’’جیل کا تا لا ٹوٹے گا ! الطاف ہمارا چھوٹے گا۔۔۔‘‘ پڑوسی ڈاکٹر صاحب کی ننھی منی بچی ہمارے اور اپنے لان کی نیچی سی مشترکہ دیوار پر بیٹھی نظم کے انداز میں گارہی تھی اور ہم اپنے دانت کچکچا رہے تھے!
ٹہرئیے قارئین! یہ کوئی لندن کی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی یہ آ ج کامنظر ہے بلکہ یہ پچیس سال پرانا ماضی کا کراچی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اپنے کو مظلوم ثابت کرنے اور سمجھنے والے اردو بولنے والے افراد ایک سیلاب میں بہہ چلے تھے۔ اب بھلا اس بچی اور اس کی مراعات یافتہ فیملی (والد فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر ایک اور شاندار سرکاری عہدے پر فائز تھے اور نانا شاید بیوروکریٹ افسر تھے) کو محرومی کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے؟ مگر بات تو یہ ہے کہ جب ایک ٹرینڈ چلتا ہے تو اس کی رو میں سبھی بہہ جاتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس زمانے میں کسی غیر مہاجر خصوصاً پنجابی کی ہمت نہ تھی کہ وہ کسی مہاجر فیملی میں اپنی اولاد کا رشتہ لے کر جاسکے حالانکہ دونوں خاندان اس پربخوشی راضی ہو تے، ان کے درمیان بہترین ہم آ ہنگی ہوتی، برسوں سے ایک دوسرے کے قریب ہوتے۔ یہ دباؤ ایسا تھا کہ نہ جانے کتنے رشتے اس طوفان کے آگے ڈھے گئے۔ اور نہ جانے کتنوں کے ارمان آنسو بن کر بہہ گئے۔ محلے میں ایسی دیواریں کھڑی ہوگئیں کہ سالوں سے ساتھ رہتے بیگانے بلکہ دشمن بن کر رہ گئے! نفرت اور عصبیت کے اژدہے نے ساری روایات اورمحبتوں کو نگل لیا تھا۔اور تو اور گھروں میں تفریق اٹھ کھڑی ہوئی۔
والدین ہمیشہ سے جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے چلے آرہے تھے مگر اولادیں پتنگ کی دیوانی ہوگئیں۔ ووٹ تو چلیں ایک طرح کا خفیہ معاملہ ہوتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کو دے گا سوائے ان لوگوں کے جو بہت پر جوش کارکن ہوتے ہیں مگر یہ نظارے بھی دیکھنے کو ملے کہ قربانی میں کھال دینے کے معاملے پر گھروں میں اختلافات بڑھتے بڑھتے تعلقات کی خرابی پر منتج ہوئے۔
ہمارے گھر ایک چوڑی والی خالہ آیا کرتی تھیں۔ بڑا دلچسپ کردار تھا یہ! مغلئی تہذیب کا دعویدار! ان کی سرگرمیاں اچانک ہی کچھ
پراسرار ہوچلی تھیں۔ وہ اپنے چوڑیوں کے ٹوکروں میں سے یا کبھی لباس کی جیبوں میں سے کاغذات کا ایک پلندہ نکالتیں اور خفیہ سرگوشیوں کے ساتھ خواتین کو پڑھواتیں۔ یہ دراصل جیل سے الطاف حسین کا خط ہوتا مائوں، بہنوں کے لئے (یہ ٹیلیفونک دور نہ تھا ،لہذا خط پر ہی گزارا ہوتاتھا)۔ ہماری معصوم سی، با مروت والدہ نہ جانے کس طرح ان کو ہینڈل کرتی تھیں یہ یاد نہیں! ہاں البتہ یہ ضرور یاد آرہا ہے کہ ہم سے بڑی خائف رہتی تھیں کیونکہ انہیں ہمارے خیالات کا بخوبی اندازہ تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا وہ تو اڑتی چڑیا کے پر گنتی تھیں! ان کا ایک زریں قول یاد آرہا ہے کہ ’’اے آ پا میں۔۔۔ کی چھوٹی بہو سے چھپ کر بقیہ بیٹیوں، بہوئوں کو خط دیتی ہوں ۔ پنجابی ہے نا وہ۔۔۔‘‘
