مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے تمام دوستوں کو مبارکباد، دونوں جماعتوں سے وابستہ امیدواران نے کامیابیاں حاصل کیں، مرکز اور پنجاب میں میاں نواز شریف حکومت میں ہو نگے تو امکان غالب ہے کہ خیبر پی کے میں عمران خان حکومت بنائیں گے۔
سب سے زیادہ مبارکباد کے مستحق عوام ہیں جنہوں نے بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ 1970 کے الیکشن کے بعد دوسرا بڑا ٹرن آٹ دیکھنے میں آیا ، 2008 کے الیکشن میں 44 فیصد تک رہنے والا ٹرن آؤٹ 2013 میں بڑھ کر کم و بیش 60 فیصد تک جا پہنچا ۔ یعنی تقریبا ایک سے ڈیڑھ کروڑ زائد افراد نے اس بار ملکی سیاست میں دلچسپی لیتے ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کیا ہے جو یقینا خوش آئند اور نہایت حوصلہ افزا پہلو ہے۔ یہ ٹرن آؤٹ الیکشن کی جیت ہے۔۔۔ عوام کی کامیابی ہےاور۔۔۔ جمہوریت کی فتح ہے ۔ اتنے بڑے ٹرن آؤٹ کی دو بڑی وجوہات ہیں ، ایک تواس کا کریڈٹ بہر حال عمران خان کو ضرور جاتا ہے جس نے پاکستان کی سیاست سے لاتعلق افراد کو سیاسی بنا دیا ، نوجوانوں کی اکثریت جن کی گفتگوئیں سیاست ، پاکستان کے قومی اور اہم ایشوز ، مسائل ، بحران ، ملک و ملت کیلئے کرنے کے کام جیسے موضوعات پر کبھی نہ ہو تی تھی ۔۔۔ عمران کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے ان تمام خواتین ، نوجوانوں اور دیگر طبقے کو قومی دھارے میں شامل کیا اور اب وہ تمام افراد جنہوں نے زندگی میں کبھی ووٹ کاسٹ نہ کیا تھا یا پہلی بار جن کا ووٹ بنا تھا وہ سب اس الیکشن مہم کے دوران انتہائی پر جوش نظر آئے ۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے منشور پر بحث مباحثے کرتے دکھائی دئیے ۔۔۔ ٹرن آؤٹ بڑھانے میں دوسرا اہم کردار الیکشن کمیشن اور میڈیا کی آگاہی مہم کا ہے جنہوں نےخوبصورت اور بے تحاشا پرنٹ و الیکٹرانک اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ و تیار کیا ۔ جمہوری سفر کا یہ پہلا مرحلہ ہے جو عوام نے مکمل کیا ہے اس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہے ۔
ووٹ ڈالنا جمہوریت کا پہلا تقاضا ہے جو عوام نے کر دیا ، مگر ووٹ کس کو ڈالا جائے یہ دوسرا مرحلہ ہوتا ہے جس کو طے کرنے کیلئے گہرے شعور اور حالات سے واقفیت ضروری ہے ۔پائیدار جمہوریت کیلئے یہ بہت نازک اور کٹھن سفر ہے مگر جمہوریت کا اصل حسن بھی یہی ہے ۔ ووٹ ڈالنے والے ہر فرد کو اب اس حوالے سے آئندہ کیلئے اپنی کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہو گی ، اسے کسی پارٹی کے جذباتی نعروں اور کھوکھلے دعوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنی پارٹی قائدین کو بت بنا کر ان کی پوجا کرنی چاہیے ، بھٹو خاندان اور میاں برادرا ن کی حیثیت دیوی دیوتاؤں کی سی نہیں ہونی چاہیے کہ آنکھیں بند کرکے ان پر نذرو نیاز اور ہر قسم کے چڑھاوے چڑھائے جاتے رہیں اور نہ عمران خان کو مسٹر پر فیکٹ سمجھنا چاہیے۔
ووٹر کو پہلے تو اپنے حلقے کے امیدوار کو دیکھنا چاہیے کہ کون فرد ہے جو اس کی نمائندگی کر رہا ہے ، پارٹی کارکن اور ووٹر کو اب اپنے ووٹ کاصحیح استعمال بھی سیکھنا چاہیے کہ اس کا ووٹ کسی کرپٹ ، بددیانت اور نااہل فرد کو نہ جائے ، اگر اس کے حلقے میں کوئی وڈیرہ ، جاگیردار ،قبضہ گروپ ، راشی ، یابدیانت فرد پارٹی ٹکٹ حاصل کرتا ہے تو اس پارٹی کے کارکن میں یہ بالغ نظری اور اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیڈر اور قائد سے پوچھ سکے کہ آپ نے میرے حلقے سے ایک خراب شہرت کے حامل شخص کو کیوں ٹکٹ دیا ہے ، اس میں یہ اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ یہ کر دکھائے کہ اگر میرا قائد میرے حلقے سے کسی خائن کو ٹکٹ جاری کر تا ہے تو میں اپنے قائد کے فیصلے کو مسترد کردوں کہ میرا نمائندہ کوئی چور، ڈاکو ، اور بدکردار شخص نہیں ہو سکتا ، جب عوام میں یہ شعور آئے گا تو پارٹی قائدین بھی محتاط ہو نگے اور وہ پارٹی اور ملک و قوم کے بہتر مفاد میں فیصلے کریں گے اور بہترین لوگ آگے آئیں گے ، خرابی اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے روایتی کلچر کے مطابق پارٹی قائدین کے ہرغلط فیصلے کو بھی من و عن تسلیم کیا جاتا ہے ، مثلا اگر نوازشریف کا طوطی بول رہا ہو تو پارٹی ورکر کہتا ہے کہ اگر نواز شریف کھمبا بھی کھڑا کر دیں تو ہم اسے ہی جتا دیں گے ، اور عمران نے بھی ایسا ہی کام کیا ۔ بہت سے نئے چہرے سامنے تو آئے مگر بات نئے یا پرانے کی نہیں ہو تی ، بات مخلص ، سچے ، دیانت دار اور اہل فرد کی ہو تی ہے ، جب پارٹی ورکرز اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق احتساب کریں گے کہ جناب یہ اقدامات تو ہمارے منشور کے خلاف ہیں میں اس پر احتجاج کروں گا ، تو پھر جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کاُ دور آئے گا اور جمہوری سفر کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوگا ۔ تمام پارٹیوں کے سنجیدہ افراد اور معاشرے کی انٹیلی جنشیا کو اب عوام کو اس مرحلے کی طرف لے جانے میں کردار ادا کرنا چاہیے ۔
فیس بک تبصرے