کراچی دھماکے اور کچھ حقائق

اور اب عزیز آباد میں دھماکہ! سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کہیں یہ دھماکے الیکشن ملتوی کرانے کی سازش تو نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سوچا جائے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوگا ؟؟ جواب بہت سیدھا سادہ ہے کہ اس کا فائدہ ان کو ہوگا جن کو شکست کا خوف ہے، جنہوں نے گذشتہ دس برسوں میں اقتدار کے مزے لوٹے لیکن عوام کو سوائے باتوں اور تسلیوں کے کچھ نہ دیا۔عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اٹھانوے فیصد مظلوم عوام کی بات کرنے والے در حقیقت دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے ٹاﺅٹ ہیں ۔ انہوںنے عوام کے ووٹوں اور نوٹوں کو اپنے مفادات کے لیے قربان کیا۔ آج انہیں اپنی شکست نظر آرہی ہے تو عوام میں مظلوم بننے کے لیے بم دھماکوں کا ڈرامہ کیا جارہا ہے۔

آیئے ذرا ان بم دھماکوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ کراچی میں یہ دھماکے فاروق ستار کی اس پریس کانفرنس کے بعد شروع ہوئے جس میں انہوں نے یہ واویلا مچایا کہ ایم کیو ایم کو الیکشن سے باہر کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایم کیو ایم نے انتخابی دفاتر پر حملے کا کہیں ذکر کیا اور نہ ہی ایس کسی سازش کا ذکر کیا لیکن اس پریس کانفرس کے بعد ہی پر اسرار دھماکے شروع ہوگئے۔ پہلا دھماکہ پیپلز چورنگی کے نزدیک کچرا کنڈی میں ہوا۔ یہاں ایم کیو ایم کا کوئی انتخابی دفتر نہیں ہے لیکن فوری طور پر اس دھماکے کو ایم کیو ایم پر حملہ قرار دیا گیا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ پورے میڈیا میں کہیں اس انتخابی دفتر کی کوئی تصویر جاری نہیں کی گئی۔ اور کیسے جاری کی جاسکتی تھی جب کہ دھماکہ دفتر پر ہوا ہی نہیں تھا۔ فور ی طور پر میڈیا میں بیانات جاری کیے گئے ۔اس کے بعد اگلا دھماکہ مصطفیٰ آباد نصرت بھٹو کالونی میں ایم کیو ایم کے ”بند“ دفتر کے باہر ہوا۔ اس دھماکے کی خاص بات یہ تھی کہ شور کے لحاظ سے یہ انتہائی بھرپور لیکن تباہی کے اعتبار سے انتہائی کم تھا یعنی جس نے بھی یہ دھماکہ خیز مواد نصب کیا اس نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ شور زیادہ اور نقصان کم ہو۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟؟

 

اس کے بعد اگلا دھماکہ اے این پی کی کارنر میٹنگ میں کیا گیا۔ واقفان حال کہتے ہیں جس جگہ یہ دھماکہ ہوا وہ جگہ عملاً نو گو ایریا ہے اور وہاں اے این پی کے لوگوں کا کڑا پہرا ہوتا ہے۔ اس دھماکے کی خاص بات یہ تھی کہ دھماکے میں ہلاکتیں کم ہوئیں البتہ دھماکے کے فوری بعد بشیر جان کے محافظوں کی اندھا دھند فائرنگ سے زیادہ نقصان ہوا۔ اس دھماکے میں کہا گیا کہ مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کے بائی میں جاں بحق ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کا تعلق بھی کیا اے این پی سے تھا؟ جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے دوسری بات یہ کہ وہ دھماکے میں نہیں بلکہ دھماکے کے بعد ہونے والے فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔دھماکے اور فائرنگ کے بعد وہاں یہ شرمناک مناظر بھی دیکھے گئے کہ اے این پی کے کارکنوں نے دکانوں کو لوٹا۔ جس کا رد عمل یہ ہوا کہ اگلے دن اہل محلہ نے اس پورے ایریا سے اے این پی کے جھنڈے اتار یئے۔ اے این پی نے کوشش کی کہ جنازوں پر قبضہ کیا جائے لیکن اہل محلہ نے جنازوں پر اے این پی کے جھنڈے لپیٹنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا اور ان کے جھنڈے پھاڑ دیئے۔اور پھر یہ بھی واضح رہے کہ اس دھماکے کے متاثرین سے اظہار ہمدردی اور ان کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے لیے کوئی اور نہیں بلکہ جماعت اسلامی آگے بڑھی اور جماعت اسلامی کے سابق ممبر قومی اسمبلی اور اس حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار لئیق خان نے متاثرین کو چیک دیئے۔

 

اس سے اگلا دھماکہ قصبہ کالونی میں ہوا ۔ یہاں بھی دھماکے کی آواز پورے شہر میں سنائی دی لیکن دھماکے کے لحاظ سے تباہ کاری کم ہوئی ۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ دھماکےسے چند روز قبل ایم کیو ایم کے سابق ایم پی اے کی نگرانی میں رات تین بجے یہاں بھاری مقدار میں اسلحہ اتارا گیا اور اس کے دوروز بعد یہاں دھماکہ ہوا ہے۔ جب کہ دھماکے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنان ایک دوسرے سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آگے مت جانا ابھی دو دھماکے باقی ہیں۔

 

