڑی عجیب سی بات تھی کہ جو جماعتیں سب سے زیادہ مظلومیت کا رونا رو رہی تھیں انہی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں الیکشن کے مطالبے کو رد کردیا۔ دراصل اس کی وجہ یہی تھی کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات منعقد ہونے کی صورت میں من مانے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے۔
جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں اسی لیے بار بار الیکشن کمیشن اور نگران حکومت سے یہ مطالبہ کرتی رہیں کہ فوج کو کوئیک رسپانس کے طور پر رکھنے کے بجائے اس کو پولنگ سٹیشن پر تعینات کیا جائے لیکن ان کا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا اور اس کا نتیجہ جہ نکلا کہ کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے ٹھپہ مافیا نے ایک بار پھر کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قبضہ کرلیا۔سوشل میڈیا، فیس بک اور یو ٹیوب پر کراچی میں ہونے والے دھاندلیوں کی ویڈیوز موجود ہیں ان کو دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کو کسیے ووٹ ملتے ہیں۔
کراچی کے حلقے NA-250 قبل از انتخاب دھاندلی کی گئی ، یہاں کے عملے کو اغواء کرلیا گیا، پولنگ کا سامان پولنگ سٹیشن پر نہیں پہنچایا گیا اور یہاں دوپہر دو بجے تک پولنگ شروع نہیں ہوسکی تھی۔ اس نشست پر ایم کیو ایم کو یقینی شکست کا سامنا تھا ، یہاں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان اور پی ٹی ائی کے عارف علوی کا پلڑا بھاری تھا ۔ اس لیے یہاں دھاندلی کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا گیا( پولنگ کے عملے کو اغواء کیا گیا،پولنگ میں تاخیر کی گئی،جعلی ووٹ بھگتائے گئے۔) اس کے علاوہ کراچی کے دیگر کئی حلقوں میں ایم کیو ایم کو یقینی شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور ان کو نظر آرہا تھا کی اب شہر ہاتھوں سے نکل گیا۔ متحدہ کو نظرگلشن اقبال اور گلستان جوہر میں پورے پورے پولنگ سٹیشن پر قبضے کرکے مخالف جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا گیا اور پھر ٹھپہ مافیا نے دل کھول کر پتنگ پر نشان لگائے۔پی ایس 111 پر ایم کیو ایم کے امیدوار صوبائی اسمبلی محمد کامران کو کوئلہ گودام عثمان آباد سے ان کے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ ان کے پاس سے بیلٹ پیپر اور مہریں برآمد ہوئیں ۔ موصوف وہاں پتنگ پر مہریں لگا رہے تھے کہ ان کو گرفتار کرلیا گیا۔ اب وہ کہاں ہیں؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں یا ان کو مک مکا کرکے چھوڑ دیا گیا ہے اس بارے میں تازہ ترین اطلاعات ہمیں حاصل نہیں ہیں۔
حلقہ این اے 251 اور پی ایس 115 سے بھی ایم کیو ایم کے چار کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ یہ حضرات بھی ایک خالی پلاٹ میں بیلٹ پیپر اور مہر سمیت گرفتار ہوئے، یہ چاروں کارکنان یہاں پتنگ پر مہریں لگا رہے تھے۔
حیدر آباد کے ایک پولنگ سٹیشن میں اپنی خواتین کے پولنگ بوتھ پرتعینات خواتین سرکاری اہلکار خود دھاندلی کرتی رہیں ۔ اسکی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے ۔ اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ متحدہ کی حامی خواتین اہلکار کس طرح عوام کے مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے جعلی ووٹ بھگتا رہی ہیں۔ ویڈیو کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کیسے انتخابات جیتتی ہے اور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کی حقیقت کیا ہے۔ آج ایم کیو ایم کے وہ کارکنا ن جو خود بھی درجنوں جعلی ووٹ ڈال چکے ہونگے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہیں گے کہ کراچی کے عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے لیکن ان کے مینڈیٹ کی حقیقت ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے۔یہاں ہم اس ویڈیو کی کچھ تصاویر آپ کو دکھاتے ہیں۔نیچے دی ہوئی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہی خاتون بار بار ووٹ ڈال رہی ہیں اور ہر بار انہوں نے ایک نہیں بلکہ کئی کئی ووٹ ڈبے میں بھرے،کونے والی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مذکورہ خاتون اپنی کسی ساتھی کو خاموش رہنے کا اشارہ کررہی ہیں۔
اس کے علاوہ اسی ویڈیو میں ان خاتون کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے بھی جعلی ووٹ ڈالنے میں اپنا کردار خوب ادا کیاہے۔ اس ویڈیو کا لنک یہاں دیا جارہا ہے تاکہ قارئین خود ہی یہ ویڈیو دیکھ لیں۔
http://hamariweb.com/myreport/
ہم نے یہاں کچھ تصاویر آپ سے شئیر کی ہیں ۔ یہ دیگ کے چند چاول ہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کس طرح االیکشن جیتتی ہے اور کیوں ایم کیو ایم کراچی میں فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے سے ڈرتی ہے۔کراچی میں جعلی ووٹنگ کے حوالے سے خود الیکشن کمیشن کا یہ بیان ہی کافی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ کراچی میں شفاف اور آزادنہ انتخابات منعقد کرانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس بیان کے لنک ہم یہاں شئیر کررہے ہیں۔
http://www.dailyaaj.com.pk/urdu/archives/128670
http://urdu.dawn.com/2013/05/11/ecp-failed-to-make-free-polls-in-khi/
http://www.karachiupdates.com/v3/siyasat/20267-election-2013.html
ہم اس کالم کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری، نگران وزیر اعظم سردار محمد کھوسو اور چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابرہیم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صرف کراچی کے ایک حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کے بجائے کراچی کے تمام حلقوں میں دوبارہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کرائیں اور فوج کو پولنگ سٹیشن پر بھی تعینات کیا جائے تاکہ عوام کے مینڈیٹ کو چرایا نہ جاسکے۔
جماعت اسلامی کی لیڈرشپ نے بائیکاٹ کا بڑا بر وقت فیصلہ کیا. یہ میدان سے بھاگنے نہیں بلکہ ہمت اور عقلمندی سے مجرم کو للکارنے والی بات ہے ورنہ خون خرابہ سہہ کر اور پھر داویلا کر نے کا کوئی فائدہ نہیں ہو تا. اللہ اس فیصلے کی بر کت سے ظلم کا خاتمہ نصیب ہو
جو کچھ کراچی میں ہوا اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ طالبان طالبان کو شور صرف اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی ۔
ایم کیو ایم جس معاملے میں اپنی غنڈہ گردی کو سب سے زیادہ اور ہیجانی انداز میں استعمال کرتی ہے وہ انتخابی نتائج ہیں۔ایم کیو ایم کو چیلنج سے نفرت ہے اور مصیبت یہ ہے کہ کراچی کے عوام کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ ملک گیر سطع کی کوئی جماعت کراچی کے عوام سے قریبی سماجی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اگر نواز شریف یا عمران خان ایک ایک گھر کراچی میں لے لیں اور کراچی کے عوام سے سماجی روابط قائم کرلیں اور تنظیم سازی کے لیے کراچی کے اردو بولنے والے افراد کو آگے لائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی کے عوام کا اعتماد ان سیاسی جماعتوں پر بحال ہوجائے۔