ایک دفعہ کراچی کے بڑے خراب حالات تھے۔ کرفیو کا زمانہ تھا۔ ایسے میں وہ آ پہنچیں ۔استفسار پر بولیں ’’ہاں! ایک پولیس والے کی موٹر سائیکل پر لفٹ لے کر آ ئی ہوں۔۔۔کم بخت کو میں نے کہاکہ میں تو پنجابی ہوں تو مجھے چھوڑ کرگیا ہے۔۔۔‘‘ اور ہم سب گھر والے اس اہلکار کی موٹی عقل پر ہنس رہے تھے کہ یہ لباس اور زبان؟ کیا آنکھوں پر پٹی بندھی تھی؟ ممکن ہے کہ وہ ان کی عمر اور حالت پر ترس کھا کر چھوڑ گیا ہو۔ ظاہر ہے اس عالم میں چوڑیاں کون خریدتا جبکہ گھر گھرچوڑیاں توڑی جارہی ہوں! وہ بے چاری مدد لینے آئی تھیں گھروں میں توفاقے ہی پڑ رہے تھے (چندے کے نام پر اس وقت بھی غریبوں سے بٹورا جا رہا تھا)۔ ہمیں خالہ کاذکریہیں پر ختم کر نا ہے کہ وہ بعد میں بہت خستہ حال آتی تھیں۔ جس گھر کے جوان اس عفریت نے نگلے ہوں وہ بھلا کہاں خوشحال رہ سکتے ہیں؟ ہاں! ہنڈا ففٹی پر چلنے والے کئی بیڑوں کے مالک بن چکے ہیں!
معزز قارئین !ہمیں یہ کرداراس وقت یاد آیا جب ہم نے اپنی یادداشت کو پچیس سال پہلے کے واقعات پر zoom کیا ۔ ایسا کرنے میں ہمیں بہت کرب سے گزرنا پڑا اور آپ کے لئے بھی یہ تذکرہ کوئی دلچسپی کا باعث نہیں ہوگا لیکن اگر آج کے حالات سے جوڑا جائے تو ایک تعلق نظر آ تا ہے ہماری اس hypnosis کا !بلکہ اسے ایک تسلسل ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔
حالیہ انتخابی مہم کے عروج کے دنوں میں ایک اشتہار نظرسے گزرا بلکہ تکرار کے ساتھ نظر آیا جس میں ہاتھ میں نوجواں اور بچے ہر غلط کام کو بلے کی ایک ضرب سے ختم کر رہے تھے۔ ٹی وی موئثر ترین ابلاغ ہے نہ جانے کتنے معصوم اذہان ایسی حر کتوں کے لئے مضطرب اور motivate ہوئے ہوں گے اور بلے کی تلاش میں سر گرداں ہوگئے ہوں گے!
اس اشتہار کو بار بار دیکھ کر ہمیں جھر جھری آئی اور 88ء کے انتخابات یاد آ گئے۔ہمیں اس وقت ووٹ کا پہلی دفعہ حق ملا تھا لہذابڑے پرجوش تھے۔ نوجوان اور کم عمر قارئین کو ہم بتا تے چلیں کہ ضیاء الحق نے اپنی موت سے قبل قومی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا تھا (ان کے مشیروں نے ان کو اطلاعات فراہم کیں کہ بے نظیر میٹرنٹی چھٹیوں پر جانے والی ہے لہذا الیکشن کی ایسی تاریخ رکھی جائے کہ وہ دستیاب نہ ہوسکے چنانچہ نومبر کی تاریخ مناسب ہے۔ لیکن بے نظیر اس معاملے میں زیادہ فطین تھیں چنانچہ اندازوں اور تخمینہ کو غلط ثابت کر تے ہوئے دیڑھ ماہ کے بلاول کو لے کر اسلام آباد پہنچ گئیں۔ انتخابی مہم کا آ غاز کرنے! (نہ جانے غلط قافیہ شناسی پر مشیر کونا اہلی کا کتنا بڑاتمغہ ملا ہوگا؟)