اس کے بعد اگلا دھماکہ برنس روڈ پر ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس میں ہوا۔ یہاں دہشت گردوں نے دھماکہ خیز مواد سیکٹر آفس سے ملحق مسجد میں نصب کیا ، اس دھماکے میں بھی مسجد کے وضو خانے میں موجود لوگ متاثر ہوئے کیوں کہ ”اتفاق “ سے یہ سیکٹر آفس بھی اس وقت تقریباً خالی تھا اور لوگ ” انتخابی مہم “ پر نکلے ہوئے تھے۔ جبکہ حالیہ دھماکہ عزیز آباد میں نائن زیرو کے قریب واقع مور پارک میں ہوا ۔ یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ وہ عزیز آباد اور نائن زیرو کے آس پاس کا علاقہ جہاں عام حالات میں بھی انتہائی سخت سیکورٹی ہوتی ہے ۔ اطراف کی گلیوں کو بیرئیر لگا کربند کیا جاچکا ہے جبکہ عزیز آباد کے داخلی راستوں پر ایم کیو ایم کے مسلح کارکنوں کا پہرہ ہوتا ہے تو ایسے حالات میں جب کہ ان کے دفاتر پر حملے ہورہے ہیں تو پھر کوئی کیسے یہاں کوئی مواد نصب کرسکتا ہے ؟؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے؟؟

 

اس کے علاوہ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ایم کیوایم کے دفاتر پر ہونے والے سارے دھما کے ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو بجے شب کے درمیان کیے گئے، یہ بھی اتفاق ہے کہ اس دوران یا تو دفاتر بند تھے یا وہاں زیادہ کارکن موجود نہیں تھے۔دراصل گزشتہ دس برسوں کی ناکام ترین کارکردگی کے باعث متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی کی کئی نشستوں پر شکست نظر آرہی ہے، کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ سخی حسن سے متصل سرینا ٹاوز، صائمہ ٹاورز اور دیگر فلیٹوں میں مکینوں کو زبردستی اپنی کارنر میٹنگز میں بٹھایا جارہا ہے، ان کو فلیٹوں سے نکال نکال کر اسلحے کے زور پر میٹنگز میں بیٹھنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یہی صورتحال فیڈرل بی ایریا میں یوسف پلازہ،یو کے اسکوائر، صغیر سینٹر اور دیگر فلیٹس میں ہے۔ اب ان باتوں پر یقین نہ کرتے اگر ہمارے ایک کولیگ جو کہ جماعت اسلامی کے ہمدرد اور سندھی بولنے والے ہیں وہ ہمیں یہ باتیں نہ بتاتے ، ہمیں پھر بھی یقین نہیں آیا تو انہوں نے جھنپتے ہوئے کہا کہ سلیم بھائی اوروں کے بارے میں کیا کہوں مجھے خود ان کی کارنرمیٹنگ میں جانا پڑااور وہاں بیٹھ کر تقریرں سننی پڑیں، اگر نہیں جاؤ تو یہ لوگ سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

 

دوسری جانب متحدہ قومی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اپنی کارنر میٹنگز میں اس وقت سارا زور مہاجر قومیت کے پرچار پر لگایا جارہا ہے ( یہ بات ہم بہت عرصہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ایم کیو ایم الیکشن مہم مہاجر کے نام پر چلائے گی) ۔ لوگوں نے بھی بتایا اور خود ہمارے گھر کے قریب ایک کارنر میٹنگ میں بھی یہی باتیں دہرائی گئیں جو کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنی ہیں۔ ایک طرف پیپلز پارٹی اور اے این پی سے اتحاد کی باتیں کی جارہی ہیں دوسری جانب کارنر میٹنگز میں سانحہ پکا قلعہ ، سانحہ علی گڑھ، اور سانحہ سہراب گوٹھ کی یادیں تازی کرکے عوام کے جذبات کو مشتعل کیا جارہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر مہاجر حقوق کے نام پر ان کو منتخب کریں۔ کراچی کے باشعور عوام ان کا چہرہ اچھی طرح پہچان چکے ہیں اس لیے اب متحدہ الیکشن سے فرار چاہتی ہے۔ اب اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن ملتوی ہوجائیں لیکن ابھی تک ایسے کوئی آثار نہیں آرہے ، متحدہ سے کچھ بعید نہیں کہ یہ اپنے ہی کسی رہنما کو قربانی کا بکرا بنا دے اور اس بنیاد پر الیکشن کا التواءکرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آخری وقت پر بائیکاٹ کا آپشن تو موجود ہے۔

فیس بک تبصرے

کراچی دھماکے اور کچھ حقائق“ ایک تبصرہ

  1. سلیم بھای ! ایسا لگتا ہے کہ آج کی تحریر آپ نے روزنامہ جنگ پڑحے بغیر لکھ دی ہے-
    آج کے اخبار میں رپورٹر نے پولیس کے حوالے سے لکھ ہی دیا کہ یہ سارے بم دھماکے متحدہ نے خود کرواے ہیں
    لیکن اسی خبر کی حیثیت کم کرتے ہوے(جان کی امان کی خاطر) اسے “برطرف” کارکنوں کے کھاتے میں ڈال دیا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ لوگ کالعدم تحریکوں کے کارکنان بن گیے ہیں،
    http://e.jang.com.pk/05-06-2013/karachi/pic.asp?picname=1717.gif
    حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام دھماکے متحدہ قومی موومنٹ نے خود ہی کراے ہیں-
    ذرا یاد کیجیے 2008 کے ایک ساتھ 7 بم دھماکے، جس میں نہ صرف کوی ہلاکت نہیں ہوی بلکہ کوی زخمی تک نہیں ہوا تھا-
    یہ بم دھماکے متحدہ نے صرف اور صردف طالبان کے حوالے سے الطاف حسین کے بیان کو تقویت پہنہچانے کےلیے کراے تھے
    اس سے انہوں ایک تیر سے کی شکار کیے تھے، اور وہ شکار کیا کیا تھے اس کا تجزیہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں

Leave a Reply