دل نہایت غمگین تھا۔ اتنے عرصے کی محنت محض ایک فیصلے سے غارت ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ لوگوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ مستقبل کا سوچو تو مکمل اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔حالات کیسے بدلیں گے؟ ملک کی تقدیر کا کیا ہوگا؟ بائیکاٹ کے اعلان کے بعد دوپہر کے کھانے پر تو خود اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دے رہا تھا کہ حالات کا تقاضہ یہی تھا کہ بایئکاٹ کریں ، ان سے مقابلہ ممکن نہیں مگرخود اپنا دل اندر سے مطمئن نہ تھا ۔ شام میں دھرنے میں شرکت کی۔ دھرنے کی کارروائی دل کے اطمینان کا ذریعہ نہ بنی۔ بے بسی ہی بے بسی تھی۔وہاں سے واپس آیا تو یہی کیفیت طاری تھی۔ گھڑی نے دس بجایا تو عشاء کی نماز کا ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز شروع کردی۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد بے اختیار ذہن نے تلاوت کے لیے سورۃ حٰم السجدہ کی ان خوبصورت آیات کا انتخاب کیا اور ان آیات کی تلاوت میں مشغول ہو گیا۔ کیسا جادو ہے ان آیات میں؟ کیسی تاثیر ہے الفاظ کی؟ یوں لگ رہا تھا کہ بالکل اسی وقت ان آیات کا نزول براہ راست مجھ پر ہو رہا ہے۔ اللہ میاں کس شان سے مجھ سے مخاطب ہیں۔ وہ کیفیت تو بیان سے باہر ہے بس ذرا اس کیفیت کا ہلکا سا احساس پیدا کرنے کے لیے بشارت سے بھرپور ان آیات کا ترجمہ درج کر رہا ہوں۔ پڑھ کر تو دیکھئے، کیسی چاشنی ہے ان بولوں میں۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’ نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے۔
اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
اور اے نبی ؐ ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔
اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرو تو اللہ سے پناہ مانگ لو، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘( سورۃ حٰم السجدہ، آیت: ۳۰ تا ۳۶)
بس پورے دن کا منظر ذہن میں گھوم گیا۔دل میں مزید پڑھنے کی طلب پیدا ہوئی اور میں نے مزید رہنمائی کے لیے فوراََ تفہیم القرآن نکال لی اور ان آیات کی تشریح پڑھنا شروع کردی۔ اللہ میاں پہلے اپنے بندوں کو ان کے کام اور ان کی محنت کا ثمر دے رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ جب تم اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے تو ہم اپنے فرشتوں کے ذریعے تم پر سکینت اور سلامتی نازل کر رہے تھے۔تم سمجھ رہے تھے کہ اکیلے ان کا مقابلہ کر رہے ہو؟ نہیں ہم تمہارے ساتھ ان کے ان کالے کرتوتوں کے عوض ان کے انجام بد کی وعید لکھ رہے تھے اور تمہارے لیے خوش خبری اور اصل کامیابی کا ٹھکانہ یعنی جنت کا پروانہ تیار کر رہے تھے۔اور تم اس دنیا کی کامیابی کے نہ ملنے پر افسردہ ہو؟ نیک بختوں تمہارے لیے ہم نے دنیا اور آخرت دونوں میں اپنا ساتھ واجب کر لیا ہے۔تم ہمارے دوست بن گئے ہو،اور جس کا اللہ دوست ہو جائے اس کو اور کسی دوست کی ضرورت ہے ؟ بس پھر خوشیاں منائو اپنی اس کامیابی پر اور اپنے رب کا شکر بجا لائو۔
کیسا پیار بھرا انداز ہے؟ جس طرح ایک گھوڑے کا مالک گھڑ دوڑ میں تھکے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ تھپتھپا کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بالکل اس طرح اللہ میاں بھی اپنے بندوں کی ہمت بندھا کر ان کے کام کی اہمیت اجاگر کر رہے ہیں۔یہ اللہ کی طرف بلانا، لوگوں کو نیکی کی بات بتانا یہی تو سب سے اچھی بات ہے اللہ کے نزدیک۔ اور ہم بھی تو یہی کرتے رہے ہیں اس پورے عرصے میں۔ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اس ملک کی بہتری کے لیے اچھے ، با کردار اور صالح افراد کے انتخاب پر امادہ کرتے رہے ہیں، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ان میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے ہیں۔