اس وقت کے خد شات تھے کہ بے نظیر آ رہی ہے جس کے توڑ کے لئےIJI (اسلامی جمہوری اتحاد)تشکیل دی گئی تھی۔ جس میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی اور نواز شریف اس کے سر براہ تھے۔ جماعت اسلامی اپنی پالیسی کے مطابق بھر پور مہم چلا رہی تھی۔ہم بھی آ نٹیوں کے ہمراہ دور دور کنوینسنگ کے لئے جاتے تھے (اس وقت کا کراچی اتنا خطرناک نہیں تھا۔کہیں No Go Areaنہیں تھا۔والدین بلا خوف و خطر ایسی سر گر میوں میں نہ صرف خودشریک ہوتے بلکہ بچوں کو بھی بھیج دیا کر تے تھے۔)
پھر نتائج کے مطابق ایک ایسی کیفیت نظر آ ئی جو کسی نہ کسی حد تک حیران کن اور موجودہ نتائج سے ملتی جلتی تھی۔بالکل ایسے جیسے کسی کیک کے مختلف سائز کے ٹکڑے کر کے ہر ایک کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے دے دیا جائے۔ ہر صوبے میں ایک علیحدہ رحجان نظر آ یا۔ سب سے بڑا set back کراچی میں ہواجہاں MQM نے clean sweep کیا۔ ہر طرف اس ترنگے کی بہارتھی۔زیادہ ترگھروں میں ایک عجیب ماحول نظر آیا۔ دادی جان بہو کی مخالفت میں پوتے کی چھیڑرہی ہیں کہ تمہاری سائیکل پنکچر ہوگئی ( IJIکانشان اس وقت سائیکل تھا۔جماعت بھی اس میں شامل تھی )۔ پتنگ باز سجنا کا گانا قومی نغمے کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔ جھنڈے کی رنگوں کے ملبوسات عام ہو ئے اور شایدچوڑیوں کاٹرینڈ بھی جبھی ایجاد ہوا ہو۔ (خالہ کی ان دنوں چاندی تھی لہذا ہمارے گھروں میں آمد کچھ کم ہو گئی تھی)۔
تفصیلات کا یہاں موقع نہیں! مختصر یہ کہ بے نظیر کو حکومت بنا نے کے لئے کراچی کی سیٹوں کی ضرورت پڑی ۔اس موقع پر بہن بھائی کا ایک نیا جوڑ سامنے آیا۔ منظر یہ تھا کہ کرتے پاجامے میں ملبوس دھلے دھلائے چہروں والے تازہ بہ تازہ لوگ جب اسلام آباد ائرپورٹ پر اترے تو سب حیران تھے کہ یہ مخلوق اب تک کہا ں تھی؟ اس وقت یہ ہی تبدیلی کے نعرے تھے!! نوجوانوں کی ترنگ تھی! سونامی کا لفظ تو بعد میں ڈکشنری میں شامل ہوا ہے۔ ہاں نعروں کا مفہوم یہ ہی تھا۔ مرکز میں بینظیر وزیر اعظم تھیں تو پنجاب میں وزیر اعلٰی نواز شریف! ( حیرت ناک مماثلت ہے کہ ان دنوں تین شریفوں کا جوڑ مشہور تھا نواز؍بابرہ؍اور عمر شریف جیسا کہ آج کل تین ملک کی مشہوری ہے۔رحمان ملک؍ وینا اور شعیب ملک۔ یہ جملہ معتر ضہ ہے! قارئین نوٹ کر لیں) باقی 90 جو ایک عام سا گھر تھا ایک بہت طاقت ور ادارہ بنادیا گیا۔ جسے آج دہشت اور بر بر یت کاسمبل سمجھا جاتا ہے۔
اب آ جائیں آج کے الیکشن میں! بات اس اشتہار کی تھی جس میں بلا گھماتے ہی مسائل حل ہوتے نظر آ رہے ہیں ! Fantasy کا شکار ایک نسل کس طرح ٹریپ ہوئی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں! پہلے پتنگ ہوا میں بلند ہوتے ہی سارے مسئلے ہوا ہو جاتے تھے اب بلا گھماتے ہی سب کچھ ہوتا دکھایا جارہا ہے۔ جس بچے نے اپنی آج سے پچیس سال پہلے اپنی توتلی زبان سے والدین کو پتنگ کو ووٹ دینے کا مشورہ دیاتھا۔ آج اسی کی ننھی منی بیٹی اپنے ماں باپ کو بلے پر مہر لگانے کا مشورہ دے رہی ہے! کیا ستم ظریفی ہے! ایک اور نسل جو پہلی دفعہ اپنا ووٹ کاسٹ کر نے نکلی اس کے سامنے ایک اور سراب! ایک اور دیوتا! ایک اور نجات دہندہ سامنے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خلا تھا جس کے باعث ایسا ہوا؟ جی نہیں! جماعت اسلامی روز اول سے موجود ہے۔ جان، مال کی قر بانیوں کے باوجودچٹان بنی کھڑی ہے! تو پھریوں کیوں ہوا کہ 70 سالہ جماعت محض 17سالہ جماعت سے ہار گئی؟ بلکہ نوزائیدہ ہی کہنا چاہیے کہ انتخابی معرکہ سے پہلے تو تن مردہ ہی تھی پھر یکایک کیسے اتنی طاقتور ہو گئی؟؟
پنڈورا باکس کھل رہاہے اور اسٹیبلشمنٹ کی کارستا نیاں نظر آ رہی ہیں جس کا آ غاز الیکشن سے بہت پہلے ہی ہو چکا تھا۔ دھاندلی انتخاب کے تینوں مر حلے pre,post & during (پہلے، بعد میں اور دوران ) بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی! کارکردگی اتنی زیادہ تھی کہ فی صد کی مقدار سینکڑوں سے تجاوز کر کے ماہرین شماریات کو الجھن میں ڈال گئی۔ فراڈ اور نوسر بازوں کا کوئی داؤ نہ چھوڑا گیا۔ تشدد کا کوئی حر بہ ایسا نہ تھا جو آزمانے سے رہ گیا ہو! اداروں کی ساکھ راکھ کاڈھیر نظر آ ئی۔ شفافیت کے معنی بدلنے پر غورہونے لگا۔ اس ساری صورت حال پر پوری قوم خاص طور پر حساس طبقہ سکتے کے عالم میں ہے، ہم اپنے موضوع پر پلٹتے ہیں! کہا جاتا ہے کہ سلطنت روما کو اس لئے زوال ہوا کہ اس زمانے میں اخبارات نہیں تھے یعنی میڈیا اتنا سرگرم نہیں تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ہر دور میں موجود رہا ہے مگر آج جتنا طاقتور ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ شخصیات کوتراشنے، سنوارنے، پروان چڑھانے اور پھر عروج کے بعد زوال کی طرف گامزن کرنا میڈیا کا مرغوب ترین کام ہے۔ تاریخ کے جھروکے میں جھانکنے کے بجائے ذاتی مشاہدات کی روشنی میں اس بات کو کہنا چاہیں گے۔
شخصیت پرستی کا جائزہ لیں تو ہر نسل کا ایک تراشا ہوا ہیرو ہوتاہے! حالات کو اپنی ایک ضرب سے ٹھیک کر دیتاہے۔ ہماری نسل کے بچپن میں بھٹو کا چارم تھا تو ہمارے بعد والی نسل (خیال رہے کہ ہر دس سال میں ایک نئی نسل سامنے آ تی ہے) کے لئے ضیاء الحق جیسا مرد مومن کا کردار ابھارا گیا ۔ (ہمیں اپنی ایک کزن یاد آ رہی ہے جو اپنے بچپن میں اتنا متاثر تھی کی ان جیسے بال بنا نے پر اصرار کرتی تھی)۔ اس کے بعدکے دور کا ہم پہلے ہی ذکر کرچکے ہیں ۔نوجوان قیادت سامنے لائی گئی تبدیلی کے نعرے ہر سو لگائے گئے۔بے نظیر کو دیکھ کر نہ جانے کتنے لوگ سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوئے۔ مجھے اپنی بھتیجی یاد آرہی ہے! جب بے نظیر کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو اس نے نیا نیا بولنا سیکھا تھا اسکا تبصرہ تھا ’’کوں(کیوں) ہٹا دیا۔ مجھے اچھی لگتی ہے (اس کی نقل کرتے ہوئے) ایسے پٹہ (دوپٹہ) اوڑھتی ہے۔۔۔‘‘
تو معزز قارئین!