معاشرے کے بنائو کے لیے اپنا بہترین منشور ان کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔اسلام کے کلمہ کے گرد ہی تو لوگوں کو جمع کرتے رہے ہیں۔کیا ہوا جو ہمیں اپنے حقیقی مقصد میں کامیابی نہ ہوئی، کیا یہی کافی نہیں کہ اللہ نے ہمارے کام کو سب سے اچھا کام قرار دے دیا۔ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا اور ان کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا یہ کام ہی اللہ کو اتنا محبوب بن گیا کہ اس نے اس کام کو تمام کاموں پر فوقیت دے دی۔
اور آگے اللہ نے اپنے نبی سے جو خطاب کیا ہے وہ تو بالکل آج کے حالات کے مطابق ہے۔ اچانک میرا ذہن دوبارہ دن کی کارروائی کی جانب رخ کر گیا۔اللہ میاں کیسا اپنے بندوں کی رگ رگ سے واقف ہے۔اللہ میاں کہتے ہیں کہ بدی کو دور کرنا ہے تو اس کو نیکی سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ بدی کے مقابلے میں بدی پیش کرو گے تو بات بنے گی نہیں بلکہ مزید بگڑ جائے گی۔یہی تو ہوا تھا آج۔ کتنے کارکنان تھے جو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے تھے۔جذبات ہماری عقل پر غالب آ چکے تھے۔ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے فعل پر ندامت ہو رہی ہے۔کیسی جلد بازی تھی جو ہم مچا رہے تھے۔ پھر دل نے کہا کہ پولنگ کے دوران مخالفین کی بے جا منہ ماری پر جوابی کارروائی بھی تو مناسب فعل نہ تھا۔ شاید کسی حد تو گنجائش تھی کہ ان کے سامنے کمزور پڑتے نظر نہ آئیں۔ اگر اس میں زیادتی ہوئی ہے تو بھی اللہ کے نزدیک ہم قصور وار تو ہیں۔
اس کے مقابلے پر ہمیں بدی کو بہترین نیکی سے دفع کرنے کا درس دیا جا رہا ہے۔ کیسا بہترین درس ہے۔اس کا صلہ بھی دیکھو کیسا زبردست ہے۔فرما یا کہ اگر بدی کے مقابلے میں نیکی سے کام لوگے تمہارے دشمن بھی تمہارے جگری دوست بن جائیں گے۔مگر یہ کام آسان نہیں ہے،بہت مشکل ہے۔ نفس کو مار کر جینے کا حوصلہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔اللہ میاں خود کہہ رہے ہیں کہ یہ ایسی خوبی ہے جو صابریں اور خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے۔ا للہ میاں ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے ،آمین۔کیوں کہ شیطان اللہ کے بندوں کو ورغلا کر اپنا کام نکالواتا ہے۔ اور اس کی چال ایسی ہوتی ہے کہ وہ بدی کو نیکی بنا کر پیش کرتا ہے اور اللہ کے بندوں کو اپنے گروہ میں شامل کر لیتا ہے۔آج کا دن تو تمام ہو ہی گیا۔ ہر دن نے آنا ہے اور گزر جانا ہے۔ مگر یہ دنوں کا آنا جانا یوں ہی نہیں لگا رہنا۔ جس عظیم الشان تبدیلی کے لیے ہم جدوجہد کر رہے ہیں اسے ان ایام میں سے ہی کسی دن آنا ہے۔ لہٰذا آئندہ آنے والے دن ہمیں پکار رہے ہیں کہ صحرا کے سفر میں بغیر کسی قیام کے ، مستقل چلنے سے منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے، راستے میں آنے والے ٹیلے کبھی رفتار آہستہ کر تے ہیں اور کبھی سستانے کا ذریعہ بنتے ہیں تاکہ دوبارہ تازہ دم ہو کر بالآخر منزل تک پہنچا جا سکے۔اور ہمایں یقین ہے کہ وہ منزل اگر قریب نہیں تو زیادہ دور بھی نہیں کہ نشان منزل ہم پا چکے ہیں۔ان شاء اللہ۔
اپنے بابا کے گھر ہوگئی آشکار
پیاری بٹیا ہماری یہ لنتی وقار
آئی رحمت خدا کی تمہارے لئے
ہو مبارک یہ تازہ نسیم بہار
بہت ہی دل کو سکون دینے والا بلاگ ہے! اللہ کا ذکر ہی بے شک سکون مہیا کر تا ہے.
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!
please correct the reference surah, these ayat belongs to surah Haam Meem Sajdhah not from surah Ahzab.
جی ہاں! فاطمہ صاحبہ آپ کا کہنا درست ہے. لکھتے ہوئے بے دہانی میں غور نہ ہو سکا. حالاں کہ قرآن سے ہی ترجمہ دیکھ کر درج کیا ہے. اصلاح کا شکریہ!