حقیقت یہ ہے کہ قیادت یا ہیرو شپ تبدیل کر کے لوگوں کو ایک نئی لالی پاپ پکڑا دی جا تی ہے۔ اور بے چارے لوگ نئے نشان کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں کچھ ایسا ہی دور اس وقت ہے! MQM کا نعم البدل PTIکے طور پر پیش کی جارہی ہے۔ اٹھان وہی ہے۔ جیسے ان کے متعلق کہا جاتا تھا اتنی معصوم قیادت کہ منھ سے دودھ کی خوشبوآتی ہے۔ اب بھی پوتر ڈھونڈ کر لائے جا رہے ہیں گویا ایک نیا pied piper(بانسری والا) تخلیق کیا جا چکا ہے عمران خان کی شکل میں ! ہماری قوم کا مزاج ایسا ہے بلکہ ہر جگہ کی عوام ایسا ہی کرتی ہے کہ اچھے کردار ڈھنڈنے کے بجائے پاپولر جوجیتنے والا ہو اسے منتخب کر کے اپنی جیت پر خوش ہوتی ہے۔
ہاں مجھے تھوڑا سا فرق جو پچیس سال بعد والا فرق نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ پہلے گھروں میں مزاحمت نظر آئی تھی پرانی اور نئی نسل کے ہیروشپ میں مگر آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ والدین ہاتھ چھوڑ کر بیٹھے ہیں کہ جسے ہمارا بیٹا، داماد یا پھر بہو بیٹی کہے گی اسے ہی ووٹ دے کر کا میاب کرائیں گے۔ پتہ نہیں یہ مصلحت ہے یا حالات کا درست ادراک! چلیں چھوڑیں! دیکھیں یہ بچہ کیا کہہ رہا ہے ؟؟
’’پاپا! بلے کو ووٹ دینا ہے پھر جیتے گاتو مجھے بھی بلا دلانا ہے ایسا ٹھک کر کے۔۔۔‘‘
ذراموضوع پر واپس چلیں!
وہ بچی جس نے اپنے بچپن میں ایک شخص کو جیل سے نکلوانے کا نعرہ بلند کیا ہو، اپنا ووٹ اور نوٹ دیا ہو آج لندن پولیس سے رابطہ کررہی ہو اسے سزا دلوانے کے لئے! یاپھر لندن کی سڑک پر مظاہرہ!!!
۷۰ سالہ جماعت اسلامی کا ذکر ہوا ہے تو ایک سوال ذہن میں پیدا ہو گیا کہ کیا جماعت اسلامی اپنی صحیح تصویر پیش کر سکی ہے عوام میں جو اس کی ہے؟ اگر ہاں تو کمزوری کہاں ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ کس طرح پیش کی جا سکے گی؟
میرے خیال میں لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے۔ (لوہے سے آپ کا دھیان ٹی ٹی پستول اور کلاشنکوف کی طرف نہ جائے) بے شک جماعت اسلامی صالح لوگوں کی بڑی منظم جماعت ہے لیکن اپنی ہیئتِ ترکیبی کی بنا پر وہ ایک عوامی جماعت بننے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ماچھی گوٹھ سے لیکر اب تک پورے ساٹھ سال گزر چکے ہیں ۔ یہ ایک لمبا عرصہ بنتا ہے۔ اس دوران جنھیں ابھرنا ہوتا ہے وہ اسی طرح کے نظریے کے باوجود ناصر، سادات اور مبارک کی آمریتوں کے ظلم و ستم سہہ سہہ کر بھی ابھر آتے ہیں۔ ایک سیلاب کی مانند سب خش و خاشاک بہا لے جاتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی میں اپنی ہمشیرہ مصری جماعت والی کوئی بات نہیں۔ یہ اسلام کی اپنی تعبیر پر عوام الناس کو نہ تو قائل کر سکے ہے نہ گراس روٹ سطح پر پورے ملک میں خدمت خلق کر کے لوگوں کے دل جیت سکی ہے۔ اخوان والوں نے ان دونوں محاذوں پر کام کیا اور کامران ٹھہرے۔
پی ٹی آئی کا ہمدرد نہ ہونے کے باوجود مین یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی اپیل ہر عام آدمی تک ہے۔ اس پر کوئی فرقہ وارانہ یا مخصوص تعبیر دین کا کوئی لیبل نہیں۔ تمام فرقوں کے لوگ ہر سطح کے عہدوں پر فائز ہیں۔ پروگرام بھی عوام الناس کے دکھوں کے مداوے کا دعویدار ہے۔ الخدمت فاونڈیشن کے بے شمار منصوبے بجا لیکن اکیلا شوکت خانم ان سب پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے عوام نے اس جماعت سے امید لگائی ہے۔
جماعت اسلامی والوں کو اب اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ترک کر کے کراچی کے دہشت گردوں کا سیاسی میدان میں عملی مقابلہ کرنے کی صلاحیت پا لینے والی اس جماعت کے ساتھ اتحاد و اشتراک کا ڈول ڈالنا چاہیے۔ ہوسکے تو دیگر پُر امن جماعتوں کو بھی ساتھ ملائیں اور اگلے الیکشن میں دہشت گردوں کو سیاسی میدان سے مار بھگانے کی ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی کا حامی نہ ہونے کے باوجود میں کراچی میں اس ملک گیر جماعت کی اٹھان کو ملک و ملت کے لیے ایک نیک فال سمجھتا ہوں۔
اس وقت شریعت یا شہادت والے اتنے جنونی نہیں ہوئے تھے جی۔
اس وقت یہ طالبان جنونی بھی نہیں تھے۔
اس وقت سوشل میڈیا بھی اتنا فعال نہیں تھا۔
اس وقت کا ہیرو الطاف حسین ساٹھ سال کا عمران خان نہیں تھا۔
اس وقت کا پاکستان اتنا منقسم نہیں تھا۔
اس وقت فوج اتنی دبی ہوئی نہیں تھی۔
اس وقت بلوچستان میں آگ نہیں لگی ہوئی تھی۔
اس وقت اتنی بھوک نہیں تھی جتنی آج ہے۔
اس حکومت نے اگر اگلے پانچ سال کچھ نہ کر کے دکھایا تو اس بار انتخابات نہیں کچھ اور ہی ہو گا۔
چاہے وہ خمینی کے ایران والا جنونی خونی انقلاب ہو، یا کچھ اور۔
آپ آج کے حالات کو انڈر ایسٹیمیٹ نہ کریں۔
ہمیں جماعت اِسلامی ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کا تقابل کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیئے۔اِن جماعتوں کے مقاصد طریقہ اور اہداف میں واضع فرق ہے۔الیکشن جماعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے ورنہ دعوتِ اللہ ایک وسیع عمل ہے اور اِس کا بدلہ اگلی دنیا میں ملے گا یہاں اگر کچھ کامیابی حاصل ہو جائے تو کارکنان کے حوصلے ضرور بلند ہو جاتے ہیں اور خدمت اور دین کے احکامات کے نفاذ کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔میرے خیال میں جماعتِ اسلامی کو اپنی کمزوریوں کا جا ئزہ لے کر طریقہ کار میں بہتری پیدا کرنی چاہئے اور اپنے نشان اور پرچم کے ساتھ ہی آئندہ ضمنی الیکشن میں میں بھی حصہ لینا چاہئے۔
کل کے مظلوم آج کے فاشسٹ
مگر عوا م کی سمجھ میں اس وقت آتا ہے جب ناقابل تلافی نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا
اب تحریک انصاف کی حقیقت کھلنے کا انتظار کریں
i seriously dont know why jammat has failed to become an awami party as in trehreek e insaaf , jammat’s karkun are so traineds and devoted and they are the actuall shareiff people in the muhalla no body can point a finger towards them for any wrong yet people vote for the non shareiffs. this nation has no future we dont want islami nizam actually. pardon me for being rude but jaheez box mangney aur rashan k liye jamat lekin vote BIBI ka hy. same with shehri areas jotey kha k b vote bhai ko hi dena hy either for the sake of dear life or for the make believe fear of being wiped out by punjabis..